باب: جو شخص اسلام کے فرض ادا کرنے سے انکار کرے اور جو شخص مرتد ہوجائے اس کا قتل کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Apostates
(Chapter: Killing those who refuse to fulfil the duties enjoined by Allah, and considering them as apostates)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6925.
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو اس شخص سے ضرور بالضرور جنگ کروں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھس سے بکری کا بچہ لیں جو رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اسکے نہ دینے پھر بھی ان سے جنگ کروں گا، حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اس بات کے بعد میں سمجھ گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ پیدا ہوا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور میں نے پہچان لیا کہ ابو بکر ؓ کی رائے برحق ہے۔
تشریح:
(1) جو شخص فرائض، مثلاً: زکاۃ وغیرہ دینے سے انکار کرتا ہے، اس کے متعلق تحقیق کی جائے، اگر وہ وجوب کا قائل ہے لیکن دینے سے انکار کرتا ہے تو اس سے جبراً زکاۃ وصول کی جائے اور اس جنگ نہ کی جائے اور اگر انکار کرنے کے ساتھ ساتھ لڑائی کرنے پر آمادہ ہے تو پھر ایسے شخص کو معاف نہ کیا جائے بلکہ ایسے شخص سے قتال کیا جائے۔ (2) دراصل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مرتدین کی تین قسمیں حسب ذیل تھیں: ٭ایک وہ لوگ تھے جو بتوں کی پوجا پاٹ میں لگ گئے اور اسلام کو خیر باد کہہ دیا۔٭ایک وہ گروہ تھا جنھوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کی پیروی اختیار کرلی۔ ٭ ایسی جماعت بھی تھی جو اسلام کا اقرار کرتے تھے لیکن زکاۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور انھوں نے خیال کیا کہ زکاۃ کی ادائیگی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے خاص تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس آخری قسم کے متعلق بحث کی کہ ان سے لڑائی جائز نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زکاۃ نہ دینے والوں سے اس لیے جنگ کرنے کا ارادہ کیا کہ انھوں نے بزور شمشیر زکاۃ روکی تھی اور مسلمانوں کے خلاف محاذ جنگ کھول دیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ نماز اور زکاۃ کا معاملہ ایک ہے۔ اگر کوئی دانستہ نماز تارک ہے تو اس سے جنگ کی جائے گی اسی طرح اگر کوئی زکاۃ نہ دے تو اس سے جبراً وصول کی جائے گی۔ اگر وہ اس کے لیے جنگ کرے تو اس سے جنگ کی جائے گی۔ آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قائم کردہ دلیل سے حق کو پہچان لیا اور پوری طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف سے متفق ہو گئے۔ (فتح الباري:347/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6676.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6925
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6925
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6925
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تو اس شخص سے ضرور بالضرور جنگ کروں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھس سے بکری کا بچہ لیں جو رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اسکے نہ دینے پھر بھی ان سے جنگ کروں گا، حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اس بات کے بعد میں سمجھ گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ پیدا ہوا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور میں نے پہچان لیا کہ ابو بکر ؓ کی رائے برحق ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) جو شخص فرائض، مثلاً: زکاۃ وغیرہ دینے سے انکار کرتا ہے، اس کے متعلق تحقیق کی جائے، اگر وہ وجوب کا قائل ہے لیکن دینے سے انکار کرتا ہے تو اس سے جبراً زکاۃ وصول کی جائے اور اس جنگ نہ کی جائے اور اگر انکار کرنے کے ساتھ ساتھ لڑائی کرنے پر آمادہ ہے تو پھر ایسے شخص کو معاف نہ کیا جائے بلکہ ایسے شخص سے قتال کیا جائے۔ (2) دراصل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مرتدین کی تین قسمیں حسب ذیل تھیں: ٭ایک وہ لوگ تھے جو بتوں کی پوجا پاٹ میں لگ گئے اور اسلام کو خیر باد کہہ دیا۔٭ایک وہ گروہ تھا جنھوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کی پیروی اختیار کرلی۔ ٭ ایسی جماعت بھی تھی جو اسلام کا اقرار کرتے تھے لیکن زکاۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور انھوں نے خیال کیا کہ زکاۃ کی ادائیگی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے خاص تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس آخری قسم کے متعلق بحث کی کہ ان سے لڑائی جائز نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زکاۃ نہ دینے والوں سے اس لیے جنگ کرنے کا ارادہ کیا کہ انھوں نے بزور شمشیر زکاۃ روکی تھی اور مسلمانوں کے خلاف محاذ جنگ کھول دیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ نماز اور زکاۃ کا معاملہ ایک ہے۔ اگر کوئی دانستہ نماز تارک ہے تو اس سے جنگ کی جائے گی اسی طرح اگر کوئی زکاۃ نہ دے تو اس سے جبراً وصول کی جائے گی۔ اگر وہ اس کے لیے جنگ کرے تو اس سے جنگ کی جائے گی۔ آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قائم کردہ دلیل سے حق کو پہچان لیا اور پوری طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف سے متفق ہو گئے۔ (فتح الباري:347/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے کہا میں تو خدا کی قسم اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے، اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا حق ہے) خدا کی قسم اگر یہ لوگ مجھ کو ایک بکری کا بچہ نہ دیں گے جو آنحضرت ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے نہ دینے پر ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا قسم خدا کی اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر ؓ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ ابوبکر ؓ کی رائے حق ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Bakr (RA) said, "By Allah! I will fight whoever differentiates between prayers and Zakat as Zakat is the right to be taken from property (according to Allah's Orders). By Allah! If they refused to pay me even a kid they used to pay to Allah's Apostle, I would fight with them for withholding it." 'Umar said, "By Allah: It was nothing, but I noticed that Allah opened Abu Bakr's chest towards the decision to fight, therefore I realized that his decision was right."