باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں فرمایا’’شرک بڑا گناہ ہے‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Apostates
(Chapter: The sin of the person who ascribes partners in worship to Allah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورۂ زمر میں فرمایا’’اے پغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے سارے نیک اعمال اکارت ہو جائیں گے اور ٹوٹا پانے والوں(یعنی کافروں اور مشرکوں)میں شریک ہو جائے گا۔‘‘تشریح :حالانکہ پیغمبروں سے شرک نہیں ہوسکتا مگر یہ برسبیل فرض اور تقدیر فرمایا اور اس سے امت کو ڈرانا منظور ہے کہ شرک ایسا سخت گناہ ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ سے بھی سرزد ہوجائے جو سارے جہاں سے زیادہ اللہ کے مقرب اور محبوب بندے ہیں تو ساری عزت چھن جائے اور راندہ درگاہ ہوجائیں معاذ اللہ پھر دوسرے لوگوں کا کیا ٹھکانا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ جو بات بالاتفاق شرک ہے اس سے اور جس بات کے شرک ہونے میں اختلاف ہے اس سے بھی بچارہے ایسا نہ ہو کہ وہ شرک ہو اور اس کے ارتکاب سے تباہ ہوجائے تمام اعمال خیرباد ہوجائیں۔
6919.
حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا ہے پھر والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ دہرائی۔ یا فرمایا: ”جھوٹی بات کرنا ہے۔“ پھر بار بار یہی فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے آرزو کی: کاش! آپ خاموش ہو جائیں۔
تشریح:
اس حدیث میں شرک کو اکبر الکبائر کہا گیا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک پر جنت کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کررکھی ہے۔اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔‘‘(المائدة:5: 72) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کو اکبر الکبائر اور زنا کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، دراصل ہر مقام میں حدیث اپنے مقتضیٰ کے مطابق اور حاضرین کے حال کے مناسب ذکر کی جاتی ہے بہرحال شرک کے اکبر الکبائر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ (عمدةالقاري:195/16)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6671
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6919
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6919
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6919
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
تمہید باب
کسی چیز کو اس کے اصل مقام کے بجائے دوسری جگہ پر رکھنا ظلم ہے۔شرک میں بھی یہی ہوتا ہے کیونکہ مشرک ایک حقیر مخلوق جسے خالق نے عدم سے وجود بخشا اسے اللہ تعالیٰ کے برابر کرتا ہے۔گویا مشرک نے مخلوق کو اصل مقام سے اٹھا کر دوسری جگہ پر رکھ دیا ہے،پھر نعمت کو اس کے دینے والے کے بجائے دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے۔ پہلی آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک سے بڑھ کر کوئی دوسرا گناہ بڑا اور سنگین نہیں ہے۔دوسری آیت کریمہ میں اگرچہ مخاطب اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں کیونکہ حضرات انبیاء علیہ السلام سے شرک نہیں ہوسکتا۔اس انداز سے امت کو ڈرانا مقصود ہے کہ شرک ایسا سنگین اور خطرناک جرم ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سرزد ہوجائے تو ان کی تمام عزت چھن جائے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی وقار سے دور کردیے جائیں،پھر ان کے علاوہ دوسروں کا کیا ٹھکانا ہوگا۔شرک ایک ایسا جرم ہے جس کے حرام ہونے پر تمام انبیاء علیہ السلام کا اجماع ہے۔ اس کے ارتکاب سے تمام نیک اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔واضح رہے کہ اعمال کا باطل ہونا موت کے ساتھ مقید ہے،یعنی اگر موت شرک پر ہوئی تو ان کے تمام نیک اعمال برباد،ضائع اور رائیگاں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے،پھر اس حال میں موت آئے کہ وہ کافر ہوتو ایسے لوگوں کے اعمال دنیاوآخرت (دونوں) میں ضائع ہوگئے اور یہی لوگ آگ والے ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔"(البقرہ2: 217) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرک کی خطرناکی اور سنگینی سے آگاہ کرنےکے لیےیہ دونوں آیتیں بیان کی ہیں۔(فتح الباری:12/321)
اور سورۂ زمر میں فرمایا’’اے پغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے سارے نیک اعمال اکارت ہو جائیں گے اور ٹوٹا پانے والوں(یعنی کافروں اور مشرکوں)میں شریک ہو جائے گا۔‘‘تشریح :حالانکہ پیغمبروں سے شرک نہیں ہوسکتا مگر یہ برسبیل فرض اور تقدیر فرمایا اور اس سے امت کو ڈرانا منظور ہے کہ شرک ایسا سخت گناہ ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ سے بھی سرزد ہوجائے جو سارے جہاں سے زیادہ اللہ کے مقرب اور محبوب بندے ہیں تو ساری عزت چھن جائے اور راندہ درگاہ ہوجائیں معاذ اللہ پھر دوسرے لوگوں کا کیا ٹھکانا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ جو بات بالاتفاق شرک ہے اس سے اور جس بات کے شرک ہونے میں اختلاف ہے اس سے بھی بچارہے ایسا نہ ہو کہ وہ شرک ہو اور اس کے ارتکاب سے تباہ ہوجائے تمام اعمال خیرباد ہوجائیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا ہے پھر والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ دہرائی۔ یا فرمایا: ”جھوٹی بات کرنا ہے۔“ پھر بار بار یہی فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے آرزو کی: کاش! آپ خاموش ہو جائیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں شرک کو اکبر الکبائر کہا گیا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک پر جنت کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کررکھی ہے۔اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔‘‘(المائدة:5: 72) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کو اکبر الکبائر اور زنا کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، دراصل ہر مقام میں حدیث اپنے مقتضیٰ کے مطابق اور حاضرین کے حال کے مناسب ذکر کی جاتی ہے بہرحال شرک کے اکبر الکبائر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ (عمدةالقاري:195/16)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے“ نیز فرمایا: ”اگر آپ نے شرک کیا تو یقیناً آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا اور آپ ضرور بالضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشربن مفضل نے، کہا ہم سے سعید بن ایاس جریری نے۔ (دوسری سند) امام بخاری نے کہا اور مجھ سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے، کہا ہم کو سعید جریری نے خبر دی، کہا ہم سے عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد (ابوبکرہ صحابی) سے، انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بڑے سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے اور ماں باپ کو ستانا (ان کی نافرمانی کرنا) اور جھوٹی گواہی دینا، جھوٹی گواہی دینا۔ تین بار یہی فرمایا یوں فرمایا اور جھوٹ بولنا برابر بار بار آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے آرزو کی کہ کاش آپ خاموش ہو رہتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA) : (RA) : The Prophet. said, "The biggest of the great sins are: To join others in worship with Allah, to be undutiful to one's parents, and to give a false witness." He repeated it thrice, or said, "....a false statement," and kept on repeating that warning till we wished he would stop saying it. (See Hadith No.7, Vol. 8)