مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6967.
سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں ایک انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں کوئی دوسرا اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو، اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں اس سے سنتا ہوں، لہذا ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کر دیتا ہوں۔“
تشریح:
1۔اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی عنوان قائم نہیں فرمایا، گویا یہ پہلے عنوان کے لیے فصل کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے مذکورہ حدیث کی مناسبت پہلے باب سے ہوگی جو بالکل واضح ہے کہ جھوٹ یا جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر حاکم نے جو فیصلہ کیا ہے اگرحق لینے والا جانتا ہے کہ یہ میرا حق نہیں کہ بلکہ کسی اور کا ہے توعدالت کے فیصلے سے یہ حق اس کا نہیں ہو جائے گا بلکہ اسے وہ اپنے لیے آگ کا ٹکڑا خیال کرے کیونکہ عدالت کا فیصلہ کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام نہیں کر سکتا۔ 2۔دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیلہ سازوں کے سہاروں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی بنیاد ایک مشہور اختلافی مسئلے پر ہے کہ جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت جو فیصلہ کرتی ہے وہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے نافذ ہوتا ہے یا وہ صرف ظاہری اعتبار سے ہے باطنی لحاظ سے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ظاہری اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلہ صرف دنیوی جھگڑا ختم کرنے کے لیے کارگر ہوتا ہے لیکن اخروی حلت اس سے ثابت نہیں ہوتی، قانونی حیثیت سے مدعی کو اس سے فائدہ ضرور ہوگا لیکن آخرت میں اس سے ضرور باز پر س ہوگی کیونکہ اس نے جانتے بوجھتے ہوئے غیر کا حق مارا ہے۔ جمہور اہل علم اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ 3۔باطنی اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہ چیزمدعی کے لیے حلال ہو جائے گی اور اسے کسی قسم کا گناہ نہیں ہوگا اور نہ آخرت ہی میں اس سے کوئی باز پرس ہوگی، اہل کوفہ کا یہی موقف ہے۔ اس موقف کو محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے مسترد کیا ہے۔ ان میں سرفہرست امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ انھوں نے مذکورہ بالا حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ تو بہت دور کی بات ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی ایسے حالات میں اسے اخروی باز پرس سے نہیں بچا سکتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اپنی چرب زبانی سے جو کوئی مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ لے لےتو وہ غیر کا حق کسی صورت میں اس کے لیے حلال نہ ہوگا بلکہ میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں۔ 4۔ہم اس مناسبت سے ان فقہائے کرام کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ جو جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی لحاظ سے نافذ سمجھتے ہیں اگرچہ وہ کتنا ہی غلط اور ظلم وزیادتی سے بھر پور ہو۔ ذرا چشم تصور کھول کر سوچیں اگر کوئی بدفطرت حیلہ ساز کسی کی معصوم بیٹی زبردستی چھین کر عدالت میں دعویٰ کر دے کہ یہ میری بیوی ہے اور اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے دو جھوٹے گواہ پیش کر دے، عدالت ان گواہوں پر اعتبار کر کے اس کے حق میں فیصلہ کر دے تو کیا واقعی وہ معصوم لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اس سے اپنی شہوت پوری کرنا اس کے لیے جائز ہو جائے گا؟ بہرحال اس قسم کے مقدمات میں عدالت کے فیصلے صحیح نہ ہوں گے، خواہ دنیا جہان کی ساری عدالتیں اسے تسلیم کرلیں اور غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیں مگر جھوٹ جھوٹ ہی رہے گا۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6717
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6967
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6967
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6967
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں ایک انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں کوئی دوسرا اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو، اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں اس سے سنتا ہوں، لہذا ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کر دیتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی عنوان قائم نہیں فرمایا، گویا یہ پہلے عنوان کے لیے فصل کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے مذکورہ حدیث کی مناسبت پہلے باب سے ہوگی جو بالکل واضح ہے کہ جھوٹ یا جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر حاکم نے جو فیصلہ کیا ہے اگرحق لینے والا جانتا ہے کہ یہ میرا حق نہیں کہ بلکہ کسی اور کا ہے توعدالت کے فیصلے سے یہ حق اس کا نہیں ہو جائے گا بلکہ اسے وہ اپنے لیے آگ کا ٹکڑا خیال کرے کیونکہ عدالت کا فیصلہ کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام نہیں کر سکتا۔ 2۔دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیلہ سازوں کے سہاروں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی بنیاد ایک مشہور اختلافی مسئلے پر ہے کہ جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت جو فیصلہ کرتی ہے وہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے نافذ ہوتا ہے یا وہ صرف ظاہری اعتبار سے ہے باطنی لحاظ سے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ظاہری اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلہ صرف دنیوی جھگڑا ختم کرنے کے لیے کارگر ہوتا ہے لیکن اخروی حلت اس سے ثابت نہیں ہوتی، قانونی حیثیت سے مدعی کو اس سے فائدہ ضرور ہوگا لیکن آخرت میں اس سے ضرور باز پر س ہوگی کیونکہ اس نے جانتے بوجھتے ہوئے غیر کا حق مارا ہے۔ جمہور اہل علم اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ 3۔باطنی اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہ چیزمدعی کے لیے حلال ہو جائے گی اور اسے کسی قسم کا گناہ نہیں ہوگا اور نہ آخرت ہی میں اس سے کوئی باز پرس ہوگی، اہل کوفہ کا یہی موقف ہے۔ اس موقف کو محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے مسترد کیا ہے۔ ان میں سرفہرست امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ انھوں نے مذکورہ بالا حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ تو بہت دور کی بات ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی ایسے حالات میں اسے اخروی باز پرس سے نہیں بچا سکتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اپنی چرب زبانی سے جو کوئی مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ لے لےتو وہ غیر کا حق کسی صورت میں اس کے لیے حلال نہ ہوگا بلکہ میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں۔ 4۔ہم اس مناسبت سے ان فقہائے کرام کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ جو جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی لحاظ سے نافذ سمجھتے ہیں اگرچہ وہ کتنا ہی غلط اور ظلم وزیادتی سے بھر پور ہو۔ ذرا چشم تصور کھول کر سوچیں اگر کوئی بدفطرت حیلہ ساز کسی کی معصوم بیٹی زبردستی چھین کر عدالت میں دعویٰ کر دے کہ یہ میری بیوی ہے اور اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے دو جھوٹے گواہ پیش کر دے، عدالت ان گواہوں پر اعتبار کر کے اس کے حق میں فیصلہ کر دے تو کیا واقعی وہ معصوم لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اس سے اپنی شہوت پوری کرنا اس کے لیے جائز ہو جائے گا؟ بہرحال اس قسم کے مقدمات میں عدالت کے فیصلے صحیح نہ ہوں گے، خواہ دنیا جہان کی ساری عدالتیں اسے تسلیم کرلیں اور غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیں مگر جھوٹ جھوٹ ہی رہے گا۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے، ان سے زینت بنت ام سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں تمہارا ہی جیسا انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو اور اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں تم سے سنتا ہوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے۔ کیوں کہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا دیتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
وہ فقہاءاسلام غور کریں جو قاضی کا فیصلہ ظاہراً و باطناً نافذ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ وہ کتنا ہی غلط اور ظلم و جور سے بھرپور ہو جیسے کسی کی عورت زبردستی پکڑ کر اس کا کسی قاضی کے یہاں دعویٰ کر دے، اس پر اپنی صفائی میں دو جھوٹے گواہ پیش کر دے اور قاضی مان لے تو ایسے مقدمات کے قاضی کے غلط فیصلے صحیح نہ ہوں گے خواہ کتنے ہی قاضی اسے مان لیں اور غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیں مگر جھوٹ جھوٹ رہے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "I am only a human being, and you people have disputes. May be some one amongst you can present his case in a more eloquent and convincing manner than the other, and I give my judgment in his favor according to what I hear. Beware! If ever I give (by error) somebody something of his brother's right then he should not take it as I have only, given him a piece of Fire." (See Hadith No. 638. Vol. 3)