باب : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “Do not renegade as disbelievers after me by striking the neck of one another.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7078.
حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے سمجھا شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں! پھر آپ نے فرمایا: ”یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ حرمت والا شہر نہیں؟“ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت اور تمہارے بدن تم پر حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ خبردار! کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! تو گواہ رہنا۔ یہاں موجود لوگ میرا یہ پیغام غیر لوگوں کو پہنچا دیں کیونکہ بسا اوقات سننے والے سے وہ شخص زیادہ یاد رکھتا ہے جسے حکم پہنچایا جائے۔“ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“ پھر جب وہ دن آیا جب عبداللہ بن عمرو بن حضرمی ؓ کو جلا دیا گیا تھا انہیں جاریہ بن قدامہ نے جلا دیا تو اس (جاریہ) نے کہا: ابو بکرہ ؓ کو دیکھو (وہ کس خیال میں ہے؟) لوگوں نے کہا: یہ ابو بکرہ ؓ نے کہا: اگروہ لوگ (جاریہ کے لشکر والے) میرے گھر میں گھس آئیں تو میں انہیں بانس کی چھڑی بھی نہ ماروں۔
تشریح:
1۔فتنے کے دور میں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی طرح حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ موقف تھا کہ گوشہ نشینی اختیار کی جائے اور لڑائی سے کنارہ کشی کی جائے، اس لیے انھوں نے مذکورہ جواب دیا۔ ان کا یہ موقف درج ذیل حدیث کے مطابق تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فتنوں کا ذکر کیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگر مجھ پر ایسا وقت آجائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنے ہاتھ اور زبان کو روک کر اپنی حویلی میں داخل ہو جانا۔‘‘ میں نے عرض کی: اگر فتنہ پرداز میری حویلی میں آجائیں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنے گھر میں داخل ہو جاؤ۔‘‘ عرض کی: اگر وہ گھر کے اندر آجائیں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجد میں چلے جاؤ۔‘‘ اور میری کلائی کو پکڑ کر فرمایا: ’’کہہ دو، میرا رب اللہ ہے یہاں تک کہ اسی پر تمھیں موت آ جائے۔‘‘ (مسند أحمد 449/1، و الصحیحة للألباني، حدیث: 3254) حضرت عبداللہ بن عمرو بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے ہیں۔ انھیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خون عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فضا ہموار کرنے کے لیے بصرے بھیجا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاریہ بن قدامہ کو بھیجا تاکہ انھیں گرفتار کیا جائے۔ حضرمی، ایک مکان میں چھپ گئے تو جاریہ نے مکان کا گھیراؤ کر کے اسے آگ لگا دی۔ اس طرح حضرت عبداللہ بن حضرمی اور ان کے رفقاء جل کر خاکستر ہوگئے۔ إناللہ و إنا إلیه راجعون۔ اس دوران میں جاریہ نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق پوچھا کہ ان کا پتا کرو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرتے ہیں یا نہیں۔ اس پر حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ جواب دیا جو حدیث میں مذکورہ ہے۔ (فتح الباري: 36/13) بہرحال فتنے کے دور میں گوشہ نشینی ہی میں عافیت ہے۔ ایسے حالات میں جنگ وقتال کرنا فتنہ پروری ہے۔ ایک مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے۔
حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے سمجھا شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں! پھر آپ نے فرمایا: ”یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ حرمت والا شہر نہیں؟“ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت اور تمہارے بدن تم پر حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ خبردار! کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! تو گواہ رہنا۔ یہاں موجود لوگ میرا یہ پیغام غیر لوگوں کو پہنچا دیں کیونکہ بسا اوقات سننے والے سے وہ شخص زیادہ یاد رکھتا ہے جسے حکم پہنچایا جائے۔“ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“ پھر جب وہ دن آیا جب عبداللہ بن عمرو بن حضرمی ؓ کو جلا دیا گیا تھا انہیں جاریہ بن قدامہ نے جلا دیا تو اس (جاریہ) نے کہا: ابو بکرہ ؓ کو دیکھو (وہ کس خیال میں ہے؟) لوگوں نے کہا: یہ ابو بکرہ ؓ نے کہا: اگروہ لوگ (جاریہ کے لشکر والے) میرے گھر میں گھس آئیں تو میں انہیں بانس کی چھڑی بھی نہ ماروں۔
حدیث حاشیہ:
1۔فتنے کے دور میں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی طرح حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ موقف تھا کہ گوشہ نشینی اختیار کی جائے اور لڑائی سے کنارہ کشی کی جائے، اس لیے انھوں نے مذکورہ جواب دیا۔ ان کا یہ موقف درج ذیل حدیث کے مطابق تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فتنوں کا ذکر کیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگر مجھ پر ایسا وقت آجائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنے ہاتھ اور زبان کو روک کر اپنی حویلی میں داخل ہو جانا۔‘‘ میں نے عرض کی: اگر فتنہ پرداز میری حویلی میں آجائیں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنے گھر میں داخل ہو جاؤ۔‘‘ عرض کی: اگر وہ گھر کے اندر آجائیں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجد میں چلے جاؤ۔‘‘ اور میری کلائی کو پکڑ کر فرمایا: ’’کہہ دو، میرا رب اللہ ہے یہاں تک کہ اسی پر تمھیں موت آ جائے۔‘‘ (مسند أحمد 449/1، و الصحیحة للألباني، حدیث: 3254) حضرت عبداللہ بن عمرو بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے ہیں۔ انھیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خون عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فضا ہموار کرنے کے لیے بصرے بھیجا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاریہ بن قدامہ کو بھیجا تاکہ انھیں گرفتار کیا جائے۔ حضرمی، ایک مکان میں چھپ گئے تو جاریہ نے مکان کا گھیراؤ کر کے اسے آگ لگا دی۔ اس طرح حضرت عبداللہ بن حضرمی اور ان کے رفقاء جل کر خاکستر ہوگئے۔ إناللہ و إنا إلیه راجعون۔ اس دوران میں جاریہ نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق پوچھا کہ ان کا پتا کرو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرتے ہیں یا نہیں۔ اس پر حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ جواب دیا جو حدیث میں مذکورہ ہے۔ (فتح الباري: 36/13) بہرحال فتنے کے دور میں گوشہ نشینی ہی میں عافیت ہے۔ ایسے حالات میں جنگ وقتال کرنا فتنہ پروری ہے۔ ایک مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا‘ کہا ہم سے قرہ بن خالد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابن سیرین نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے بیان کیا اور ایک دوسرے شخص (حمید بن عبدالرحمن) سے بھی سنا جو میری نظر میں عبد الرحمن بن ابی بکرہ سے اچھے ہیں اور ان سے ابو بکرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول ﷺ نے لوگوں کو یوم النحر میں خطبہ دیا اور فرمایا تمہیں معلوم ہے یہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ بیان کیا کہ (اس کے بعد آنحضرت ﷺ کی خاموشی سے) ہم یہ سمجھے کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ قربانی کا دن (یوم النحر) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ۔ آپ نے پھر پوچھا یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ البلدہ (مکہ مکرمہ) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر تمہارا خون‘ تمہارے مال‘ تمہاری عزت اور تمہاری کھال تم پر اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ کیا میں نے پہنچا دیا؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے اللہ! گواہ رہنا۔ پس میرا یہ پیغام موجود لوگ غیر موجود لوگوں کو پہنچا دیں کیونکہ بہت سے پہنچا نے والے اس پیغام کو اس تک پہنچائیں گے جو اس کو زیادہ محفوظ رکھنے والا ہو گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ بعض بعض کی گردن مارنے لگو۔ پھر جب وہ دن آیا جب عبداللہ عمرو بن حضرمی کو جاریہ بن قدامہ نے ایک مکان میں گھیر کر جلا دیا تو جاریہ نے اپنے لشکر والوں سے کہا ذرا ابو بکرہ کو تو جھانکو وہ کس خیال میں ہے۔ انہوں نے کہا یہ ابو بکرہ موجود ہیں تم کو دیکھ رہے ہیں۔ عبد الرحمن بن ابی بکرہ کہتے ہیں مجھ سے میری والدہ ہالہ بنت غليظ نے کہا کہ ابو بکرہ نے کہا اگر یہ لوگ (تین جاریہ کے لشکر والے) میرے گھر میں بھی گھس آئیں اور مجھ کو مارنے لگیں تو بھی میں ان پر ایک بانس کی چھڑی بھی نہیں چلاؤں گا۔
حدیث حاشیہ:
چہ جائیکہ ہتھیار سے لڑوں کیونکہ ابو بکر ہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سن چکے تھے کہ مسلمان کو مارنا اس سے لڑنا کفر ہے۔ عبدا للہ بن عمر و حضرمی کا یہ قصہ یہ ہے کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھیجا ہوا بصرے میں آیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بصرے والوں کو بھی اغوا کر کے علی رضی اللہ عنہ کا مخالف کرا دے گویا معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ سیاسی چال تھی۔ جب علی رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو جاریہ ابن قدامہ کو اس کی گرفتاری کے لیے روانہ کیا۔ حضرمی ایک مکان میں چھپ گیا۔ جاریہ نے اس کو گھیر لیا اور مکان میں آگ لگا دی اور حضرمی مکان سمیت جل کر خاک ہو گیا۔ یہ واقعہ سنہ 38 ہجری کا ہے اور ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جو علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بصرے کے حاکم تھے وہاں سے نکلے اور زیادہ بن سمیہ کو اپنا خلیفہ کر گئے۔ اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ نے موقع پا کر عبداللہ بن عمر و حضرمی کو بھیجا کہ جا کر بصرے پر قبضہ کرے‘ وہ بنی تمیم کے محلہ میں اترا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف جو لوگ تھے وہ اس کے شریک ہو گئے۔ زیاد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کی خبر کی اور مدد چاہی۔ حضرت علی رضی اللہ عن نے پہلے اعین بن عیینہ ایک شخص کو روانہ کیا لیکن وہ دغا سے مار ڈالا گیا پھر جاریہ بن قدامہ کو بھیجا‘ انہوں نے حضرمی کو اس کے چالیس یا ستر رفقاء سمیت ایک مکان میں گھیر لیا اور اس میں آگ لگا دی۔ حضرمی اور اس کے ساتھی سب جل کر خاک ہو گئے۔ (إنا للہ و إنا إلیه راجعون)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) addressed the people saying, "Don't you know what is the day today?" They replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." We thought that he might give that day another name. The Prophet (ﷺ) said, "Isn't it the day of An-Nahr?" We replied, "Yes. O Allah's Apostle." He then said, "What town is this? Isn't it the forbidden (Sacred) Town (Makkah)?" We replied, "Yes, O Allah's Apostle." He then said, "Your blood, your properties, your honors and your skins (i.e., bodies) are as sacred to one another like the sanctity of this day of yours in this month of yours in this town of yours. (Listen) Haven't I conveyed Allah's message to you?" We replied, "Yes" He said, "O Allah! Be witness (for it). So it is incumbent upon those who are present to convey it (this message of mine) to those who are absent because the informed one might comprehend what I have said better than the present audience who will convey it to him.)" The narrator added: In fact, it was like that. The Prophet (ﷺ) added, "Beware! Do not renegade as disbelievers after me by striking (cutting) the necks of one another."