باب : نبی کریم ﷺکا یہ فرمانا کہ ایک بلا سے جو نزدیک آگئی ہے عرب کی خرابی ہونے والی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “Woe to the Arabs from the great evil that is nearly, approaching them.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7060.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے تو فرمایا: ”میں جو کچھ دیکھتا ہوں کیا تم بھی دیکھتے ہو؟ صحابہ نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: میں فتنے دیکھ رہا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔“
تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی کہ مدینہ طیبہ سے فتنوں کاجوآغاز ہوا وہ آج تک نہیں رک سکا۔شہادت عثمان مدینہ طیبہ میں ہوئی اور اس کے ساتھ ہی فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔جنگ جمل اور جنگ صفین کا باعث بھی شہادت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھی۔نہروان کی لڑائی تحکیم کی وجہ سے ہوئی اور یہ بھی جنگ صفین کے موقع پر فیصلہ ہوا۔ 2۔شہادت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سبب ان کے تعینات کردہ عمال وحکام پراعتراضات تھے اور یہ تحریک فتنوں کی سرزمین عراق سے اٹھی جو مدینہ طیبہ سے مشرق کی طرف ہے جس کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے فرمادی تھی۔اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوع فتن کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ اہل مدینہ ان سے نمٹنے کے لیے تیاری کریں لیکن ان سے کوئی دلچپسی نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ان فتنوں سے بچنے کی پناہ مانگتے رہیں اور دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں فتنوں سے محفوظ رکھے۔ (فتح الباري: 18/13)
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے تو فرمایا: ”میں جو کچھ دیکھتا ہوں کیا تم بھی دیکھتے ہو؟ صحابہ نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: میں فتنے دیکھ رہا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی کہ مدینہ طیبہ سے فتنوں کاجوآغاز ہوا وہ آج تک نہیں رک سکا۔شہادت عثمان مدینہ طیبہ میں ہوئی اور اس کے ساتھ ہی فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔جنگ جمل اور جنگ صفین کا باعث بھی شہادت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھی۔نہروان کی لڑائی تحکیم کی وجہ سے ہوئی اور یہ بھی جنگ صفین کے موقع پر فیصلہ ہوا۔ 2۔شہادت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سبب ان کے تعینات کردہ عمال وحکام پراعتراضات تھے اور یہ تحریک فتنوں کی سرزمین عراق سے اٹھی جو مدینہ طیبہ سے مشرق کی طرف ہے جس کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے فرمادی تھی۔اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوع فتن کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ اہل مدینہ ان سے نمٹنے کے لیے تیاری کریں لیکن ان سے کوئی دلچپسی نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ان فتنوں سے بچنے کی پناہ مانگتے رہیں اور دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں فتنوں سے محفوظ رکھے۔ (فتح الباري: 18/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ ان سے زہری نے (دوسری سند) امام بخاری نے کہا کہ اور مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو عبد الرزاق نے خبر دی‘ انہیں معمر نے خبر دی‘ انہیں زہری نے‘ انہیں عروہ نے اور ان سے اسامہ بن زید ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ کے محلوں میں سے ایک محل پر چڑھے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھر وں میں داخل ہو رہے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور آپ کی جدائی کے بعد فتنوں کے دروازے کھل گئے۔ حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ قضاعی‘ ام ایمن کے بیٹے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد جناب عبداللہ کی لونڈی تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں پالا تھا۔ اسامہ حضرت کے محبوب حضرت زید کے بیٹے تھے اور زید بھی آپ کے بہت محبوب غلام تھے۔ وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ان کی عمر 20 سال تھی اور بعد میں یہ وادی القریٰ میں رہنے لگے تھے بعد شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ وہیں وفات پائی رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ حضرت زینب بنت جحش امہات المؤمنین سے ہیں ان کی والدہ کا نام امیہ ہے جو عبد المطلب کی بیٹی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں۔ حضرت حضرت زینب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام کی بیوی ہیں۔ پھر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔ اور سنہ 5ھ میں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم محترم میں داخل ہو گئی تھیں۔ کوئی عورت دینداری میں ان سے بہتر نہ تھی۔ سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والی‘ سب سے زیادہ سچ بولنے والی‘ سب سے زیادہ سخاوت کرنے والی تھیں۔ وفات نبوی کے بعد آپ کی بیویوں میں سب سے پہلے سنہ 20 یا 21 میں بعمر 53سال مدینے میں انتقال فرمایا رضي اللہ عنه و أرضاھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid (RA) : Once the Prophet (ﷺ) stood over one of the high buildings of Madinah and then said (to the people), "Do you see what I see?" They said, "No." He said, "I see afflictions falling among your houses as rain drops fall."