باب: خارجیوں اور بے دینوں سے ان پر دلیل قائم کرکے لڑنا
)
Sahi-Bukhari:
Apostates
(Chapter: Killing Al-Khawarij and Al-Mulhidun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد (یعنی ایمان کی توفیق دینے کے بعد) ان سے مواخذہ کرے جب تک ان سے بیان نہ کرے کہ فلاں فلاں کاموں سے بچے رہو۔“ اور عبداللہ بن عمر ؓ(اس کو طبری نے وصل کیا) خارجی لوگوں کو بدترین خلق اللہ سمجھتے تھے، کہتے تھے انہوں نے کیا کیا جو آیتیں کافروں کے باب میں اتری تھیں ان کو مسلمانوں پر چیپ دیا۔تشریح : پھر بیان کرنے کے بعد اگر وہ اس کام کے مرتکب ہوں تو بیشک ان سے مواخدہ ہوگا۔ اس آیت کو لاکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا کہ خارجی یا رافضی وغیرہ لوگوں سے اگر حاکم اسلام لڑائی کرے تو پہلے ان کا شبہ رفع کردے ان کو سمجھادے۔ اگر اس پر بھی نہ مانیں تو ان سے جنگ کرے۔ آیت سے یہ بھی نکلا کہ شریعت میں جس بات سے منع نہیں کیاگیا اگر کوئی اس کو کرے تو وہ گمراہ نہیں کہا جائے گا نہ اس سے مواخذہ ہوگا۔ امام مسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ خارجی تمام خلق اور تمام مخلوقات میں بدتر ہیں اور بزار نے مرفوعاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کا ذکر کیا فرمایا وہ میری امت کے برے لوگ ہیں ان کو میری امت کے اچھے لوگ قتل کریں گے۔ خارجی ایک مشہور فرقہ ہے جس کی ابتداءحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اخیر خلافت سے ہوئی۔ یہ لوگ ظاہر میں بڑے عابد زاہد اور قاری قرآن تھے مگر دل میں ذرا بھی قرآن کا نور نہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو شروع شروع میں یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے جب جنگ صفین ہوچکی اور تحکیم کی رائے قرار پائی اس وقت یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی الگ ہوگے۔ ان کو برا کہنے لگے کہ انہوں نے تحکیم کیسے قبول کی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان الحکم الااﷲ ان کا سردار عبداللہ بن کوا تھا۔ حضرت علی ؓنے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو ان کے سمجھانے کے لیے بھیجا اور خود بھی سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا۔ آخر حضرت علی ؓنے ان کو نہروان میں قتل کیا چند لوگ بچ کر بھاگ نکلے۔ انہیں میں کا ایک عبدالرحمن بن ملجم ملعون تھا جس نے حضرت علی ؓکو شہید کیا۔ یہ کمبخت خوارج حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں اورکبیرہ گناہ کرنے والے کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ کافر ہے ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اور حیض کی حالت میں عورت پر نماز کی قضا کرنا واجب جانتے ہیں۔ غرض یہ ساری گمراہی ان کی اسی وجہ سے ہوئی کہ قرآن کی تفسیر اپنے دل سے کرنے لگے اور صحابہ اور سلف صالحین کی تفسیر کا خیال نہ رکھا جور آیتیں کافروں کے باب میں تھیں وہ مومنوں کے شان میں کردیں۔
6932.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے ایک مرتبہ حروریہ کا ذکر کیا اور کہا: نبی ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا تھا: ”وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر کمان سے باہر ہو جاتا ہے۔“
تشریح:
(1) واضح رہے کہ حروریہ، حروراء نامی بستی کی طرف منسوب ہیں، جہاں سے خوارج کا رئیس نجدہ عامری نکلا تھا۔ ان لوگوں کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے قرآن کریم میں حق کے بغیر تاویلات کا دروازہ کھولا، اس بنا پر فکری انحطاط میں مبتلا ہوئے اور ظاہری دینداری کے باوجود انھیں کچھ حاسل نہ ہوا۔ انھیں دنیا میں ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور آخرت میں بھی نہ صرف ثواب سے محروم ہوں گے بلکہ انھیں طرح طرح کے عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ پہلی حدیث میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حروریہ کے متعلق توقف فرمایا تھا، اس حدیث سے وضاحت کر دی کہ مذکورہ توقف اس بنا پر تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام لے کر ان کے اوصاف بیان نہیں کیے تھے، البتہ ان اوصاف کے مصداق یہ خوارج ہیں جنھیں حروریہ کہا جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی وضاحت کی ہے۔ (فتح الباري:362/12) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نوی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ان خوارج کو کافر سمجھتے تھے اور انھیں اس امت اجابت سے خارج خیال کرتے تھے۔ واللہ أعلم(فتح الباري:361/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6683
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6932
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6932
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6932
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
تمہید باب
خوارج، خارجة کی جمع ہے۔ یہ ایک گروہ ہے جو دین سے نکل گیا تھا۔انھیں خوارج اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے نیک لوگوں پر خروج کیا تھا۔ ہر وہ شخص جو امام حق کے خلاف خروج کرے وہ خارجی ہے،اگرچہ وہ صحابۂ کرام کے زمانے میں ہو۔اس گروہ کی ابتدا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور خلافت میں ہوئی۔یہ لوگ بظاہر بڑے عابد،زاہد اور قرآن کے قاری تھے لیکن ان کے دلوں میں ذرا بھر بھی قرآن کا نور نہیں تھا۔جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو شروع شروع میں یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔جنگ صفین کے بعد جب تحکیم کی رائے پر اتفاق ہوا تو اس وقت یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے الگ ہوگئے اور انھیں بھی برا بھلا کہنے لگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو انھیں سمجھانے کے لیے بھیجا اور خود بھی انھیں سمجھاتے رہے مگر انھوں نے کسی کی بات نہ سنی،بالآخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں نہروان میں قتل کردیا۔یہ کم بخت حضرت علی،حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے اور حیض کی حالت میں عورت پر نماز واجب قرار دیتے تھے۔الغرض یہ تمام گمراہی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ وہ قرآن کی تفسیر سلف صالحین کے مطابق کرنے کے بجائے اپنی رائے سے کرتے تھے اور جو آیات کفار کے متعلق نازل ہوئی تھیں انھیں اہل ایمان پر چسپاں کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے متعلق کہا ہے۔ملحدین،ملحد کی جمع ہے۔ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو حق سے منہ موڑ کر باطل کی طرف ہوجاتے ہیں۔ ان کے ہاں قرآن وحدیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ آیات وآثار سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ خوارج وملحدین کو اس وقت تک قتل نہ کیا جائے جب تک ان پر حجت قائم کرکے ان کے شبہات دور نہ کردیے جائیں اور ان کی جہالت ختم نہ کردی جائے، نیز انھیں حق کی دعوت دی جائے اور جو معاملہ ان پر خلط ملط ہوگیا ہے،اس کی خوب وضاحت کردی جائے،اس کے باوجود اگر وہ حق کی طرف رجوع نہ کریں اور اپنے عقائد ونظریات سے توبہ نہ کریں تو امام وقت ان کے خلاف کارروائی کرے۔اگر ضرورت پڑے تو انھیں قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حکومت وقت کے خلاف خروج کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں،جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ آکر حکومت کے خلاف خروج کیا،نیز دین کی حمایت میں انھوں نے یہ اقدام کیا کیونکہ اس وقت کے حکمران سنت نبوی کو نظر انداز کرکے خواہشات نفس کی پیروی کرنے لگے تھے جیسا کہ حضرت حسین بن علی اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم تھے۔یہ اہل حق تھے۔٭دوسرے وہ لوگ ہیں جن کے پیش نظر صرف حکومت طلبی اور منصب کا حصول تھا۔دینی غیرت ان میں نہیں تھی بلکہ وہ دنیا کی خاطر حکومت وقت سے خروج کرتے تھے۔انھیں عام طور پر باغی کہا جاتا ہے۔ان کی وضاحت ہم کتاب الفتن میں کریں گے۔(فتح الباری:12/357) بہرحال خوارج وملحدین کے متعلق اہل سنت کا یہ موقف ہے کہ ان پر اتمام حجت کے بعد ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے اور ایسے حالات میں اگر حکومت مناسب سمجھے تو انھیں قتل بھی کرسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد (یعنی ایمان کی توفیق دینے کے بعد) ان سے مواخذہ کرے جب تک ان سے بیان نہ کرے کہ فلاں فلاں کاموں سے بچے رہو۔“ اور عبداللہ بن عمر ؓ(اس کو طبری نے وصل کیا) خارجی لوگوں کو بدترین خلق اللہ سمجھتے تھے، کہتے تھے انہوں نے کیا کیا جو آیتیں کافروں کے باب میں اتری تھیں ان کو مسلمانوں پر چیپ دیا۔تشریح : پھر بیان کرنے کے بعد اگر وہ اس کام کے مرتکب ہوں تو بیشک ان سے مواخدہ ہوگا۔ اس آیت کو لاکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا کہ خارجی یا رافضی وغیرہ لوگوں سے اگر حاکم اسلام لڑائی کرے تو پہلے ان کا شبہ رفع کردے ان کو سمجھادے۔ اگر اس پر بھی نہ مانیں تو ان سے جنگ کرے۔ آیت سے یہ بھی نکلا کہ شریعت میں جس بات سے منع نہیں کیاگیا اگر کوئی اس کو کرے تو وہ گمراہ نہیں کہا جائے گا نہ اس سے مواخذہ ہوگا۔ امام مسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ خارجی تمام خلق اور تمام مخلوقات میں بدتر ہیں اور بزار نے مرفوعاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کا ذکر کیا فرمایا وہ میری امت کے برے لوگ ہیں ان کو میری امت کے اچھے لوگ قتل کریں گے۔ خارجی ایک مشہور فرقہ ہے جس کی ابتداءحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اخیر خلافت سے ہوئی۔ یہ لوگ ظاہر میں بڑے عابد زاہد اور قاری قرآن تھے مگر دل میں ذرا بھی قرآن کا نور نہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو شروع شروع میں یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے جب جنگ صفین ہوچکی اور تحکیم کی رائے قرار پائی اس وقت یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی الگ ہوگے۔ ان کو برا کہنے لگے کہ انہوں نے تحکیم کیسے قبول کی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان الحکم الااﷲ ان کا سردار عبداللہ بن کوا تھا۔ حضرت علی ؓنے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو ان کے سمجھانے کے لیے بھیجا اور خود بھی سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا۔ آخر حضرت علی ؓنے ان کو نہروان میں قتل کیا چند لوگ بچ کر بھاگ نکلے۔ انہیں میں کا ایک عبدالرحمن بن ملجم ملعون تھا جس نے حضرت علی ؓکو شہید کیا۔ یہ کمبخت خوارج حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں اورکبیرہ گناہ کرنے والے کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ کافر ہے ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اور حیض کی حالت میں عورت پر نماز کی قضا کرنا واجب جانتے ہیں۔ غرض یہ ساری گمراہی ان کی اسی وجہ سے ہوئی کہ قرآن کی تفسیر اپنے دل سے کرنے لگے اور صحابہ اور سلف صالحین کی تفسیر کا خیال نہ رکھا جور آیتیں کافروں کے باب میں تھیں وہ مومنوں کے شان میں کردیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے ایک مرتبہ حروریہ کا ذکر کیا اور کہا: نبی ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا تھا: ”وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر کمان سے باہر ہو جاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) واضح رہے کہ حروریہ، حروراء نامی بستی کی طرف منسوب ہیں، جہاں سے خوارج کا رئیس نجدہ عامری نکلا تھا۔ ان لوگوں کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے قرآن کریم میں حق کے بغیر تاویلات کا دروازہ کھولا، اس بنا پر فکری انحطاط میں مبتلا ہوئے اور ظاہری دینداری کے باوجود انھیں کچھ حاسل نہ ہوا۔ انھیں دنیا میں ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور آخرت میں بھی نہ صرف ثواب سے محروم ہوں گے بلکہ انھیں طرح طرح کے عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ پہلی حدیث میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حروریہ کے متعلق توقف فرمایا تھا، اس حدیث سے وضاحت کر دی کہ مذکورہ توقف اس بنا پر تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام لے کر ان کے اوصاف بیان نہیں کیے تھے، البتہ ان اوصاف کے مصداق یہ خوارج ہیں جنھیں حروریہ کہا جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی وضاحت کی ہے۔ (فتح الباري:362/12) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نوی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ان خوارج کو کافر سمجھتے تھے اور انھیں اس امت اجابت سے خارج خیال کرتے تھے۔ واللہ أعلم(فتح الباري:361/12)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ وہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ یہاں تک کہ ان کے لیے وہ چیزیں واضح کردے جن سے انہوں نے بچنا ہے۔“حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان(خارجی) لوگوں کو اللہ کی بد ترین مخلوق خیال کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا: یہ لوگ ان آیات کو جو کفارہ کے متعلق نازل ہوئی تھیں انہیں مسلمانوں پر چسپاں کرتے تھے۔
فائدہ: خوارج،خارجۃ کی جمع ہے۔ یہ ایک گروہ ہے جو دین سے نکل گیا تھا۔ انہیں خوارج اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے نیک لوگوں پر خروج کیا تھا۔ ہر وہ شخص جو امام حق کے خلاف خروج کرے وہ خارجی ہے، اگرچہ وہ صحابہ کرام کے زمانے میں ہو۔ اس گروہ کی ابتدا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور خلافت میں ہوئی۔ یہ لوگ بظاہر بڑے عابد، زاہد اور قاری قرآن تھے لیکن ان کے دلوں میں ذرا بھر بھی قرآن کا نوا نہیں تھا۔ جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو شروع شروع میں یہ لوگ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے، ان کے دلوں میں ذرا بھر بھی قرآن کا نور نہیں تھا۔ جب حضرت علی بن ابی طالب ؓ خلیفہ بنے تو شروع شروع میں یہ لوگ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے ساتھ رہے، جنگ صفین کے بعد جب تحکیم کی رائے پر اتفاق ہوا تو اس وقت یہ لوگ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے الگ ہوگئے اور انہیں بھی بھلا کہنے لگے۔ آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو انہیں سمجھانے کے لیے بھیجا اور خود بھی انہیں سمجھاتے رہے مگر انہوں نے کسی کی بات نہ سنی،بالآخر حضرت علی ؓ نے انہیں نہروان میں قتل کردیا۔ یہ کم بخت حضرت علی، حضرت طلحہ حضرت زبیر اور سیدہ عائشہ ؓ کی تکفیر کرتے اور حیض کی حالت میں عورت پر نماز واجب قرار دیتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن وہب نے، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر نے، کہا ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے اور انہوں نے حروریہ کا ذکر کیا اور کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر کمان سے باہر ہو جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حرورا نامی بستی کی طرف نسبت ہے جہاں سے خارجیوں کا رئیس نجدہ عامری نکلا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : Regarding Al-Harauriyya: The Prophet (ﷺ) said, "They will go out of Islam as an arrow darts out of the game's body.'