Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Offering prayers behind a man who is a victim of Al-Fitan (trials and affections) or a heretic)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور بدعتی کے متعلق امام حسن بصری نے کہا کہ تو اس کے پیچھے نماز پڑھ لے اس کی بدعت اس کے سر رہے گی۔
695.
حضرت عبیداللہ بن عدی سے روایت ہے کہ وہ حضرت عثمان ؓ کے پاس اس وقت حاضر خدمت ہوئے جب آپ نظربند تھے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ تو تمام لوگوں کے امام ہیں اور آپ ایک ایسی آزمائش سے دوچار ہیں جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ہمیں امام فتنہ نماز پڑھاتا ہے جس سے ہم تنگ دل ہوتے ہیں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: نماز لوگوں کے اعمال میں سے اچھا عمل ہے، جب لوگ عمدہ کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھائی میں شامل ہو جاؤ اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو۔ زبیدی نے کہا: امام زہری فرماتے ہیں کہ ہم مخنث کے پیچھے نماز پڑھنے کو صحیح نہیں سمجھتے، ہاں اگر کوئی ایسی ضرورت ہو جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو ایسے حالات میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تشریح:
(1) جب حضرت عثمان ؓ محصور تھے تو ان کی عدم موجودگی میں حضرت ابو امامہ سہل بن حنیف، حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہم نے کچھ نمازیں پڑھائیں۔ حضرت علی ؓ نے عیدالاضحیٰ پڑھانے کا فریضہ سرانجام دیا، لیکن امام فتنہ سے مراد کنانہ بن بشر ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے عبدالرحمٰن بن عدیس بھی لکھا ہے جو مصری باغیوں کا سرغنہ تھا لیکن یہ صحیح نہیں۔ امام بخاری ؓ کے نزدیک فتنہ پرور کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے، کیونکہ مذکورہ روایت کے مطابق حضرت عثمان ؓ نے امام فتنہ کے پیچھے نماز ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں محاصرین کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتے تھے، لیکن حضرت عثمان غنی ؓ کا موقف تھا کہ جو بھی تمھیں نماز کی دعوت دے تم اس پر لبیک کہو۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فتنے کے زمانے میں خصوصیت کے ساتھ نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ جماعت مزید انتشار کا شکار نہ ہو۔ اور تعطیل جماعت سے بہتر ہے کہ کسی ناپسندیدہ انسان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے۔ (فتح الباري:245/2) حضرت امام مالک ؒ زمانۂ فتنہ میں نمازوں کے متعلق بہت سخت موقف رکھتے تھے اور ایسے حالات میں آپ تمام نمازیں اپنے گھر میں پڑھ لینے کے قائل تھے۔ حضرت امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کرکے اس کا جواز ثابت کیا ہے اور جمہور کی تائید فرمائی ہے۔ (2) مخنث دوطرح کے ہوتے ہیں:٭پیدائشی: جن میں عورتوں جیسی ناز و ادائیں ہوں۔ اس صورت میں کوئی ملامت نہیں۔ ٭بناوٹی: جوجان بوجھ کر تکلف کے ساتھ عورتوں جیسی حرکات کرتے ہیں۔ یہ لوگ قابل ملامت ہیں۔ بوقت ضرورت ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ نماز نہ پڑھنے سے فتنے کا اندیشہ ہو۔ عام اختیاری حالات میں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ (فتح الباري:246/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
687
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
695
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
695
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
695
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
فتنہ پرور سے مراد وہ شخص ہے جو فتنے میں مبتلا ہوکر حاکم وقت کے بغاوت کردے۔اور بدعتی سے مراد وہ شخص ہے جو اہل سنت کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو۔حسن بصری کے قول کو سعید بن منصور نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔(فتح الباری :2/244)
اور بدعتی کے متعلق امام حسن بصری نے کہا کہ تو اس کے پیچھے نماز پڑھ لے اس کی بدعت اس کے سر رہے گی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبیداللہ بن عدی سے روایت ہے کہ وہ حضرت عثمان ؓ کے پاس اس وقت حاضر خدمت ہوئے جب آپ نظربند تھے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ تو تمام لوگوں کے امام ہیں اور آپ ایک ایسی آزمائش سے دوچار ہیں جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ہمیں امام فتنہ نماز پڑھاتا ہے جس سے ہم تنگ دل ہوتے ہیں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: نماز لوگوں کے اعمال میں سے اچھا عمل ہے، جب لوگ عمدہ کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھائی میں شامل ہو جاؤ اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو۔ زبیدی نے کہا: امام زہری فرماتے ہیں کہ ہم مخنث کے پیچھے نماز پڑھنے کو صحیح نہیں سمجھتے، ہاں اگر کوئی ایسی ضرورت ہو جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو ایسے حالات میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) جب حضرت عثمان ؓ محصور تھے تو ان کی عدم موجودگی میں حضرت ابو امامہ سہل بن حنیف، حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہم نے کچھ نمازیں پڑھائیں۔ حضرت علی ؓ نے عیدالاضحیٰ پڑھانے کا فریضہ سرانجام دیا، لیکن امام فتنہ سے مراد کنانہ بن بشر ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے عبدالرحمٰن بن عدیس بھی لکھا ہے جو مصری باغیوں کا سرغنہ تھا لیکن یہ صحیح نہیں۔ امام بخاری ؓ کے نزدیک فتنہ پرور کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے، کیونکہ مذکورہ روایت کے مطابق حضرت عثمان ؓ نے امام فتنہ کے پیچھے نماز ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں محاصرین کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتے تھے، لیکن حضرت عثمان غنی ؓ کا موقف تھا کہ جو بھی تمھیں نماز کی دعوت دے تم اس پر لبیک کہو۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فتنے کے زمانے میں خصوصیت کے ساتھ نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ جماعت مزید انتشار کا شکار نہ ہو۔ اور تعطیل جماعت سے بہتر ہے کہ کسی ناپسندیدہ انسان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے۔ (فتح الباري:245/2) حضرت امام مالک ؒ زمانۂ فتنہ میں نمازوں کے متعلق بہت سخت موقف رکھتے تھے اور ایسے حالات میں آپ تمام نمازیں اپنے گھر میں پڑھ لینے کے قائل تھے۔ حضرت امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کرکے اس کا جواز ثابت کیا ہے اور جمہور کی تائید فرمائی ہے۔ (2) مخنث دوطرح کے ہوتے ہیں:٭پیدائشی: جن میں عورتوں جیسی ناز و ادائیں ہوں۔ اس صورت میں کوئی ملامت نہیں۔ ٭بناوٹی: جوجان بوجھ کر تکلف کے ساتھ عورتوں جیسی حرکات کرتے ہیں۔ یہ لوگ قابل ملامت ہیں۔ بوقت ضرورت ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ نماز نہ پڑھنے سے فتنے کا اندیشہ ہو۔ عام اختیاری حالات میں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ (فتح الباري:246/2)
ترجمۃ الباب:
امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھ لو، اس کی بدعت کا گناہ صرف اس پر ہو گا۔
حدیث ترجمہ:
امام بخاری ؓ علیہ نے کہا کہ ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام زہری نے حمید بن عبدالرحمن سے نقل کیا۔ انہوں نے عبید اللہ بن عدی بن خیار سے کہ وہ خود حضرت عثمان غنی ؓ کے پاس گئے۔ جب کہ باغیوں نے ان کو گھیر رکھا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آپ ہی عام مسلمانوں کے امام ہیں مگر آپ پر جو مصیبت ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر گنہگار ہو جائیں۔ حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا نماز تو جو لوگ کام کرتے ہیں ان کاموں میں سب سے بہترین کام ہے۔ تو وہ جب اچھا کام کریں تم بھی اس کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو اور محمد بن یزید زبیدی نے کہا کہ امام زہری نے فرمایا کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہیجڑے کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ مگر ایسی ہی لاچاری ہو تو اور بات ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
مفتون کا ترجمہ باغی کیا ہے جو سچے برحق امام کے حکم سے پھر جائے۔ اور بدعتی سے عام بدعتی مراد ہے۔ خواہ اس کی بدعت اعتقادی ہو جیسے شیعہ، خوارج، مرجیہ، معتزلہ وغیرہ کی، خواہ عملی ہو جیسے سہرا باندھنے والا، تیجا، دسواں کرنے والا، تعزیہ یا علم اٹھانے والے، قبروں پر چراغاں کرنے والے، میلاد یا غنا یا مرثیہ کی مجلس کرنے والے کی، بشرطیکہ ان کی بدعت کفر اور شرک کی حد تک نہ پہنچے۔ اگر کفر یا شرک کے درجے پر پہنچ جائے تو ان کے پیچھے نماز درست نہیں۔ تسہیل میں ہے کہ سنت کہتے ہیں حدیث کو اور جماعت سے مراد صحابہ اور تابعین ہیں جو لوگ حدیث شریف پر چلتے ہیں اور اعتقاد اور عمل میں صحابہ اور تابعین کے طریق پر ہیں وہی اہل سنت والجماعت ہیں باقی سب بدعتی ہیں۔ (مولانا وحید الزماں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubaid-Ullah bin Adi bin Khiyar: I went to 'Uthman bin Affan while he was besieged, and said to him, "You are the chief of all Muslims in general and you see what has befallen you. We are led in the Salat (prayer) by a leader of Al-Fitan (trials and afflictions etc.) and we are afraid of being sinful in following him." 'Uthman said. "As-Salat (the prayers) is the best of all deeds so when the people do good deeds do the same with them and when they do bad deeds, avoid those bad deeds." Az-Zuhri said, "In our opinion one should not offer Salat behind an effeminate person unless there is no alternative”.