باب : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “Do not renegade as disbelievers after me by striking the neck of one another.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7076.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔“
تشریح:
1۔اس حدیث کی شان ورود یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو وہاں ایک آدمی گالی گلوچ میں بہت مشہور تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اس آدمی نے کہا میں آئندہ کسی کو گالی نہیں دوں گا۔ (فتح الباري: 34/13) 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں "کفار" کے معنی متعین کرنے کے لیے اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ کفر، کفر کی مختلف قسمیں ہیں اور اس مقام پر کفر کبیرہ گناہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے دین اسلام سے خروج مراد نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے: ’’اگر مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔‘‘(الحجرات: 49/9) اللہ تعالیٰ نے لڑنے کےباوجود انھیں "مومن" کہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مقام پر اس آیت سے استدلال کرکے کفر کے معنی متعین کیے ہیں۔ (صحیح البخاري، الإیمان، باب: 23) 3۔اس حدیث میں مسلمان سے لڑنے کو بطور تغلیظ کفرسے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ مسلمان اس سے پرہیز کریں۔ اگر مسلمان سے لڑنا اور اسے قتل کرنا حلال خیال کرتا ہے تو اسے حقیقی معنی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بطور تشبیہ یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہوکہ مسلمان کو قتل کرنا کافروں کا کام ہے۔ (فتح الباري: 34/13)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کی شان ورود یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو وہاں ایک آدمی گالی گلوچ میں بہت مشہور تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اس آدمی نے کہا میں آئندہ کسی کو گالی نہیں دوں گا۔ (فتح الباري: 34/13) 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں "کفار" کے معنی متعین کرنے کے لیے اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ کفر، کفر کی مختلف قسمیں ہیں اور اس مقام پر کفر کبیرہ گناہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے دین اسلام سے خروج مراد نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے: ’’اگر مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔‘‘(الحجرات: 49/9) اللہ تعالیٰ نے لڑنے کےباوجود انھیں "مومن" کہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مقام پر اس آیت سے استدلال کرکے کفر کے معنی متعین کیے ہیں۔ (صحیح البخاري، الإیمان، باب: 23) 3۔اس حدیث میں مسلمان سے لڑنے کو بطور تغلیظ کفرسے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ مسلمان اس سے پرہیز کریں۔ اگر مسلمان سے لڑنا اور اسے قتل کرنا حلال خیال کرتا ہے تو اسے حقیقی معنی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بطور تشبیہ یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہوکہ مسلمان کو قتل کرنا کافروں کا کام ہے۔ (فتح الباري: 34/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا‘ ان سے شقیق نے بیان کیا‘ کہا کہ عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی بلا وجہ شرعی لڑنا کفر ہے۔ یعنی کافروں کا سا فعل ہے جیسے کافر مسلمانوں سے نا حق لڑتے ہیں ایسے ہی اس شخص نے بھی کیا گویا کافروں کی طرح عمل کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان سے لڑا وہ کافر ہو گیا جیسے خارجیوں کا مذہب ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا‘ (وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا)(الحجرات:9) اور دونوں گروہوں کو مومن قرار دیا اور صحابہ نے آپس میں لڑائیاں کیں گو ایک طرف والے خطائے اجتہادی میں تھے مگر کسی نے ان کو کافر نہیں کہا۔ خود حضرت علی رضی اللہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ والوں کے حق میں فرمایا أخواتنا بغوا علینا۔ خارجی مردود مسلماوں کی جماعت سے علیحدہ ہو کر سارے مسلمانوں کو کافر قرار دینے لگے۔ بس اپنے ہی تئیں مسلمان سمجھے اور پھر یہ لطف کہ ان خارجیوں ہی مردودوں نے مسلمانوں کے سر دار جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی انہوں نے ہی قتل کیا۔ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان اور اجلائے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر قرار دیا۔ کہو جب یہ لوگ کافر ہوئے تو تم کو اسلام کہاں سے نصیب ہوا؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : The Prophet, said, "Abusing a Muslim is Fusuq (evil doing) and killing him is Kufr (disbelief)."