Sahi-Bukhari:
Interpretation of Dreams
(Chapter: The dreams of prisoners, evil-doers and Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اور ( یوسف) کے ساتھ جیل خانہ میں دو اور جوان قیدی داخل ہوئے ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں انگور کا شیرہ نچوڑ رہا ہوں اور دسرے نے کہا کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر خوان میں روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں ‘ اس میں سے پرندے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں ۔ آپ ہم کو ان کی تعبیر بتائےے‘ بیشک ہم تو آپ کو بزرگوں میں سے پاتے ہیں ؟ وہ بولے جو کھانا تم دونوں کے کھانے کے لیے آتا ہے وہ ابھی آنے نہ پائے گا کہ میں اس کی تعبیر تم سے بیان کردوں گا ۔ اس سے پہلے کہ کھا نا تم دونوں کے پاس آئے یہ اس میں سے ہے جس کی میرے پرودگار نے مجھے تعلیم دی ہے میں تو ان لوگوں کا مذہب پہلے ہی سے چھوڑ ے ہوئے ہوں جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے وہ انکاری ہیں اور میں نے تو اپنے بزرگوں ابراہیم اور یعقوب اور اسحاق کا دین اختیار کر رکھا ہے ۔ ہم کو کسی طرح لائق نہیں کہ اللہ کے ساتھ ہم کسی کو بھی شریک قرار دیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے اوپر اور کل لوگوں کے اوپر لیکن اکثر لوگ اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے ۔ اے میرے قیدی بھائیو! جدا جدا بہت سے معبود اچھے یا اللہ ! اکیلا اچھا جو سب پر غالب ہے ؟ تو لوگ تو اسے چھوڑ کر بس چند فرضی خداؤں کی عبادت کرتے ہو جن کے نام تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں ۔ اللہ نے کوئی بھی دلیل اس پر نہیں اتاری ۔ حکم صرف اللہ ہی کا ہے ۔ اسی نے حکم دیا ہے کہ سوا اس کے کسی کی پوجا پاٹ نہ کرو ۔ یہی دین سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے ۔ اے میرے دوستو! تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب ملازم بن کر پلا یا کرے گا اور رہا دوسرا تو اسے سولی دی جائے گی ۔ پھر اس کے سر کو پرندے کھائیں گے ۔ وہ کام اسی طرح لکھا جاچکا ہے جس کی بابت تم دونوں پوچھ رہے ہو اور دونوں میں سے جس کے متعلق رہائی کا یقین تھا اس سے کہا کہ میرا بھی ذکر اپنے آقا کے سامنے کردینا لیکن اسے اپنے آقا سے ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا تو وہ جیل خانہ میں کئی سال تک رہے اور بادشاہ نے کہا کہ میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں اور انہیں کھائے جاتی ہیں سات دبلی گائیں اور سات بالیاں سبز اور سات ہی خشک ۔ اے سردارو ! مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دے لیتے ہو ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو پریشان خواب ہیں اور ہم پریشان خوابوں کی تعبیر کے ماہر نہیں ہیں اور دو قیدیوں میں سے جس کو رہائی مل گئی تھی وہ بولا اور اسے ایک مدت کے بعد یاد پڑا کہ میں ابھی اس کی تعبیر لائے دیتا ہوں ‘ ذرا مجھے جانے دیجئے ۔ اے یوسف! اے خوابوں کی سچی تعبیر دینے والے ! ہم لوگوں کو مطلب تو بتائےے ا س خواب کا کہ سات گائیں موٹی ہیں اور نہیں سات دبلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات بالیاں سبز ہیں اور سات ہی خشک تا کہ میں لوگوں کے پاس جاؤں کہ ان کو بھی معلوم ہو جائے ۔ ( یوسف علیہ السلام نے ) کہا تم سات سال برابر کاشتکاری کئے جاؤ پھر جو فصل کاٹو اسے اس کی بالوں ہی میںلگا رہنے دو بجز تھوڑی مقدار کے کہ اسی کو کھاؤ پھر اسکے بعد سات سال سخت آئیں گے کہ اس ذخیرہ کو کھائیں جائیں گے جو تم نے جمع کررکھا ہے بجز اس تھوڑی مقدار کے جو تم بیج کے لیے رکھ چھوڑو گے پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں کے لیے خوب بارش ہوگی اور اس میں وہ شیرہ بھی نچوڑیں گے اور بادشاہ نے کہا کہ یوسف کو میرے پاس لاؤ پھر جب قاصدان کے پا س پہنچا تو ( یوسف ؑ نے) کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ۔ واذکر “ ذکر سے افتعال کے وزن پر ہے ۔ ” امۃ“ ( یسکون میم ) بمعنی قرن یعنی زمانہ ہے اور بعض نے ” امۃ “ ( میم کے نصب کے ساتھ ) پڑھا ہے اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ ” یعصرون “ کا معنی انگور نچوڑیں گے اور تیل نکالیں گے ۔ تھنون ای اتحرسون یعنی حفاظت کرو گے ۔تشریح :اللہ پاک نے حضرت یوسف ؑ کو خوابوں کی تعبیر کا معجزہ عطا فرما یا تھا ان کے حالات کے لیے سورہ یوسف کا بغور مطالعہ کرنے والوں کو بہت سے اسباق حاصل ہو سکتے ہیں اور حضرت یوسف علیہ السلام کی انقلابی زندگی وجہ بصیرت بن سکتی ہے ۔ بچپن میں برداروں کی بے وفائی کا شکار ہونا‘ مصر میں جا کر غلام بن کر فروخت ہونا اور عزیز مصر کے گھر جا کر ایک اور کڑی آزمائش سے گزر نا پھر وہاں اقتدار کا ملنا اور خاندان کو مصر بلا نا جملہ امور بہت ہی غور طلب حالات ہیں ۔
6992.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ورایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میں اتنے دن قید میں رہتا جتنے دن حضرت یوسف ؑ ٹھہرے رہے، پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں اس کی دعوت کو فوراً قبول کر لیتا۔“
تشریح:
حضرت یوسف علیہ السلام کا جگر گردہ مضبوط تھا کہ اتنی مدت کے بعد بھی معاملے کی صفائی تک جیل سے نکلنا پسند نہیں کیا، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت یوسف علیہ السلام ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کے جذبات کا اظہار کیا وہ تواضع، انکسار یا کسی خاص مصلحت کے پیش نظر تھا۔ واللہ أعلم۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اور ( یوسف) کے ساتھ جیل خانہ میں دو اور جوان قیدی داخل ہوئے ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں انگور کا شیرہ نچوڑ رہا ہوں اور دسرے نے کہا کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر خوان میں روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں ‘ اس میں سے پرندے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں ۔ آپ ہم کو ان کی تعبیر بتائےے‘ بیشک ہم تو آپ کو بزرگوں میں سے پاتے ہیں ؟ وہ بولے جو کھانا تم دونوں کے کھانے کے لیے آتا ہے وہ ابھی آنے نہ پائے گا کہ میں اس کی تعبیر تم سے بیان کردوں گا ۔ اس سے پہلے کہ کھا نا تم دونوں کے پاس آئے یہ اس میں سے ہے جس کی میرے پرودگار نے مجھے تعلیم دی ہے میں تو ان لوگوں کا مذہب پہلے ہی سے چھوڑ ے ہوئے ہوں جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے وہ انکاری ہیں اور میں نے تو اپنے بزرگوں ابراہیم اور یعقوب اور اسحاق کا دین اختیار کر رکھا ہے ۔ ہم کو کسی طرح لائق نہیں کہ اللہ کے ساتھ ہم کسی کو بھی شریک قرار دیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے اوپر اور کل لوگوں کے اوپر لیکن اکثر لوگ اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے ۔ اے میرے قیدی بھائیو! جدا جدا بہت سے معبود اچھے یا اللہ ! اکیلا اچھا جو سب پر غالب ہے ؟ تو لوگ تو اسے چھوڑ کر بس چند فرضی خداؤں کی عبادت کرتے ہو جن کے نام تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں ۔ اللہ نے کوئی بھی دلیل اس پر نہیں اتاری ۔ حکم صرف اللہ ہی کا ہے ۔ اسی نے حکم دیا ہے کہ سوا اس کے کسی کی پوجا پاٹ نہ کرو ۔ یہی دین سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے ۔ اے میرے دوستو! تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب ملازم بن کر پلا یا کرے گا اور رہا دوسرا تو اسے سولی دی جائے گی ۔ پھر اس کے سر کو پرندے کھائیں گے ۔ وہ کام اسی طرح لکھا جاچکا ہے جس کی بابت تم دونوں پوچھ رہے ہو اور دونوں میں سے جس کے متعلق رہائی کا یقین تھا اس سے کہا کہ میرا بھی ذکر اپنے آقا کے سامنے کردینا لیکن اسے اپنے آقا سے ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا تو وہ جیل خانہ میں کئی سال تک رہے اور بادشاہ نے کہا کہ میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں اور انہیں کھائے جاتی ہیں سات دبلی گائیں اور سات بالیاں سبز اور سات ہی خشک ۔ اے سردارو ! مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دے لیتے ہو ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو پریشان خواب ہیں اور ہم پریشان خوابوں کی تعبیر کے ماہر نہیں ہیں اور دو قیدیوں میں سے جس کو رہائی مل گئی تھی وہ بولا اور اسے ایک مدت کے بعد یاد پڑا کہ میں ابھی اس کی تعبیر لائے دیتا ہوں ‘ ذرا مجھے جانے دیجئے ۔ اے یوسف! اے خوابوں کی سچی تعبیر دینے والے ! ہم لوگوں کو مطلب تو بتائےے ا س خواب کا کہ سات گائیں موٹی ہیں اور نہیں سات دبلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات بالیاں سبز ہیں اور سات ہی خشک تا کہ میں لوگوں کے پاس جاؤں کہ ان کو بھی معلوم ہو جائے ۔ ( یوسف علیہ السلام نے ) کہا تم سات سال برابر کاشتکاری کئے جاؤ پھر جو فصل کاٹو اسے اس کی بالوں ہی میںلگا رہنے دو بجز تھوڑی مقدار کے کہ اسی کو کھاؤ پھر اسکے بعد سات سال سخت آئیں گے کہ اس ذخیرہ کو کھائیں جائیں گے جو تم نے جمع کررکھا ہے بجز اس تھوڑی مقدار کے جو تم بیج کے لیے رکھ چھوڑو گے پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں کے لیے خوب بارش ہوگی اور اس میں وہ شیرہ بھی نچوڑیں گے اور بادشاہ نے کہا کہ یوسف کو میرے پاس لاؤ پھر جب قاصدان کے پا س پہنچا تو ( یوسف ؑ نے) کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ۔ واذکر “ ذکر سے افتعال کے وزن پر ہے ۔ ” امۃ“ ( یسکون میم ) بمعنی قرن یعنی زمانہ ہے اور بعض نے ” امۃ “ ( میم کے نصب کے ساتھ ) پڑھا ہے اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ ” یعصرون “ کا معنی انگور نچوڑیں گے اور تیل نکالیں گے ۔ تھنون ای اتحرسون یعنی حفاظت کرو گے ۔تشریح :اللہ پاک نے حضرت یوسف ؑ کو خوابوں کی تعبیر کا معجزہ عطا فرما یا تھا ان کے حالات کے لیے سورہ یوسف کا بغور مطالعہ کرنے والوں کو بہت سے اسباق حاصل ہو سکتے ہیں اور حضرت یوسف علیہ السلام کی انقلابی زندگی وجہ بصیرت بن سکتی ہے ۔ بچپن میں برداروں کی بے وفائی کا شکار ہونا‘ مصر میں جا کر غلام بن کر فروخت ہونا اور عزیز مصر کے گھر جا کر ایک اور کڑی آزمائش سے گزر نا پھر وہاں اقتدار کا ملنا اور خاندان کو مصر بلا نا جملہ امور بہت ہی غور طلب حالات ہیں ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ورایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میں اتنے دن قید میں رہتا جتنے دن حضرت یوسف ؑ ٹھہرے رہے، پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں اس کی دعوت کو فوراً قبول کر لیتا۔“
حدیث حاشیہ:
حضرت یوسف علیہ السلام کا جگر گردہ مضبوط تھا کہ اتنی مدت کے بعد بھی معاملے کی صفائی تک جیل سے نکلنا پسند نہیں کیا، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت یوسف علیہ السلام ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کے جذبات کا اظہار کیا وہ تواضع، انکسار یا کسی خاص مصلحت کے پیش نظر تھا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”حضرت یوسفؑ کے ساتھ دو اور نوجوان بھی قید خانے میں داخل ہوئے۔ ۔ تم اپنے مالک کے پاس جاؤ۔“حضرت فضیل نے اپنے پیرکاروں میں سے کسی کو کہا: اے عبداللہ! کہا متفرق رب بہتر ہیں یا ایک ہی اللہ جو سب پر غالب ہے؟ وادّکر یہ لفظ ذکرتُ سے باب افتعال ہے۔ اُمَّۃٍ کے معنیٰ ہیں: قرآن یعنی زمانہ۔ اسے أَمَۃٍ بھی پڑھا گیا ہے جس کے معنیٰ ہیں: بھول۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: یَعْصِرُوْنَ کے معنیٰ ہیں: انگور نچوڑیں گے اور تیل نکال لیں گے۔ تُحْصِنُونَ کے معنیٰ ہیں: جس کے تم حفاظت کروگے۔
فائدہ: ان آیات سے خواب کے متعلق درج ذیل نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ قیدیوں،فسادیوں اور بے دین لوگوں کے خواب بھی بعض اوقات سچے اور قابل تعبیر ہوتے ہیں۔ کاروباری مصروفیات اور ذہنی رجحانات کا خواب پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ خواب کی تعبیر کے کے لیے کسی نیک سیرت، بااخلاق اور تجربہ کار آدمی کا انتخاب کرنا چاہیے جو ضرورت پڑنے پر حفاظتی تدابیر بھی بتا سکے۔ خوابوں کی تعبیر بہترین زریعہ تبلیغ ہے۔ رسول اللہ ﷺبھی اس ذریعے کو استعمال کرتے تھے۔ جو خواب پراگندہ خیالات کی پیداوار ہوں وہ قابل تعبیر نہیں ہوتے لیکن یہ معلوم کرنے کے لیے گہری بصیرت کی ضرورت ہے۔ جس خواب کی تعبیر کے متعلق شرح صدر نہ ہو، اس کے متعلق جلد بازی سے کام لینا نہیں چاہیے بلکہ اس سے صاف صاف معذرت کرلی جائے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا‘ ان سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے زہری نے بیان کیا‘ انہیں سعید بن مسیب اور ابو عبیدہ نے خبر دی اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں اتنے دنوں قید میں رہتا جتنے دنوں یوسف ؑ پڑے رہے اور پھر میرے پاس قاصد بلانے آتا تو میں اس کی دعوت قبول کر لیتا۔
حدیث حاشیہ:
مگر حضرت یوسف علیہ السلام کا جگر وحوصلہ تھا کہ اتنی مدت کے بعد بھی معاملہ کی صفائی تک جیل سے نکلنا پسند نہیں کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "If I stayed in prison as long as Joseph stayed and then the messenger came, I would respond to his call (to go out of the prison) ."