Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: A Muslim should not be killed for killing a Kafir)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6915.
حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں حضرت علی ؓ سے پوچھا: آپ لوگوں کے پاس کوئی چیزہے جو قرآن میں نہ ہو یا جو لوگوں کے پاس نہ ہو؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے غلہ اگایا اور مخلوقات کو پیدا کیا! ہمارے پاس وہی ہے جو اس قرآن میں ہے۔ ہاں، وہ فہم و فراست ہے جو اللہ تعالٰی کسی کو قرآن کے متعلق عطا کرتا ہے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے، میں نے کہا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس میں دیت اور قیدی چھڑانے کے احکام ہیں اور یہ (بھی ہے) کہ کوئی مسلمان کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے شدید وعید پر مشتمل سابقہ عنوان کے بعد یہ عنوان اس لیے ذکر نہیں کیا کہ کسی ذمی کے بدلے میں مسلمان کو قتل کر دیا جائے جب مسلمان اسے دانستہ قتل کر دے بلکہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جب کوئی مسلمان کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا تو اس کا یہ مفہوم نہیں کہ مسلمان ہر کافر کو موت کے گھاٹ اتار دے بلکہ حق کے بغیر ایک ذمی یا معاہد کو قتل کرنا بھی حرام ہے۔ (فتح الباري:325/12) (2) مسلمان کو ذمی کے بدلے میں قتل کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ ذمی بھی کافر ہے، اس لیے مسلمان کو اس کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ اہل کوفہ کہتے ہیں کہ ذمی کے بدلے میں مسلمان کو قتل کیا جائے گا۔ انھوں نے اس سلسلے میں ایک روایت کا سہارا لیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاہد کے بدلے میں مسلمان کو قتل کیا اور فرمایا: ’’میں اہل ذمہ کے ذمہ کو پورا کرنے کا زیادہ حق دار ہوں۔‘‘ (سنن الدار قطنی:135/3) اس حدیث کے متعلق امام دار قطنی رحمہ اللہ نے سخت جرح کی ہے کہ اسے ابراہیم بن ابی یحییٰ بیان کرتا ہے جو متروک الحدیث ہے، نیز اسے ابن بیلمانی نے بیان کیا ہے اور وہ انتہائی ضعیف ہے۔ اس کے باوجود وہ اس حدیث کو مرسل بیان کرتا ہے۔ (سنن الدار قطنی:135/3) اگر اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ منسوخ ہے کیونکہ مومن کو کافر کے بدلے میں نہ قتل کرنے پر مشتمل حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی۔ (فتح الباري:327/12) جمہور کے مبنی بر حقیقت موقف کے پیش نظر اہل کوفہ میں سے امام زفر نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي:31/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6667
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6915
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6915
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6915
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں حضرت علی ؓ سے پوچھا: آپ لوگوں کے پاس کوئی چیزہے جو قرآن میں نہ ہو یا جو لوگوں کے پاس نہ ہو؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے غلہ اگایا اور مخلوقات کو پیدا کیا! ہمارے پاس وہی ہے جو اس قرآن میں ہے۔ ہاں، وہ فہم و فراست ہے جو اللہ تعالٰی کسی کو قرآن کے متعلق عطا کرتا ہے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے، میں نے کہا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس میں دیت اور قیدی چھڑانے کے احکام ہیں اور یہ (بھی ہے) کہ کوئی مسلمان کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے شدید وعید پر مشتمل سابقہ عنوان کے بعد یہ عنوان اس لیے ذکر نہیں کیا کہ کسی ذمی کے بدلے میں مسلمان کو قتل کر دیا جائے جب مسلمان اسے دانستہ قتل کر دے بلکہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جب کوئی مسلمان کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا تو اس کا یہ مفہوم نہیں کہ مسلمان ہر کافر کو موت کے گھاٹ اتار دے بلکہ حق کے بغیر ایک ذمی یا معاہد کو قتل کرنا بھی حرام ہے۔ (فتح الباري:325/12) (2) مسلمان کو ذمی کے بدلے میں قتل کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ ذمی بھی کافر ہے، اس لیے مسلمان کو اس کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ اہل کوفہ کہتے ہیں کہ ذمی کے بدلے میں مسلمان کو قتل کیا جائے گا۔ انھوں نے اس سلسلے میں ایک روایت کا سہارا لیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاہد کے بدلے میں مسلمان کو قتل کیا اور فرمایا: ’’میں اہل ذمہ کے ذمہ کو پورا کرنے کا زیادہ حق دار ہوں۔‘‘ (سنن الدار قطنی:135/3) اس حدیث کے متعلق امام دار قطنی رحمہ اللہ نے سخت جرح کی ہے کہ اسے ابراہیم بن ابی یحییٰ بیان کرتا ہے جو متروک الحدیث ہے، نیز اسے ابن بیلمانی نے بیان کیا ہے اور وہ انتہائی ضعیف ہے۔ اس کے باوجود وہ اس حدیث کو مرسل بیان کرتا ہے۔ (سنن الدار قطنی:135/3) اگر اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ منسوخ ہے کیونکہ مومن کو کافر کے بدلے میں نہ قتل کرنے پر مشتمل حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی۔ (فتح الباري:327/12) جمہور کے مبنی بر حقیقت موقف کے پیش نظر اہل کوفہ میں سے امام زفر نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي:31/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے، کہا ہم سے مطرف بن طریف نے، ان سے عامر شعبی نے بیان کیا۔ ابوجحیفہ سے روایت کر كے، کہا میں نے علی ؓ سے کہا۔ (دوسری سند) امام بخاری نے کہا اور ہم سے صدقہ بن فضل نے، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا ہم سے مطرف بن طریف نے بیان کیا، کہا میں نے عامر شعبی سے سنا، وہ بیان کرتے تھے میں نے جحیفہ سے سنا، انہوں نے کہا میں نے علی ؓ سے پوچھا کیا تمہارے پاس اور بھی کچھ آیتیں یا سورتیں ہیں جو اس قرآن میں نہیں ہیں (یعنی مشہور مصحف میں) اور کبھی سفیان بن عیینہ نے یوں کہا کہ جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہیں۔ حضرت علی ؓ نے کہا قسم اس خدا کی جس نے دانہ چیر کر اگایا اور جان کو پیدا کیا ہمارے پاس اس قرآن کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ البتہ ایک سمجھ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی جس کو چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے اور وہ جو اس ورق میں لکھا ہوا ہے۔ ابوجحیفہ نے کہا اس ورق میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے کہا دیت اور قیدی چھڑانے کے احکام اور یہ مسئلہ کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
حنفیہ نے اس صحیح حدیث کو جو اہل بیت رسالت سے مروی ہے چھوڑ کر ایک ضعیف حدیث سے دلیل لی ہے جس کو دارقطنی اور بیہقی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کو کافر کے بدلے قتل کرایا حالانکہ دارقطنی نے خود صراحت کر دی ہے کہ اس کا راوی ابراہیم ضعیف ہے اور بیہقی نے کہا کہ یہ حدیث راوی کی غلطی ہے اور بحالت انفراد ایسی روایت حجت نہیں۔ خصوصاً جبکہ مرسل بھی ہو اور مخالف بھی ہو۔ احادیث صحیحہ کے حافظ نے کہا اگر تسلیم بھی کر لیں کہ یہ واقعہ صحیح نہيں ہے یہ حدیث اس حدیث سے منسوخ نہ ہوگی کیوں کہ یہ حدیث لایُقتَلُ مُسلم بِکَافر آپ نے فتح مکہ کے دن فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Juhaifa (RA) : I asked 'Ali "Do you have anything Divine literature besides what is in the Qur'an?" Or, as Uyaina once said, "Apart from what the people have?" 'Ali said, "By Him Who made the grain split (germinate) and created the soul, we have nothing except what is in the Qur'an and the ability (gift) of understanding Allah's Book which He may endow a man, with and what is written in this sheet of paper." I asked, "What is on this paper?" He replied, "The legal regulations of Diya (Blood-money) and the (ransom for) releasing of the captives, and the judgment that no Muslim should be killed in Qisas (equality in punishment) for killing a Kafir (disbeliever)."