باب:نبی کریم ﷺکا حضرت حسن ؓ کے متعلق فرمانا میرا یہ بیٹا سردار ہے اور یقینا اللہ پاک اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “This son of mine is a chief, and Allah may make peace between two groups of Muslims through him.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7109.
سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر لے کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑنے کے لیے نکلے تو سیدنا عمرو بن عاص ؓ نے سیدنا امیر معاویہ ؓ سے کہا: میں اس ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو واپس نہیں ہوگا یہاں تک کہ اپنے مقابل کو بھگا نہ دے۔ اس پر سیدنا معاویہ ؓ نےکہا: ایسے حالات میں مسلمانوں کے اہل وعیال کی کون کفالت کرے گا؟ انہوں نے کہا: ان کی کفالت میں کروں گا۔ پھر سیدنا عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن سمرہ نےکہا: ہم سیدناحسن بن علی ؓ سے ملاقات کرتے ہیں اور انہیں صلح پر آمادہ کرتے ہیں، سیدنا حسن بصری نے کہا: میں نے ابو بکرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بے شک یہ میرا بیٹا سید ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ اس کے سبب مسلمانوں کے دو لشکروں کے درمیان صلح کرا دے گا۔“
تشریح:
1۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد لوگوں نےحضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو وہ ایک بھاری لشکر لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی فوجوں کے ہمراہ کوفے کی طرف روانہ ہوئے۔یہ دونوں کوفے کے پاس ایک مقام پر اکھٹے ہوئے۔حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب لشکروں کی تعداد دیکھی توحضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آواز دے کر کہا:"میں اس چیز کو اختیار کرتا ہوں جو مجھے میرے پروردگار کے ہاں ملنے والی ہے۔اگراللہ تعالیٰ نے یہ حکومت تمہارے لیے لکھ دی ہے تو یہ مجھے ملنے والی نہیں اور اگرمیرے لیے لکھی ہے تو میں تمہارے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔" 2۔اس حدیث سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے حسن تدبیر سے خانہ جنگی کو ختم کردیا۔انھوں نے کسی کمزوری یا ذلت وقلت کے پیش نظر حکومت نہیں چھوڑی بلکہ مسلمانوں کی جانیں بچانے کے لیے صلح کی تھی۔انھوں نے اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں انعامات میں رغبت کی اور فتنہ وفساد کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بڑی فراخدلی کا ثبوت دیا۔ انھوں نے سفید کاغذ پر مہر لگا کر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کر دیا کہ آپ جو بھی شرائط لکھ کر دیں، میں انھیں تسلیم کر کے صلح کرنے کے لیے تیار ہوں۔ 3۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ ملک کی تدبیر میں ان کی نظر بہت دور اندیش تھی اور وہ انجام پر کڑی نظر رکھتے تھے، اس کے علاوہ انھیں اپنی رعایا کے ساتھ بھی بہت ہمدردی تھی، چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتاب وسنت کے نفاذ کی شرط پر امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرلی، پھر آپ کوفے آئے تو تمام لوگوں نے آپ کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے آپ سے بیعت کی۔ لوگوں کے جمع ہونے اور خانہ جنگی ختم ہونے کی بنا پر اس سال کا نام "عام الجماعۃ" رکھا گیا۔ جو حضرات فتنے کے دور میں گوشہ نشین ہوگئے تھے، مثلاً: ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، محمد بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی۔ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بطور انعام تین لاکھ درہم، ایک ہزار لباس، سو اونٹ اور تیس غلام دیے۔ صلح کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ روانہ ہو گئے۔ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفے کا اور حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرے کا حاکم بنا کر خود دمشق روانہ ہوگئے، اس طرح صلح کےمعاملات اختتام پذیر ہوئے۔ (فتح الباري: 80/13) 4۔واضح رہے کہ باہمی فتنہ فساد کی وجہ سے لوگوں کے ذہن اس حد تک خراب ہوچکے تھے کہ جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کرلی تو لوگوں نے آپ کے خلاف آوازے کسے ’’اے مسلمانوں کے لیے باعث ننگ وعار!‘‘ لیکن حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں مستقل مزاجی کے ساتھ یہ جواب دیا کہ مجھے فتنوں کی آگ کے مقابلے میں عار زیادہ محبوب ہے۔ (فتح الباري: 82/13)(رضي الله عنه وعنا في الدنيا والآخرة)
سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر لے کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑنے کے لیے نکلے تو سیدنا عمرو بن عاص ؓ نے سیدنا امیر معاویہ ؓ سے کہا: میں اس ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو واپس نہیں ہوگا یہاں تک کہ اپنے مقابل کو بھگا نہ دے۔ اس پر سیدنا معاویہ ؓ نےکہا: ایسے حالات میں مسلمانوں کے اہل وعیال کی کون کفالت کرے گا؟ انہوں نے کہا: ان کی کفالت میں کروں گا۔ پھر سیدنا عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن سمرہ نےکہا: ہم سیدناحسن بن علی ؓ سے ملاقات کرتے ہیں اور انہیں صلح پر آمادہ کرتے ہیں، سیدنا حسن بصری نے کہا: میں نے ابو بکرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بے شک یہ میرا بیٹا سید ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ اس کے سبب مسلمانوں کے دو لشکروں کے درمیان صلح کرا دے گا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد لوگوں نےحضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو وہ ایک بھاری لشکر لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی فوجوں کے ہمراہ کوفے کی طرف روانہ ہوئے۔یہ دونوں کوفے کے پاس ایک مقام پر اکھٹے ہوئے۔حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب لشکروں کی تعداد دیکھی توحضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آواز دے کر کہا:"میں اس چیز کو اختیار کرتا ہوں جو مجھے میرے پروردگار کے ہاں ملنے والی ہے۔اگراللہ تعالیٰ نے یہ حکومت تمہارے لیے لکھ دی ہے تو یہ مجھے ملنے والی نہیں اور اگرمیرے لیے لکھی ہے تو میں تمہارے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔" 2۔اس حدیث سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے حسن تدبیر سے خانہ جنگی کو ختم کردیا۔انھوں نے کسی کمزوری یا ذلت وقلت کے پیش نظر حکومت نہیں چھوڑی بلکہ مسلمانوں کی جانیں بچانے کے لیے صلح کی تھی۔انھوں نے اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں انعامات میں رغبت کی اور فتنہ وفساد کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بڑی فراخدلی کا ثبوت دیا۔ انھوں نے سفید کاغذ پر مہر لگا کر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کر دیا کہ آپ جو بھی شرائط لکھ کر دیں، میں انھیں تسلیم کر کے صلح کرنے کے لیے تیار ہوں۔ 3۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ ملک کی تدبیر میں ان کی نظر بہت دور اندیش تھی اور وہ انجام پر کڑی نظر رکھتے تھے، اس کے علاوہ انھیں اپنی رعایا کے ساتھ بھی بہت ہمدردی تھی، چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتاب وسنت کے نفاذ کی شرط پر امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرلی، پھر آپ کوفے آئے تو تمام لوگوں نے آپ کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے آپ سے بیعت کی۔ لوگوں کے جمع ہونے اور خانہ جنگی ختم ہونے کی بنا پر اس سال کا نام "عام الجماعۃ" رکھا گیا۔ جو حضرات فتنے کے دور میں گوشہ نشین ہوگئے تھے، مثلاً: ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، محمد بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی۔ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بطور انعام تین لاکھ درہم، ایک ہزار لباس، سو اونٹ اور تیس غلام دیے۔ صلح کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ روانہ ہو گئے۔ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفے کا اور حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرے کا حاکم بنا کر خود دمشق روانہ ہوگئے، اس طرح صلح کےمعاملات اختتام پذیر ہوئے۔ (فتح الباري: 80/13) 4۔واضح رہے کہ باہمی فتنہ فساد کی وجہ سے لوگوں کے ذہن اس حد تک خراب ہوچکے تھے کہ جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کرلی تو لوگوں نے آپ کے خلاف آوازے کسے ’’اے مسلمانوں کے لیے باعث ننگ وعار!‘‘ لیکن حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں مستقل مزاجی کے ساتھ یہ جواب دیا کہ مجھے فتنوں کی آگ کے مقابلے میں عار زیادہ محبوب ہے۔ (فتح الباري: 82/13)(رضي الله عنه وعنا في الدنيا والآخرة)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل ابوموسیٰ نے بیان کیا اور میری ان سے ملاقات کوفہ میں ہوئی تھی۔ وہ ابن شبرمہ کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے عیسیٰ (منصور کے بھائی اور کوفہ کے والی) کے پاس لے چلو تاکہ میں اسے نصیحت کروں۔ غالباً ابن شبرمہ نے خوف محسوس کیا اور نہیں لے گئے۔ انہوں نے اس پر بیان کیا کہ ہم سے حسن بصری نے بیان کیا کہ جب حسن بن علی امیر معاویہ ؓ کے خلاف لشکر لے کر نکلے تو عمروبن عاص نے امیر معاویہ ؓ سے کہا کہ میں ایسا لشکر دیکھتا ہوں جو اس وقت تک واپس نہیں جا سکتا جب تک اپنے مقابل کو بھگا نہ لے۔ پھر امیر معاویہ ؓ نے کہا کہ مسلمانوں کے اہل و عیال کا کون کفیل ہوگا؟ جواب دیا کہ میں۔ پھر عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن سمرہ نے کہا کہ ہم امیرمعاویہ ؓ سے ملتے ہیں (اور ان سے صلح کے لیے کہتے ہیں) حسن بصری نے کہا کہ میں نے ابوبکرہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ حسن ؓ آئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس اقدام سے مسلمانوں میں ایک بڑی جنگ ٹل گئی جبکہ حالات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے سازگار تھے مگر آپ نے اس خانہ جنگی کو حسن تدبر سے ختم کر دیا۔ اللہ پاک آپ کی روح پاک پر ہزارہا ہزار رحمت نازل فرمائے۔ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچی ہو گئی جو اس حدیث میں مذکور ہے۔ اللهم صل علی محمد و علیٰ آله و أصحابه أجمعین۔ پھر یہ دونوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور صلح کی تجویز ٹھہر گئی۔ اور انہوں نے صلح کر لی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مقدمہ لشکر کے سردار قیس بن سعد تھے۔ یہ دونوں لشکر کوفہ کے قریب ایک دوسرے سے ملے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان لشکروں کی تعداد پر نظر ڈال کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو پکارا۔ فرمایا میں نے اپنے پروردگار پاس جو ملنے والا ہے اس کو اختیار کیا اگر خلافت اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے تو مجھ کو ملنے والی نہیں اور اگر میرے لیے لکھی ہے تو میں نے تم کو دے ڈالی۔ اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر والوں نے تکبیر کہی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی إن ابني هذا سید ....أخیر تک پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ سنایا اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی، اس شرط پر کہ وہ اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ پر عمل کرتے رہیں۔ لوگ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کہنے لگے یا عارالمسلمین یعنی مسلمانوں کے ننگ۔ آپ نے جواب دیا العار خیر من النار۔ جو صلح نامہ قرار پایا تھا اس میں یہ بھی شرط تھی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد پھر خلافت حضرت حسن کو ملے گی۔ محمد بن قدامہ نے بہ سند صحیح اور ابن ابی خیثمہ نے ایسا ہی روایت کیا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اسی شرط پر بیعت کی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Hasan Al-Basri (RA) : When Al-Hasan bin 'Ali moved with army units against Muawiyah, 'Amr bin AL-As said to Muawiyah, "I see an army that will not retreat unless and until the opposing army retreats." Muawiyah said, "(If the Muslims are killed) who will look after their children?" 'Amr bin Al-As said: I (will look after them). On that, 'Abdullah bin 'Amir and 'Abdur-Rahman bin Samura said, "Let us meet Muawaiya and suggest peace." Al-Hasan Al-Basri added: No doubt, I heard that Abu Bakra (RA) said, "Once while the Prophet (ﷺ) was addressing (the people), Al-Hasan (bin 'Ali) came and the Prophet (ﷺ) said, 'This son of mine is a chief, and Allah may make peace between two groups of Muslims through him."