باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں فرمایا’’شرک بڑا گناہ ہے‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Apostates
(Chapter: The sin of the person who ascribes partners in worship to Allah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورۂ زمر میں فرمایا’’اے پغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے سارے نیک اعمال اکارت ہو جائیں گے اور ٹوٹا پانے والوں(یعنی کافروں اور مشرکوں)میں شریک ہو جائے گا۔‘‘تشریح :حالانکہ پیغمبروں سے شرک نہیں ہوسکتا مگر یہ برسبیل فرض اور تقدیر فرمایا اور اس سے امت کو ڈرانا منظور ہے کہ شرک ایسا سخت گناہ ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ سے بھی سرزد ہوجائے جو سارے جہاں سے زیادہ اللہ کے مقرب اور محبوب بندے ہیں تو ساری عزت چھن جائے اور راندہ درگاہ ہوجائیں معاذ اللہ پھر دوسرے لوگوں کا کیا ٹھکانا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ جو بات بالاتفاق شرک ہے اس سے اور جس بات کے شرک ہونے میں اختلاف ہے اس سے بھی بچارہے ایسا نہ ہو کہ وہ شرک ہو اور اس کے ارتکاب سے تباہ ہوجائے تمام اعمال خیرباد ہوجائیں۔
6921.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: ”اللہ کے رسول! ہم نے جو گناہ زمانہ جاہلیت میں کیے ہیں کہ ان کا مؤاخذہ بھی ہم سے ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اسلام کی حالت میں نیک اعمال کرتا رہا اس سے پہلے اور بعد والے دونوں گناہوں کے متعلق باز پرس ہوگی۔“
تشریح:
(1) اسلام لانے ست دور جاہلیت کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’اسلام، پہلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:321(121) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ ان کافروں سے کہہ دیجیے کہ اگر وہ اب بھی باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ (الأنفال8: 38) اس صورت حال کے پیش نظر حدیث بالا کا یہ مفہوم ہے کہ اسلام لانے کے بعد بھی اگر کوئی گناہوں پر اصرار کرتا رہے تو اسے زمانۂ کفر کے گناہوں پر شرمندگی دلائی جائے گی، گویا اسے کہا جائے گا: تونے ایسا ایسا نہیں کیا تھا جبکہ تو کافر تھا، اسلام لانے کے بعد ان گناہوں سے باز کیوں نہ آیا، چنانچہ اسلام لانے کے بعد جو گناہ ہوں گے ان پر مؤاخذہ ہوگا اور اس سے پہلے جو گناہ سرزد ہوئے تھے، ان پر شرمندگی دلائی جائے گی۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسلام میں اساءت کا مفہوم مرتد ہو جانا ہے کیونکہ اسلام لانے کے بعد سب سے بڑا گناہ کفر اختیار کرنا ہے۔ اگر کسی کو اسی حالت میں موت آگئی تو اس سے تمام گناہوں کا مؤاخذہ ہوگا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کیونکہ انھوں نے اس حدیث کو اکبر الکبائر پر مشتمل حدیث کے بعد ذکر کیا ہے، اور مذکورہ تمام احادیث کو مرتدین کے عنوان میں بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:333/12) (3) علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ اسلام میں اساءت کے یہ معنی ہیں کہ اس کا اسلام صحیح نہ ہو، یا اس کا ایمان خالص نہ ہو بلکہ اس میں منافقت پائی جائے۔ (عمدة القاري:196/16) ہمارے رجحان کے مطابق اسلام میں اساءت سے مراد دین سے ارتداد ہے، اور اسلام میں احسان سے مراد، اس پر ہمیشگی ودوام اور ترک معاصی (گناہ) ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6673
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6921
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6921
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6921
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
تمہید باب
کسی چیز کو اس کے اصل مقام کے بجائے دوسری جگہ پر رکھنا ظلم ہے۔شرک میں بھی یہی ہوتا ہے کیونکہ مشرک ایک حقیر مخلوق جسے خالق نے عدم سے وجود بخشا اسے اللہ تعالیٰ کے برابر کرتا ہے۔گویا مشرک نے مخلوق کو اصل مقام سے اٹھا کر دوسری جگہ پر رکھ دیا ہے،پھر نعمت کو اس کے دینے والے کے بجائے دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے۔ پہلی آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک سے بڑھ کر کوئی دوسرا گناہ بڑا اور سنگین نہیں ہے۔دوسری آیت کریمہ میں اگرچہ مخاطب اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں کیونکہ حضرات انبیاء علیہ السلام سے شرک نہیں ہوسکتا۔اس انداز سے امت کو ڈرانا مقصود ہے کہ شرک ایسا سنگین اور خطرناک جرم ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سرزد ہوجائے تو ان کی تمام عزت چھن جائے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی وقار سے دور کردیے جائیں،پھر ان کے علاوہ دوسروں کا کیا ٹھکانا ہوگا۔شرک ایک ایسا جرم ہے جس کے حرام ہونے پر تمام انبیاء علیہ السلام کا اجماع ہے۔ اس کے ارتکاب سے تمام نیک اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔واضح رہے کہ اعمال کا باطل ہونا موت کے ساتھ مقید ہے،یعنی اگر موت شرک پر ہوئی تو ان کے تمام نیک اعمال برباد،ضائع اور رائیگاں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے،پھر اس حال میں موت آئے کہ وہ کافر ہوتو ایسے لوگوں کے اعمال دنیاوآخرت (دونوں) میں ضائع ہوگئے اور یہی لوگ آگ والے ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔"(البقرہ2: 217) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرک کی خطرناکی اور سنگینی سے آگاہ کرنےکے لیےیہ دونوں آیتیں بیان کی ہیں۔(فتح الباری:12/321)
اور سورۂ زمر میں فرمایا’’اے پغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے سارے نیک اعمال اکارت ہو جائیں گے اور ٹوٹا پانے والوں(یعنی کافروں اور مشرکوں)میں شریک ہو جائے گا۔‘‘تشریح :حالانکہ پیغمبروں سے شرک نہیں ہوسکتا مگر یہ برسبیل فرض اور تقدیر فرمایا اور اس سے امت کو ڈرانا منظور ہے کہ شرک ایسا سخت گناہ ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ سے بھی سرزد ہوجائے جو سارے جہاں سے زیادہ اللہ کے مقرب اور محبوب بندے ہیں تو ساری عزت چھن جائے اور راندہ درگاہ ہوجائیں معاذ اللہ پھر دوسرے لوگوں کا کیا ٹھکانا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ جو بات بالاتفاق شرک ہے اس سے اور جس بات کے شرک ہونے میں اختلاف ہے اس سے بھی بچارہے ایسا نہ ہو کہ وہ شرک ہو اور اس کے ارتکاب سے تباہ ہوجائے تمام اعمال خیرباد ہوجائیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: ”اللہ کے رسول! ہم نے جو گناہ زمانہ جاہلیت میں کیے ہیں کہ ان کا مؤاخذہ بھی ہم سے ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اسلام کی حالت میں نیک اعمال کرتا رہا اس سے پہلے اور بعد والے دونوں گناہوں کے متعلق باز پرس ہوگی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اسلام لانے ست دور جاہلیت کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’اسلام، پہلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:321(121) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ ان کافروں سے کہہ دیجیے کہ اگر وہ اب بھی باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ (الأنفال8: 38) اس صورت حال کے پیش نظر حدیث بالا کا یہ مفہوم ہے کہ اسلام لانے کے بعد بھی اگر کوئی گناہوں پر اصرار کرتا رہے تو اسے زمانۂ کفر کے گناہوں پر شرمندگی دلائی جائے گی، گویا اسے کہا جائے گا: تونے ایسا ایسا نہیں کیا تھا جبکہ تو کافر تھا، اسلام لانے کے بعد ان گناہوں سے باز کیوں نہ آیا، چنانچہ اسلام لانے کے بعد جو گناہ ہوں گے ان پر مؤاخذہ ہوگا اور اس سے پہلے جو گناہ سرزد ہوئے تھے، ان پر شرمندگی دلائی جائے گی۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسلام میں اساءت کا مفہوم مرتد ہو جانا ہے کیونکہ اسلام لانے کے بعد سب سے بڑا گناہ کفر اختیار کرنا ہے۔ اگر کسی کو اسی حالت میں موت آگئی تو اس سے تمام گناہوں کا مؤاخذہ ہوگا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کیونکہ انھوں نے اس حدیث کو اکبر الکبائر پر مشتمل حدیث کے بعد ذکر کیا ہے، اور مذکورہ تمام احادیث کو مرتدین کے عنوان میں بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:333/12) (3) علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ اسلام میں اساءت کے یہ معنی ہیں کہ اس کا اسلام صحیح نہ ہو، یا اس کا ایمان خالص نہ ہو بلکہ اس میں منافقت پائی جائے۔ (عمدة القاري:196/16) ہمارے رجحان کے مطابق اسلام میں اساءت سے مراد دین سے ارتداد ہے، اور اسلام میں احسان سے مراد، اس پر ہمیشگی ودوام اور ترک معاصی (گناہ) ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے“ نیز فرمایا: ”اگر آپ نے شرک کیا تو یقیناً آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا اور آپ ضرور بالضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، انہوں نے منصور اور اعمش سے، انہوں نے ابووائل سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے، انہوں نے کہا ایک شخص (نام نامعلوم) نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم نے جو گناہ (اسلام لانے سے پہلے) جاہلیت کے زمانہ میں کيے ہیں کیا ان کا مواخذہ ہم سے ہوگا؟ آپ نے فرمایا جو شخص اسلام کی حالت میں نیک اعمال کرتا رہا اس سے جاہلیت کے گناہوں کا مواخذہ نہ ہوگا (اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا) اور جو شخص مسلمان ہو کر بھی برے کام کرتا رہا اس سے دونوں زمانوں کے گناہوں کا مواخذہ ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم یہ ہوا کہ اسلام جاہلیت کے تمام برے کاموں کو مٹاتا ہے۔ اسلام لانے کے بعد جاہلیت کا کام نہ کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Mas'ud (RA) : A man said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall we be punished for what we did in the Prelslamic Period of ignorance?" The Prophet (ﷺ) said, "Whoever does good in Islam will not be punished for what he did in the Pre-lslamic Period of ignorance and whoever does evil in Islam will be punished for his former and later (bad deeds)."