Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: Tricks by an official person to obtain presents)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6979.
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو بنو سلیم کے صدقات وصول کرنے پر عامل بنایا جسے ابن قبیہ کہا جاتا تھا۔ وہ صدقات لے کر واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حساب کتاب لیا۔ اس نے کہا: یہ تمہارا مال ہے اور یہ (میرا) ہدیہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو سچا ہے تو اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا، وہیں یہ تحائف تیرے پاس آ جاتے۔“ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: اما بعد! میں تم میں سے کسی کو اس کام پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالٰی نے میرے سپرد کیا ہے، پھر وہ شخص میرے پاس آ کر کہتا ہے: یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا تاکہ وہیں اسے ہدایا پہنچ جائیں؟ اللہ کی قسم! تم میں سے جو بھی حق کے بغیر کوئی چیز لے گا وہ اللہ تعالٰی سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس چیز کو اٹھائے ہوئے ہوگا۔ میں تم میں سے ہر اس شخص کو پہچان لوں گا جو اللہ تعالٰی سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ اونٹ اٹھائے ہوئے ہوگا جو بلبلا رہا ہوگا یا گائے اٹھائے ہوئے ہوگا جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی یا بکری اٹھائے ہوئے ہوگا جو ممیا رہی ہوگی۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے حتی کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! ”میں نے تیرا حکم لوگوں تک پہنچا دیا ہے؟“ راوی کہتا ہے: یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور میرے کانوں نے ان باتوں کو سنا۔
تشریح:
1۔ صحیح البخاری کے کچھ عنوان مستقل ہیں اور کچھ ضمنی حیثیت رکھتے ہیں مذکورہ عنوان بھی مستقل نہیں بلکہ نتیجہ اور تکملہ ہے چونکہ تیسری صورت حق شفعہ ختم کرنے کے لیے خریدی ہوئی جائیداد چھوٹے بیٹے کو ہبہ کر دینے کی صورت میں تھی اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اورپیش کردہ حدیث سے ہدیے کی حدود و قیود بیان کی ہیں ہدایا کا سبب اس کی ذاتی صلاحیت ہونی چاہیے۔ اگر اس کے علاوہ کسی وجہ سے تحائف ملتے ہیں تو وہ تحائف نہیں ہوں گے جیسا کہ عامل کو سفارت کی وجہ سے تحفے ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تنبیہ فرمائی کہ سر کاری عہدے کو تحائف و ہدایا وصول کرنے کے لیے بطور حیلہ استعمال نہ کیا جائے ۔ 2۔چونکہ سابقہ صورت میں چھوٹے بیٹے کو مکان ہبہ کرنے کا جو حیلہ بتایا گیا تھا وہ بھی اسی نوعیت کا تھا اس لیے اس قسم کا ہدیہ حق شفعہ کے لیے رکاوٹ کا باعث نہیں ہوگا۔ شارحین میں سے کسی نے اس امر کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔ هذا مما فتح الله علي بمنه وكرمه والحمد لله أولا و آخرا وهو خير الفاتحين
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6729
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6979
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6979
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6979
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو بنو سلیم کے صدقات وصول کرنے پر عامل بنایا جسے ابن قبیہ کہا جاتا تھا۔ وہ صدقات لے کر واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حساب کتاب لیا۔ اس نے کہا: یہ تمہارا مال ہے اور یہ (میرا) ہدیہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو سچا ہے تو اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا، وہیں یہ تحائف تیرے پاس آ جاتے۔“ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: اما بعد! میں تم میں سے کسی کو اس کام پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالٰی نے میرے سپرد کیا ہے، پھر وہ شخص میرے پاس آ کر کہتا ہے: یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا تاکہ وہیں اسے ہدایا پہنچ جائیں؟ اللہ کی قسم! تم میں سے جو بھی حق کے بغیر کوئی چیز لے گا وہ اللہ تعالٰی سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس چیز کو اٹھائے ہوئے ہوگا۔ میں تم میں سے ہر اس شخص کو پہچان لوں گا جو اللہ تعالٰی سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ اونٹ اٹھائے ہوئے ہوگا جو بلبلا رہا ہوگا یا گائے اٹھائے ہوئے ہوگا جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی یا بکری اٹھائے ہوئے ہوگا جو ممیا رہی ہوگی۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے حتی کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! ”میں نے تیرا حکم لوگوں تک پہنچا دیا ہے؟“ راوی کہتا ہے: یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور میرے کانوں نے ان باتوں کو سنا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ صحیح البخاری کے کچھ عنوان مستقل ہیں اور کچھ ضمنی حیثیت رکھتے ہیں مذکورہ عنوان بھی مستقل نہیں بلکہ نتیجہ اور تکملہ ہے چونکہ تیسری صورت حق شفعہ ختم کرنے کے لیے خریدی ہوئی جائیداد چھوٹے بیٹے کو ہبہ کر دینے کی صورت میں تھی اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اورپیش کردہ حدیث سے ہدیے کی حدود و قیود بیان کی ہیں ہدایا کا سبب اس کی ذاتی صلاحیت ہونی چاہیے۔ اگر اس کے علاوہ کسی وجہ سے تحائف ملتے ہیں تو وہ تحائف نہیں ہوں گے جیسا کہ عامل کو سفارت کی وجہ سے تحفے ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تنبیہ فرمائی کہ سر کاری عہدے کو تحائف و ہدایا وصول کرنے کے لیے بطور حیلہ استعمال نہ کیا جائے ۔ 2۔چونکہ سابقہ صورت میں چھوٹے بیٹے کو مکان ہبہ کرنے کا جو حیلہ بتایا گیا تھا وہ بھی اسی نوعیت کا تھا اس لیے اس قسم کا ہدیہ حق شفعہ کے لیے رکاوٹ کا باعث نہیں ہوگا۔ شارحین میں سے کسی نے اس امر کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔ هذا مما فتح الله علي بمنه وكرمه والحمد لله أولا و آخرا وهو خير الفاتحين
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا‘ ان سے ہشام نے‘ ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے ابو حمید الساعدی ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو بنی سلیم کے صدقات کی وصولی کے لیے عامل بنایا ان کا نام ابن اللتیبہ تھا پھر جب یہ عامل واپس آیا اور آنحضرت ﷺ نے ان کا حساب لیا‘ اس نے سر کاری مال علیحدہ کیا اور کچھ مال کی نسبت کہنے لگا کہ یہ (مجھے) تحفہ میں ملا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا پھر کیوں نہ تم اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھے رہے اگر تم سچے ہو تو وہیں یہ تحفہ تمہارے پاس آ جاتا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا اما بعد! میں تم میں سے کسی ایک کو اس کام پر عامل بنا تا ہوں جس کا اللہ نے مجھے والی بنایا ہے پھر وہ شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال اور یہ تحفہ ہے جو مجھے دیا گیا تھا۔ اسے اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہنا چاہئیے تھا تا کہ اس کا تحفہ وہیں پہنچ جاتا۔ اللہ کی قسم تم میں سے جو بھی حق کے سوا کوئی اور چیز لے گا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس چیز کو اٹھا ئے ہوئے ہوگا بلکہ میں تم میں ہر اس شخص کو پہچان لوں گا جو اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اونٹ اٹھا ئے ہوگا جو بلبلا رہا ہوگا یا گائے اٹھائے ہوگا جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی یا بکری اٹھا ئے ہوگا جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اٹھایا یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی اور فرمایا اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا۔ یہ فرماتے ہوئے آنحضرت ﷺ کو میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
عاملین کے لیے جو اسلامی حکومت کی طرف سے سرکاری اموال کی تحصیل کے لیے مقرر ہوتے ہیں کوئی حیلہ ایسا نہیں کہ وہ لوگوں سے تحفہ تحائف بھی وصول کر سکیں وہ جو کچھ بھی لیں گے وہ سب حکومت اسلامی کے بیت المال ہی کا حق ہوگا سفرائے مدارس کو بھی جو مشاہرہ پر کام کرتے ہیں یہ حدیث ذہن نشین رکھنی چاہیے۔ وباللہ التوفیق۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Humaid As-Sa'idi (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) appointed a man called Ibn Al-Lutabiyya to collect the Zakat from Bani Sulaim's tribe. When he returned, the Prophet (ﷺ) called him to account. He said (to the Prophet, 'This is your money, and this has been given to me as a gift." On that, Allah's Apostle (ﷺ) said, "Why didn't you stay in your father's and mother's house to see whether you will be given gifts or not if you are telling the truth?" Then the Prophet (ﷺ) addressed us, and after praising and glorifying Allah, he said: "Amma Ba'du", I employ a man from among you to manage some affair of what Allah has put under my custody, and then he comes to me and says, 'This is your money and this has been given to me as a gift. Why didn't he stay in his father's and mother's home to see whether he will be given gifts or not? By Allah, not anyone of you takes a thing unlawfully but he will meet Allah on the Day of Resurrection, carrying that thing. I do not want to see any of you carrying a grunting camel or a mooing cow or a bleating sheep on meeting Allah." Then the Prophet (ﷺ) raised both his hands till the whiteness of his armpits became visible, and he said, "O Allah! Haven't I have conveyed (Your Message)?" The narrator added: My eyes witnessed and my ears heard (that Hadith).