باب:جب کسی شخص کی امامت پر اعتماد نہ ہو تو لوگ کیا کریں؟
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: If there is no righteous group of Muslims)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7084.
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں اس ڈر سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا کہیں میری زندگی ہی میں شر پیدا نہ ہوجائے، چنانچہ میں نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے، پھر اللہ تعالٰی نے ہمیں اس خیر سے نوازا تو کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن اس میں کچھ ”دخن“ ہوگا میں نے پوچھا: ”اس کا دخن کیا ہوگا۔“ آپ نے فرمایا: ”کچھ لوگ ہوں گے جو میرے بتائے ہوئے طریقے کے برعکس چلیں گے۔ ان کی کچھ باتیں اچھی ہوں گی اور بعض باتوں میں تم برائی دیکھو گے۔“ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا دور آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،جہنم کے دروازوں پر اس کی دعوت دینے والے لوگ ہوں گے۔ جو ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ان کی صفات میں بیان کریں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ ہمارے ہی جیسے ہوں گے اور ہماری زبانوں میں گفتگو کریں گے۔“ میں نے پوچھا: اگر مجھے اس دور سے واسطہ پڑے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تم اس وقت مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا۔“ میں نے کہا: اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا امام ہی ہو تو؟ آپ نے فرمایا: ”ایسے حالات میں تمام فرقوں سے الگ رہو اگرچہ تجھے درخت کی جڑیں چبانا پڑیں یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہیں موت آجائے۔“
تشریح:
1۔اس حدیث میں امام سے مراد کسی تنظیم کا امیر یا صدر نہیں اور نہ وہ سربراہِ حکومت ہی مراد ہیں جو مغربی جمہوریت کی پیداوار ہیں بلکہ اس سے مراد خلیفۃ المسلمین ہے جوتمام مسلمانوں کا سربراہ ہو،چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر ان دنوں زمین پر کوئی خلیفہ ہو تو اسے لازم پکڑو اگرچہ وہ تجھے سخت مارے اور تیرا سارا مال چھین لے۔ (مسندأحمد: 403/5، و الدیلمي: 31519 رقم 5621) 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے لیے پرفتن دور میں زندگی بسر کرنے کا منہج اور طریقہ بتایا ہے اگر عالم اسلام میں مسلمانوں کا کوئی امیر ہو تو اس کی اطاعت کی جائے اگرچہ اس میں کچھ نقص بھی ہو اور کچھ منکرات کا مرتکب بھی ہو اور اگر مسلمانوں کا کوئی سربراہ نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وزن کسی ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالنے کے بجائے علیحدگی اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت وفرماں برداری کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر تیسری صورت جماعت تشکیل دینے کی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ضرور ہدایت فرماتے کہ تم ایسے حالات میں خود کوئی جماعت بنالو اور ان میں سے ایک امیر منتخب کرکے اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرتے رہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ پرفتن دور میں جماعت بنانا اور لوگوں کو اس میں شمولیت کی دعوت دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے خلاف ہے۔ 3۔ہمارے رجحان کے مطابق خلیفے کی عدم موجودگی میں امارت کے چکر میں پڑ جانے کے بجائے انفرادی یا اجتماعی طور پر قرآن وحدیث پر خود عمل کیا جائے اور یہی دعوت لوگوں میں پھیلائی جائے، نیز جماعتی تعصب سے خود کو بالاتر رکھا جائے۔ واللہ أعلم۔
جب لوگوں میں سیاسی اختلاف ہو اور ان کا کوئی بااختیار خلیفہ نہ ہوتو خلیفے پر اتفاق ہونے سے پہلے مسلمان اپنے حالات کیسے طرے کریں؟پیش کردہ حدیث میں وضاحت ہے کہ ایسے حالات میں تمام لوگوں اور فرقوں سے علیحدگی اختیار کی جائے اگرچہ درختوں کی جڑیں چبانا پڑیں۔یہ اس سے بہتر ہے کہ ایسے لوگوں میں رہے جن کا کوئی خلیفہ یا امام نہیں۔ممکن ہے کہ ان کا انجام فساد احوال ہو کیونکہ ان کی خواہشات مختلف اور ان کی سوچ الگ الگ ہوتی ہے۔ایسےلوگوں میں رہنے سے تنہائی بہتر ہے۔واللہ اعلم۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں اس ڈر سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا کہیں میری زندگی ہی میں شر پیدا نہ ہوجائے، چنانچہ میں نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے، پھر اللہ تعالٰی نے ہمیں اس خیر سے نوازا تو کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن اس میں کچھ ”دخن“ ہوگا میں نے پوچھا: ”اس کا دخن کیا ہوگا۔“ آپ نے فرمایا: ”کچھ لوگ ہوں گے جو میرے بتائے ہوئے طریقے کے برعکس چلیں گے۔ ان کی کچھ باتیں اچھی ہوں گی اور بعض باتوں میں تم برائی دیکھو گے۔“ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد پھر شرکا دور آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،جہنم کے دروازوں پر اس کی دعوت دینے والے لوگ ہوں گے۔ جو ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ان کی صفات میں بیان کریں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ ہمارے ہی جیسے ہوں گے اور ہماری زبانوں میں گفتگو کریں گے۔“ میں نے پوچھا: اگر مجھے اس دور سے واسطہ پڑے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تم اس وقت مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا۔“ میں نے کہا: اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا امام ہی ہو تو؟ آپ نے فرمایا: ”ایسے حالات میں تمام فرقوں سے الگ رہو اگرچہ تجھے درخت کی جڑیں چبانا پڑیں یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہیں موت آجائے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں امام سے مراد کسی تنظیم کا امیر یا صدر نہیں اور نہ وہ سربراہِ حکومت ہی مراد ہیں جو مغربی جمہوریت کی پیداوار ہیں بلکہ اس سے مراد خلیفۃ المسلمین ہے جوتمام مسلمانوں کا سربراہ ہو،چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر ان دنوں زمین پر کوئی خلیفہ ہو تو اسے لازم پکڑو اگرچہ وہ تجھے سخت مارے اور تیرا سارا مال چھین لے۔ (مسندأحمد: 403/5، و الدیلمي: 31519 رقم 5621) 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے لیے پرفتن دور میں زندگی بسر کرنے کا منہج اور طریقہ بتایا ہے اگر عالم اسلام میں مسلمانوں کا کوئی امیر ہو تو اس کی اطاعت کی جائے اگرچہ اس میں کچھ نقص بھی ہو اور کچھ منکرات کا مرتکب بھی ہو اور اگر مسلمانوں کا کوئی سربراہ نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وزن کسی ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالنے کے بجائے علیحدگی اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت وفرماں برداری کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر تیسری صورت جماعت تشکیل دینے کی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ضرور ہدایت فرماتے کہ تم ایسے حالات میں خود کوئی جماعت بنالو اور ان میں سے ایک امیر منتخب کرکے اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرتے رہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ پرفتن دور میں جماعت بنانا اور لوگوں کو اس میں شمولیت کی دعوت دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے خلاف ہے۔ 3۔ہمارے رجحان کے مطابق خلیفے کی عدم موجودگی میں امارت کے چکر میں پڑ جانے کے بجائے انفرادی یا اجتماعی طور پر قرآن وحدیث پر خود عمل کیا جائے اور یہی دعوت لوگوں میں پھیلائی جائے، نیز جماعتی تعصب سے خود کو بالاتر رکھا جائے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ابن جابر نے بیان کیا‘ ان سے بسر بن عبیداللہ الخصرمی بیان کیا‘ انہوں نے ابو ادریس خولانی سے سنا‘ انہوں نے حذیفہ بن الیمان ؓ سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا۔ اس خوف سے کہ کہیں میری زندگی میں ہی شر نہ پیدا ہو جائے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے میں اس خیر سے نوازا تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا زمانہ ہو گا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ لیکن اس خیر میں کمزوری ہوگی۔ میں نے پوچھا کہ کمزوری کیا ہوگی؟ فرمایا کہ کچھ لوگ ہوں گے جو میرے طریقے کے خلاف چلیں گے‘ ان کی بعض باتیں اچھی ہوں گی لیکن بعض میں تم برائی دیکھو گے۔ میں نے پوچھا کیا پھر دور خیر کے بعد دور شر آئے گا؟ فرمایا کہ ہاں جہنم کی طرف سے بلانے والے دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے‘ جو ان کی بات مان لے گا وہ اس میں انہیں جھٹک دیں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! ان کی کچھ صفت بیان کیجئے۔ فرمایا کہ وہ ہمارے ہی جیسے ہوں گے اور ہماری ہی زبان عربی بولیں گے۔ میں نے پوچھا پھر اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو آپ مجھے ان کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہنا۔ میں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو؟ فرمایا کہ پھر ان تمام لوگوں سے الگ ہو کر رہو خواہ تمہیں جنگل میں جا کر درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہاری موت آجائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) محدثین نے کہا کہ پہلی برائی سے وہ فتنے مراد ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد ہوئے اور دوسری بھلائی سے جو عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ تھا‘ وہ مراد ہے اور ان کے بعد کا اس زمانہ میں کوئی خلیفہ عادل ہوتا متبع سنت‘ کوئی ظالم ہوتا بد عتی جیسے خلفاء عباسیہ میں مامون رشید بڑا ظالم گزرا پھر متوکل علی اللہ اچھا تھا۔ اس نے امام احمد کو قید سے خلاصی دی اور معتزلہ کی خوب سر کوبی کی۔ بعضوں نے کہا پہلی برائی سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل‘ دوسری بھلائی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زمانہ مراد ہے اور دھوئیں سے خارجیوں اور رافضیوں کے پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہے اور دوسری برائی سے بنی امیہ کا زمانہ مراد ہے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بر سر منبر برا کہا جاتا ہے‘ میں (وحید الزماں) کہتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اس حدیث سے واللہ اعلم یہ ہے کہ ایک زمانہ تک جو نقشہ میرے زمانہ میں ہے یہی چلتا رہے گا اور بھلائی قائم رہے گی یعنی کتاب وسنت کی پیروی کرتے رہیں گے جیسے سنہ400ھ تک رہا اس کے بعد برائی پیدا ہوگی یعنی لوگ تقلید شخصی میں گرفتار ہو کر کتاب وسنت سے بالکل منہ موڑ لیں گے بلکہ قرآن وحدیث کی تحصیل بھی چھوڑ دیں گے۔ قرآن وحدیث کے بدل دوسری کتابیں پڑھنے لگیں گے۔ دین کے مسائل بعوض قرآن وحدیث کے ان کتابوں سے نکالے جائیں گے۔ (2) یعنی ان کی جماعت میں جا کر شریک ہونا ان کی تعداد بڑھانا منع ہے۔ ابویعلیٰ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی کہ جو شخص کسی قوم کی جماعت کو بڑھائے وہ ان ہی میں سے ہے اور جو شخص کسی قوم کے کاموں سے راضی ہو وہ گویا خود وہ کام کر رہا ہے۔ اس حدیث سے اہل حدیث اور فسق کی مجلسوں میں شریک اور ان کا شمار بڑھانے کی ممانعت نکلتی ہے گو یہ آدمی ان کے اعتقاد اور عمل میں شریک نہ ہو جو کوئی حال قال چراغاں عرس گانے بجانے کی محفل میں شریک ہو وہ بھی بدعتیوں میں گنا جائے گا گو ان کاموں کو اچھا نہ جانتا ہو۔ (از وحیدالزماں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hudhaifa bin Al-Yaman (RA) : The people used to ask Allah's Apostle (ﷺ) about the good but I used to ask him about the evil lest I should be overtaken by them. So I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We were living in ignorance and in an (extremely) worst atmosphere, then Allah brought to us this good (i.e., Islam); will there be any evil after this good?" He said, "Yes." I said, 'Will there be any good after that evil?" He replied, "Yes, but it will be tainted (not pure.)'' I asked, "What will be its taint?" He replied, "(There will be) some people who will guide others not according to my tradition? You will approve of some of their deeds and disapprove of some others." I asked, "Will there be any evil after that good?" He replied, "Yes, (there will be) some people calling at the gates of the (Hell) Fire, and whoever will respond to their call, will be thrown by them into the (Hell) Fire." I said, "O Allah s Apostle (ﷺ) ! Will you describe them to us?" He said, "They will be from our own people and will speak our language." I said, "What do you order me to do if such a state should take place in my life?" He said, "Stick to the group of Muslims and their Imam (ruler)." I said, "If there is neither a group of Muslims nor an Imam (ruler)?" He said, "Then turn away from all those sects even if you were to bite (eat) the roots of a tree till death overtakes you while you are in that state."