Sahi-Bukhari:
(Statements made under) Coercion
(Chapter: Compulsion)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کَرہُ اور کُرہُ کے معنی ایک ہی ہیں۔ تشریح : اکثر علماءکا یہی قول ہے بعضوں نے کہا کرہ بفتحہ کاف یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص زبردستی کرے اور کرہ بضمہ کاف یہ ہے کہ آپ ہی خود ایک کام کو ناپسند کرتا ہو اور کرے۔ ( اس آیت سے عورتوں پر اکراہ اور زبردستی کرنے کی ممانعت نکلی باب کی مناسب ظاہرہے۔
6950.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کو ساتھ لے کر ہجرت کی تو ایک ایسی بستی میں پہنچے جس میں ظالم بادشاہوں میں سے ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس ظالم نے حضرت ابراہیم ؑ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس سارہ کو بھیج دو۔ جب وہ ان کے پاس گیا تو وہ وضو کر کے نماز پڑھ رہی تھیں۔ انہوں نے دعا کی: ”اے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔“ پھر ایسا ہوا کہ اس ظالم کا دم گھٹنے لگا اور گر کر زمین پر پاؤں مارنے (ایڑیاں رگڑنے) لگا۔
تشریح:
1۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس ظالم کے پاس بھیجے۔ جب ایسے اکراہ کے وقت خلاصی کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو ایسی خلوت قابل ملامت نہ ہوگی۔ ایسے حالات میں اگر زبردستی زنا کر لیا جائے تو حد جاری نہ ہوگی۔ 2۔بعض فقہاء کا خیال ہے کہ مرد کو اگرزنا پر مجبور کیا جائے تو اس پر حد ہے کیونکہ اختیاری حالت کے بغیر آلہ تناسل منتشر نہیں ہوتا لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ آج کل تو ایسے ٹیکے وغیرہ ایجاد ہو چکے ہیں کہ لذت اور اختیاری حالت کے بغیر آلہ تناسل میں تناؤ پیدا کیا جا سکتا ہے جس سے عورت اپنی شہوت پوری کر سکتی ہے۔ اس حالت میں مرد بے چارہ مجبور محض ہوتا ہے لہذا اس پر حد جاری نہیں ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
اس عنوان کے تحت اکراہ کی بُرائی کو بیان کیا جائے گا۔قرآن کریم میں لفظ(كَرْهًا) دوطرح سے استعمال ہوا۔ایک کاف کے فتحہ کے ساتھ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا)"ایمان والو! تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔"(النساء:4/19) دوسرا کاف کے ضمہ کے ساتھ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا)"اس کی ماں نے اسے مشقت سے پیٹ میں اٹھایا اور مشقت سے اسے جنم دیا۔"(الاحقاف 46/15)اکثر علماء کے نزدیک ان دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔بعض نے ان دونوں کے درمیان اس طرح فرق بیان کیا ہے کہ کاف کے فتحہ کے ساتھ معنی ہیں:کوئی دوسرا شخص زبردستی کرے اور کاف کے ضمہ کے ساتھ معنی ہیں:وہ خود ایک کام کو ناپسند کرے ،پھر اسے سرانجام دے۔(فتح الباری 12/401)
کَرہُ اور کُرہُ کے معنی ایک ہی ہیں۔ تشریح : اکثر علماءکا یہی قول ہے بعضوں نے کہا کرہ بفتحہ کاف یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص زبردستی کرے اور کرہ بضمہ کاف یہ ہے کہ آپ ہی خود ایک کام کو ناپسند کرتا ہو اور کرے۔ ( اس آیت سے عورتوں پر اکراہ اور زبردستی کرنے کی ممانعت نکلی باب کی مناسب ظاہرہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کو ساتھ لے کر ہجرت کی تو ایک ایسی بستی میں پہنچے جس میں ظالم بادشاہوں میں سے ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس ظالم نے حضرت ابراہیم ؑ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس سارہ کو بھیج دو۔ جب وہ ان کے پاس گیا تو وہ وضو کر کے نماز پڑھ رہی تھیں۔ انہوں نے دعا کی: ”اے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔“ پھر ایسا ہوا کہ اس ظالم کا دم گھٹنے لگا اور گر کر زمین پر پاؤں مارنے (ایڑیاں رگڑنے) لگا۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس ظالم کے پاس بھیجے۔ جب ایسے اکراہ کے وقت خلاصی کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو ایسی خلوت قابل ملامت نہ ہوگی۔ ایسے حالات میں اگر زبردستی زنا کر لیا جائے تو حد جاری نہ ہوگی۔ 2۔بعض فقہاء کا خیال ہے کہ مرد کو اگرزنا پر مجبور کیا جائے تو اس پر حد ہے کیونکہ اختیاری حالت کے بغیر آلہ تناسل منتشر نہیں ہوتا لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ آج کل تو ایسے ٹیکے وغیرہ ایجاد ہو چکے ہیں کہ لذت اور اختیاری حالت کے بغیر آلہ تناسل میں تناؤ پیدا کیا جا سکتا ہے جس سے عورت اپنی شہوت پوری کر سکتی ہے۔ اس حالت میں مرد بے چارہ مجبور محض ہوتا ہے لہذا اس پر حد جاری نہیں ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
۔ کَرُھَا اور کَرُھّا کے ایک ہی معنیٰ ہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ابراہیم ؑ نے سارہ ؑ کو ساتھ لے کر ہجرت کی تو ایک ایسی بستی میں پہنچے جس میں بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ یا ظالموں میں سے ایک ظالم رہتا تھا اس ظالم نے ابراہیم ؑ کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سارہ ؑ کو اس کے پاس بھیجیں ااپ نے سارہ کو بھیج دیا وہ ظالم ان کے پاس آیا تو وہ وضو کرکے نماز پڑھ رہی تھیں انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں تو تو مجھ پر کافر کو نہ مسلط کر پھر ایسا ہوا کہ وہ کم بخت بادشاہ اچانک خراٹے لینے اور گر کر پاؤں ہلانے لگا۔
حدیث حاشیہ:
جیسے کسی کا گلا گھونٹو تو وہ زور زور سے سانس کی آواز نکالنے لگتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اس ظالم بادشاہ پر نازل ہوا۔ مناسبت باب سے یہ ہے کہ ایسے اکراہ کے وقت جب خلاصی کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو ایسی حالت میں ایسی خلوت قابل ملامت نہ ہوگی نہ حد وابجب ہوگی یہی ترجمہ باب ہے۔ بعد میں اس بادشاہ کا دل اتنا موم ہوا کہ اپنی بیٹی ہاجرہ نامی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حرم میں داخل کر دیا۔ یہی ہاجرہ ہیں جن کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم کے خاندان کا کیا کہنا ہے، حج اور مکہ مکرمہ اور کعبہ مقدس یہ سب آپ ہی کے خاندان کی یادگاریں ہیں۔ صلی اللہ علیهم أجمعین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "(The Prophet) Abraham migrated with his wife Sarah till he reached a town where there was a king or a tyrant who sent a message, to Abraham, ordering him to send Sarah to him. So when Abraham had sent Sarah, the tyrant got up, intending to do evil with her, but she got up and performed ablution and prayed and said, 'O Allah ! If I have believed in You and in Your Apostle, then do not empower this oppressor over me.' So he (the king) had an epileptic fit and started moving his legs violently. "