باب : جس کے ساتھ زبرستی کی جائے یا اسی طرح کسی شخص کا بیچنا حق وغیرہ کو مجبوری سے کوئی بیچ کھوچ کایا اور معاملہ کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
(Statements made under) Coercion
(Chapter: Selling under coercion or other circumstances to repay a debt or the like)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6944.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دفعہ ہم مسجد میں تھے کہ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”یہودیوں کے پاس چلو۔“ ہم آپ کے ساتھ روانہ ہوئے، جب ہم بیت المدراس پہنچے تو نبی ﷺ نے ان کو آواز دی: ”اے قوم یہود! اسلام قبول کر لو تم سلامتی میں رہو گے۔“ انہوں نے کہا: اے ابو القاسم! آپ نے حکم پہنچا دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہی میرا ارادہ تھا۔“ پھر آپ نے دوبارہ فرمایا تو انہوں نےکہا: اے ابو القاسم! آپ نے تبلیغ کر دی۔ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ یہی فرمایا: ”پھر آپ نے انہیں وارننگ دی اور فرمایا: تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں تمہیں جلاوطن کرنا چاہتا ہوں، تم میں سے جس کے پاس مال ہو اسے چاہیے کہ جلاوطن ہونے سے پہلے پہلے اسے فروخت کر دے بصورت دیگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔“
تشریح:
1۔یہودی لوگ اپنے مال وغیرہ میں بہت بخیل ثابت ہوئے تھے جب انھیں جلاوطن ہونے کی دھمکی دی گئی تو انھوں نے اپنی جائیداد فروخت کرنے میں عافیت سمجھی۔ اگرچہ وہ انھیں بیچنا نہیں چاہتے تھے لیکن اس وقت وہ مجبور تھے۔ 2۔اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مجبور شخص کی بیع کے جواز پر استدلال کیا ہے اور یہ حدیث مجبور کی بیع میں بہت واضح ہے کیونکہ مجبور وہ شخص ہے جسے اپنی مملوکہ اشیاء فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے، حالانکہ وہ انھیں بیچنا نہیں چاہتا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی چیزیں فروخت کرنے کا اختیار دیا تھا، اس اختیار سے انھوں نے فائدہ اٹھانا مناسب خیال کیا۔ ایسی صورت میں مکرہ (مجبور) کی بیع کا جواز ثابت ہوا۔ واللہ أعلم۔
اس شخص کا اپنی مملوکہ اشیاء فروخت کرنا جس پر جبر کیا جارہا ہویا وہ شخص جو مفلسی کی وجہ سے اپنا مال بیچنے،ان دونوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ پہلے کو مجبور اور دوسرے کو مضطر کہتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دفعہ ہم مسجد میں تھے کہ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”یہودیوں کے پاس چلو۔“ ہم آپ کے ساتھ روانہ ہوئے، جب ہم بیت المدراس پہنچے تو نبی ﷺ نے ان کو آواز دی: ”اے قوم یہود! اسلام قبول کر لو تم سلامتی میں رہو گے۔“ انہوں نے کہا: اے ابو القاسم! آپ نے حکم پہنچا دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہی میرا ارادہ تھا۔“ پھر آپ نے دوبارہ فرمایا تو انہوں نےکہا: اے ابو القاسم! آپ نے تبلیغ کر دی۔ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ یہی فرمایا: ”پھر آپ نے انہیں وارننگ دی اور فرمایا: تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں تمہیں جلاوطن کرنا چاہتا ہوں، تم میں سے جس کے پاس مال ہو اسے چاہیے کہ جلاوطن ہونے سے پہلے پہلے اسے فروخت کر دے بصورت دیگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔یہودی لوگ اپنے مال وغیرہ میں بہت بخیل ثابت ہوئے تھے جب انھیں جلاوطن ہونے کی دھمکی دی گئی تو انھوں نے اپنی جائیداد فروخت کرنے میں عافیت سمجھی۔ اگرچہ وہ انھیں بیچنا نہیں چاہتے تھے لیکن اس وقت وہ مجبور تھے۔ 2۔اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مجبور شخص کی بیع کے جواز پر استدلال کیا ہے اور یہ حدیث مجبور کی بیع میں بہت واضح ہے کیونکہ مجبور وہ شخص ہے جسے اپنی مملوکہ اشیاء فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے، حالانکہ وہ انھیں بیچنا نہیں چاہتا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی چیزیں فروخت کرنے کا اختیار دیا تھا، اس اختیار سے انھوں نے فائدہ اٹھانا مناسب خیال کیا۔ ایسی صورت میں مکرہ (مجبور) کی بیع کا جواز ثابت ہوا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم مسجد میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب ہم ”بیت المدراس“ کے پاس پہنچے تو آنحضرت ﷺ نے انہیں آواز دی اے قوم یہود! اسلام لاؤ تم محفوظ ہو جاؤ گے۔ یہودیوں نے کہا ابوالقاسم! آپ نے پہنچا دیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میرا بھی یہی مقصد ہے پھر آپ نے دوبارہ یہی فرمایا اور یہودیوں نے کہا کہ ابوالقاسم آپ نے پہنچا دیا آنحضرت ﷺ نے تیسری مرتبہ یہی فرمایا۔ اور پھر فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں تمہیں جلاوطن کرتا ہوں۔ پس تم میں سے جس کے پاس مال ہو اسے چاہئے کہ جلاوطن ہونے سے پہلے اسے بیچ دے ورنہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہود مدینہ کی روز روز کی شرارتوں کی بناء پر آپ نے ان کو یہ اعلان دیا تھا۔ وہ اس وقت حربی کافر تھے۔ آپ نے ان کو اپنے اموال بیچنے کا اختیار دیا ایسی صورت میں بیع کا جوازثابت ہوتا ہے۔ باب سے یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : While we were in the mosque, Allah's Apostle (ﷺ) came out to us and said, "Let us proceed to the Jews." So we went along with him till we reached Bait-al-Midras (a place where the Torah used to be recited and all the Jews of the town used to gather). The Prophet (ﷺ) stood up and addressed them, "O Assembly of Jews! Embrace Islam and you will be safe!" The Jews replied, "O Aba-l-Qasim! You have conveyed Allah's message to us." The Prophet (ﷺ) said, "That is what I want (from you)." He repeated his first statement for the second time, and they said, "You have conveyed Allah's message, O Aba-l-Qasim." Then he said it for the third time and added, "You should Know that the earth belongs to Allah and His Apostle, and I want to exile you fro,,, this land, so whoever among you owns some property, can sell it, otherwise you should know that the Earth belongs to Allah and His Apostle." (See Hadith No. 392, Vol. 4)