باب : نبی کریم ﷺ کا فرمانا کہ میرے بعد تم بعض کام دیکھو گے جو تم کو برے لگیں گے
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “After me you will see things which you will disapprove of.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن زید بن عامر نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ( انصار سے) یہ بھی فرمایا کہ تم ان کاموں پر صبر کرنا یہاں تک کہ تم حوض کوثر پر آکھ مجھ سے ملو۔ کچھ باتیں اپنی مرضی کے خلاف دیکھو گے ان پر صبر کرنا اور امت میں اتفاق کو قائم رکھنا۔
7052.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: ”تم میرے بعد اپنے خلاف ترجیحات اور ایسے امور دیکھو گے جو تمہیں پسند نہیں ہوں گے“ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! (ایسے حالات میں) ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم انہیں ان کے حقوق ادا کرتے رہو اور اپنے حقوق کا اللہ سے سوال کرو۔“
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو حقوق کے معاملے میں اقرباء پروری کریں گے۔ اور انھیں دوسروں پر ترجیح دیں گے اور ان کے حقوق پامال کریں گے۔ اور امور دین کے متعلق ان کا یہ حال ہو گا کہ وہ ایسے کام کریں گے جنھیں دیندار طبقہ پسند نہیں کرے گا۔ ایسے حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ ہم لوگ شرعی واجبات زکاۃ کی ادائیگی اور جہاد کے وقت ان کے ساتھ شمولیت کریں اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کریں اور جہاں تک اپنے حقوق کا تعلق ہے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انھیں عدل و انصاف کی توفیق دے۔ بہر حال حکومتی سطح پر مالی حقوق کے متعلق یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس میں آ ج ہم سب مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم کا معاملہ کرے اور ہمیں صبر کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا:"تم لوگوں نے اپنی حق تلفی پر صبر کرنا ہے حتی کہ تم حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔"(صحیح البخاری المغازی حدیث 4330) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تلقین کے باوجود ان حضرات نے صبر سے کام نہ لیا۔(صحیح البخاری المغازی حدیث 4330)
اور عبداللہ بن زید بن عامر نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ( انصار سے) یہ بھی فرمایا کہ تم ان کاموں پر صبر کرنا یہاں تک کہ تم حوض کوثر پر آکھ مجھ سے ملو۔ کچھ باتیں اپنی مرضی کے خلاف دیکھو گے ان پر صبر کرنا اور امت میں اتفاق کو قائم رکھنا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: ”تم میرے بعد اپنے خلاف ترجیحات اور ایسے امور دیکھو گے جو تمہیں پسند نہیں ہوں گے“ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! (ایسے حالات میں) ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم انہیں ان کے حقوق ادا کرتے رہو اور اپنے حقوق کا اللہ سے سوال کرو۔“
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو حقوق کے معاملے میں اقرباء پروری کریں گے۔ اور انھیں دوسروں پر ترجیح دیں گے اور ان کے حقوق پامال کریں گے۔ اور امور دین کے متعلق ان کا یہ حال ہو گا کہ وہ ایسے کام کریں گے جنھیں دیندار طبقہ پسند نہیں کرے گا۔ ایسے حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ ہم لوگ شرعی واجبات زکاۃ کی ادائیگی اور جہاد کے وقت ان کے ساتھ شمولیت کریں اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کریں اور جہاں تک اپنے حقوق کا تعلق ہے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انھیں عدل و انصاف کی توفیق دے۔ بہر حال حکومتی سطح پر مالی حقوق کے متعلق یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس میں آ ج ہم سب مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم کا معاملہ کرے اور ہمیں صبر کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”(تم ان کاموں پر) صبر کرو حتیٰ کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے زید بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہم سے فرمایا، تم میرے بعد بعض کام ایسے دیکھو گے جو تم کو برے لگیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اس سلسلے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انہیں ان کا حق ادا کرو اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔
حدیث حاشیہ:
یعنی اللہ سے دعا کرو کہ اللہ ان کو انصاف اور حق رسانے کی توفیق دے۔ جیسے ثوری کی روایت میں ہے یا اللہ ان کے بدل تم پر دوسرے حاکموں جو عادل اور منصف ہوں مقرر کرے۔ مسلم اور طبرانی کی روایت میں یوں ہے کہ یا رسول اللہ! ہم ان سے لڑیں نہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ معلوم ہوا کہ جب مسلمان حاکم نماز پڑھنا بھی چھوڑ دے تو پھر اس سے لڑنا اور اس کا خلاف کرنا درست ہوگیا۔ بے نمازی حاکم کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔ اس پر تمام اہل حدیث کا اتفاق ہے۔ حافظ نے کہا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ جاہلیت والوں کی طرح مرے گا یعنی جیسے جاہلیت والوں کا کوئی امام نہیں ہوتا۔ اسی طرح اس کا بھی نہ ہوگا۔ دوسری روایت میں یوں ہے جو شخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوگیا اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے نکال ڈالی۔ ابن بطال نے کہا اس حدیث سے یہ نکلا حاکم گو ظالم یا فاسق ہو اس سے بغاوت کرنا درست نہیں البتہ اگر صریح کفر اختیار کرے تب اس کی اطاعت جائز نہیں بلکہ جس کو قدرت ہو اس کو اس پر جہاد کرنا واجب ہے۔ آج کل کے بعض ائمہ مساجد لوگوں سے اپنی امامت کی بیعت لے کر بیعت نہ کرنے والوں کو جاہلیت کی موت کا فتویٰ سناتے ہیں اور لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں۔ یہ سب فریب خوردہ ہیں۔ یہاں مراد خلیفہ اسلام ہے، جو صحیح معنوں میں اسلامی طور پر صاحب اقتدار ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said to us, "You will see after me, selfishness (on the part of other people) and other matters that you will disapprove of." They asked, "What do you order us to do, O Allah's Apostle? (under such circumstances)?" He said, "Pay their rights to them (to the rulers) and ask your right from Allah."