باب : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “Do not renegade as disbelievers after me by striking the neck of one another.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7080.
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”لوگوں کو خاموش کراؤ۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مقصد یہ تھا کہ آپس میں لڑنا جھگڑنا اور جنگ وقتال کرنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں، یہ کافروں کا طریقہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس سے کلی طور پر پرہیز کریں، لیکن مسلمانوں نے بہت جلد اس پیغام کو بھلا دیا۔ قرون اولیٰ میں جو بھی خانہ جنگی ہوئی ہے اور مسلمانوں کا ناحق خون بہا ہے، وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے، حالانکہ فتنے کے دور میں گوشہ نشینی میں عافیت تھی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان جیسے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے یہ موقف اختیار کیا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آئندہ دور میں فتنے رونما ہوں گے ان میں بیٹھ رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہترہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ ایسے حالات میں اگر کسی کے پاس اونٹ ہیں تو ان کی دیکھ بھال میں لگ جائے اور اگر کسی کے پاس بکریاں ہیں تو ان کے باڑے میں پناہ گزیں ہو جائے۔ اگرکسی کے پاس زمین ہے تو وہاں چلا جائے۔‘‘ ایک آدمی نے کہا: اگر کسی کے پاس اونٹ، بکریاں اور زمین نہ ہوتو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ اپنی تلوار پتھر پر مار کرخراب کر لے، پھر ایسے فتنوں سے خود کو محفوظ کرے۔‘‘ ایک شخص نے کہا: اگر مجھے مجبور کر کے کسی صف یا کسی جماعت کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے اور مجھے کوئی تلوار یا تیر سے قتل کر دے تو؟ آپ نے فرمایا: ’’اس نے تیرا اور اپنا گناہ سمیٹ لیا اور وہ جہنم رسید ہوا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7250(288)
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”لوگوں کو خاموش کراؤ۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مقصد یہ تھا کہ آپس میں لڑنا جھگڑنا اور جنگ وقتال کرنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں، یہ کافروں کا طریقہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس سے کلی طور پر پرہیز کریں، لیکن مسلمانوں نے بہت جلد اس پیغام کو بھلا دیا۔ قرون اولیٰ میں جو بھی خانہ جنگی ہوئی ہے اور مسلمانوں کا ناحق خون بہا ہے، وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے، حالانکہ فتنے کے دور میں گوشہ نشینی میں عافیت تھی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان جیسے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے یہ موقف اختیار کیا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آئندہ دور میں فتنے رونما ہوں گے ان میں بیٹھ رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہترہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ ایسے حالات میں اگر کسی کے پاس اونٹ ہیں تو ان کی دیکھ بھال میں لگ جائے اور اگر کسی کے پاس بکریاں ہیں تو ان کے باڑے میں پناہ گزیں ہو جائے۔ اگرکسی کے پاس زمین ہے تو وہاں چلا جائے۔‘‘ ایک آدمی نے کہا: اگر کسی کے پاس اونٹ، بکریاں اور زمین نہ ہوتو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ اپنی تلوار پتھر پر مار کرخراب کر لے، پھر ایسے فتنوں سے خود کو محفوظ کرے۔‘‘ ایک شخص نے کہا: اگر مجھے مجبور کر کے کسی صف یا کسی جماعت کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے اور مجھے کوئی تلوار یا تیر سے قتل کر دے تو؟ آپ نے فرمایا: ’’اس نے تیرا اور اپنا گناہ سمیٹ لیا اور وہ جہنم رسید ہوا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7250(288)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ انہو ں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے علی بن مدرک نے بیان کیا‘ کہا میں نے ابو زرعہ بن عمر بن جریر سے سنا‘ ان سے ان کے دادا جریر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا لوگوں کو خاموش کر دو۔ پھر آپ نے فرمایا میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردن مارنے لگ جاؤ۔
حدیث حاشیہ:
قرون خیر میں ان احادیث نبوی کو بھلا دیا گیا اور جو بھی خانہ جنگیاں ہوئی ہیں وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے بے حد افسوس ناک ہیں۔ آج چودھویں صدی کا خاتمہ ہے مگر ان باہمی خانہ جنگیوں کی یاد تازہ ہے بعد میں تقلیدی مذاہب نے بھی باہمی خانہ جنگی کو بہت طول دیا۔ یہاں تک کہ خانہ کعبہ کو چار حصوں میں تقسیم کر لیا گیا اور ابھی تک یہ جھگڑے باقی ہیں۔ اللہ امت کو نیک سمجھ عطا کرے‘ آمین یا رب العالمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jarir (RA) : The Prophet (ﷺ) said to me during Hajjat-al-Wada', "Let the people keep quiet and listen." Then he said (addressing the people), "Beware! Do not renegade as disbelievers after me by striking (cutting) the necks of one another."