Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “And fear the Fitnah which affects not in particular those among you who do wrong….”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ڈرو اس فتنہ سے جو ظالموں پر خاص نہیں رہتا ( بلکہ ظالم وغیر ظالم عام خاص سب اس میں پس جاتے ہیں ) اس کا بیان اور آنحضرت ﷺ جو اپنی امت کو فتنوں سے ڈراتے اس کا ذکر ۔تشریح :فتنے سے مراد یہاں ہر ایک آفت ہے دینی ہو یا دنیاوی لغت میں فتنہ کے معنی سونے کے آگ میں تپانے کے ہیں تا کہ اس کا کھرا یا کھوٹا پن معلوم ہو ۔ کبھی فتنہ عذاب کے معنی میں آتا ہے جیسے اس آیت میں ذو قو افتنتکم کبھی آزمانے کے معنی میں یہاں فتنے سے مراد گناہ ہے جس کی سزا عام ہوتی ہے مثلاً بری بات دیکھ کر خاموش رہنا ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور مداہنت کرنا ‘ پھوٹ ‘ نا اتفاقی ‘ بدعت کا شیوع ‘ جہاد میں سستی وغیرہ ۔ امام احمد اور بزار نے مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے نکا لا ۔ میں نے جنگ جمل کے دن زبیرؓ سے کہا تم ہی لوگوں نے تو حضرت عثمان ؓ کو نہ بچا یا وہ مارے گئے اب ان کے خون کا دعویٰ کرنے آئے ہو ۔ زبیر ؓ نے کہا ہم نے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں یہ آیت پڑھیواتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین منکم خآصۃاور یہ گمان نہ تھا کہ ہم ہی لوگ اس فتنے میں مبتلا ہوں گے ۔ یہاں تک جو ہونا تھا وہ ہوا یعنی اس بلا میں ہم لوگ خود گرفتار ہو ئے ۔ یہ اللہ پاک کا محض فضل و کرم ہے کہ حد سے زیادہ نامساعد حالات میں بھی نظر ثانی کے بد آج یہ پارہ کاتب صاحب کے حوالہ کررہا ہوں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ خیریت کے ساتھ تکمیل بخاری شریف کا شرف عطا فرمائے اور اس خدمت عظیم کو ذریعہ نجات اخروی بنائے اور شفاعت رسول کریم ﷺ سے بہرہ اندوز کرے۔ربنا لاتؤاخذنا ان نسینآ او اخطانا آمین یا رب العالمین
7048.
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں اپنے حوض پر ان لوگوں کا انتظار کروں گا جو میرے پاس آئیں گے۔ پھر کچھ لوگوں کو میرے پاس پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا جائے گا تو میں کہوں گا: یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا آپ نہیں جانتے یہ لوگ تو(دین اسلام سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔“ابن ابی ملکیہ کہا کرتے تھے: اے اللہ ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم ایڑیوں کے بل پھر جائیں یا کسی فتنے میں مبتلا ہوجائیں۔
تشریح:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ انسان کسی بدعت کا مرتب ہو اور اس طرح وہ دین اسلام سے پھر جائے۔ اس جرم کی پاداش میں انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے محروم ہوسکتاہے اور اس کے نیک اعمال ضائع ہو سکتے ہیں۔2۔ہم بھی ابن ابی ملیکہ کی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں۔یااللہ !ہم بھی تیری پناہ کے طالب ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا کسی فتنے میں مبتلا ہوکرتباہ و بربادہو جائیں۔آمین یا رب العالمین۔
اس عنوان کے دوجز ہیں۔ ایک میں آیت کریمہ کی وضاحت ہے اور دوسرے حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ کا بیان ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے متعلق اپنی امت کو کی ہے۔ آیت کریمہ میں فتنے سے مراد ایسا گناہ ہے جس کی سزا عام ہوتی ہے مثلاً:کسی معاشرے میں کوئی برائی پیدا ہوتی ہے اور لوگ اس کا براقت نوٹس نہیں لیتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ برائی معاشرے میں پھیل جاتی ہےتو ایسی برائی کی پاداش میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عذاب آئے گا۔ وہ سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔یہ نہیں ہو سکتا کہ جو لوگ برائی کا یہ کام نہیں کرتے تھے وہ بچ جائیں کیونکہ ان لوگوں کا جرم یہ ہوتا ہے کہ جب وہ برائی پیدا ہوئی یا بڑھنے لگی تھی تو اس وقت انھوں نے اسے روکنے کے لیے کوئی اقدام کیوں نہ کیا۔ اگر وہ اس وقت روکتے تو سب لوگ عذاب سے بچ سکتے تھے۔ حضرت مطرف بن عبد اللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں نے جنگ جمل کے دن حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت نہ کی اور وہ شہید ہو گئے اب تم خود ہی ان کے خون کا مطالبہ کرنے آئے ہو تو انھوں نے فرمایا :ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مذکورہ بالاآیت پڑھی تھی اور ہمیں یہ گمان نہ تھا کہ ہم خود ہی اس کا شکار ہوں گے یہاں تک کہ جو ہونا تھا وہ ہوا۔ یعنی اب ہم خود اس بلا میں گرفتار ہیں۔(مسند احمد:1/165)
ڈرو اس فتنہ سے جو ظالموں پر خاص نہیں رہتا ( بلکہ ظالم وغیر ظالم عام خاص سب اس میں پس جاتے ہیں ) اس کا بیان اور آنحضرت ﷺ جو اپنی امت کو فتنوں سے ڈراتے اس کا ذکر ۔تشریح : فتنے سے مراد یہاں ہر ایک آفت ہے دینی ہو یا دنیاوی لغت میں فتنہ کے معنی سونے کے آگ میں تپانے کے ہیں تا کہ اس کا کھرا یا کھوٹا پن معلوم ہو ۔ کبھی فتنہ عذاب کے معنی میں آتا ہے جیسے اس آیت میں ذو قو افتنتکم کبھی آزمانے کے معنی میں یہاں فتنے سے مراد گناہ ہے جس کی سزا عام ہوتی ہے مثلاً بری بات دیکھ کر خاموش رہنا ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور مداہنت کرنا ‘ پھوٹ ‘ نا اتفاقی ‘ بدعت کا شیوع ‘ جہاد میں سستی وغیرہ ۔ امام احمد اور بزار نے مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے نکا لا ۔ میں نے جنگ جمل کے دن زبیرؓ سے کہا تم ہی لوگوں نے تو حضرت عثمان ؓ کو نہ بچا یا وہ مارے گئے اب ان کے خون کا دعویٰ کرنے آئے ہو ۔ زبیر ؓ نے کہا ہم نے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں یہ آیت پڑھی واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین منکم خآصۃ اور یہ گمان نہ تھا کہ ہم ہی لوگ اس فتنے میں مبتلا ہوں گے ۔ یہاں تک جو ہونا تھا وہ ہوا یعنی اس بلا میں ہم لوگ خود گرفتار ہو ئے ۔ یہ اللہ پاک کا محض فضل و کرم ہے کہ حد سے زیادہ نامساعد حالات میں بھی نظر ثانی کے بد آج یہ پارہ کاتب صاحب کے حوالہ کررہا ہوں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ خیریت کے ساتھ تکمیل بخاری شریف کا شرف عطا فرمائے اور اس خدمت عظیم کو ذریعہ نجات اخروی بنائے اور شفاعت رسول کریم ﷺ سے بہرہ اندوز کرے۔ ربنا لاتؤاخذنا ان نسینآ او اخطانا آمین یا رب العالمین
حدیث ترجمہ:
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں اپنے حوض پر ان لوگوں کا انتظار کروں گا جو میرے پاس آئیں گے۔ پھر کچھ لوگوں کو میرے پاس پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا جائے گا تو میں کہوں گا: یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا آپ نہیں جانتے یہ لوگ تو(دین اسلام سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔“ابن ابی ملکیہ کہا کرتے تھے: اے اللہ ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم ایڑیوں کے بل پھر جائیں یا کسی فتنے میں مبتلا ہوجائیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ انسان کسی بدعت کا مرتب ہو اور اس طرح وہ دین اسلام سے پھر جائے۔ اس جرم کی پاداش میں انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے محروم ہوسکتاہے اور اس کے نیک اعمال ضائع ہو سکتے ہیں۔2۔ہم بھی ابن ابی ملیکہ کی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں۔یااللہ !ہم بھی تیری پناہ کے طالب ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا کسی فتنے میں مبتلا ہوکرتباہ و بربادہو جائیں۔آمین یا رب العالمین۔
ترجمۃ الباب:
نیز نبی ﷺ کا اپنی امتوں کو فتنوں سے خبردار کرنے کا بیان۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن سری نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع نے بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ( قیامت کے دن) میں حوض کوثر پر ہوں گا اور اپنے پاس آنے والوں کا انتظار کرتا رہوں گا پھر( حوض کوثر) پر کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ ابن ابی ملیکہ اس حدیث کو روایت کرتے وقت دعا کرتے” اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا فتنہ میں پڑجائیں“ ۔
حدیث حاشیہ:
ان احادیث کا مطالعہ کرنے والوں کو غور کرنا ہوگا کہ وہ کسی قسم کی بدعت میں مبتلا ہوکر شفاعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم نہ ہوجائیں۔ بدعت وہ بدترین کام ہے جس سے ایک مسلمان کے سارے نیک اعمال اکارت ہوجاتے ہیں اور بدعتی حوض کوثر اور شفاعت نبوی سے محروم ہوکر خائب و خاصر ہوجائیں گے یا اللہ! ہر بدعت اور ہر برے کام سے بچائیو، آمین۔ یا اللہ! اس حدیث پر ہم بھی تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھرجائیں یعنی دین سے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma':
The Prophet (ﷺ) said, "I will be at my Lake-Fount (Kauthar) waiting for whoever will come to me. Then some people will be taken away from me whereupon I will say, 'My followers!' It will be said, 'You do not know they turned Apostates as renegades (deserted their religion).'" (Ibn Abi Mulaika said, "Allah, we seek refuge with You from turning on our heels from the (Islamic) religion and from being put to trial").