باب:کوئی شخص لوگوں کے سامنے ایک بات کہے پھر اس کے پاس سے نکل کر دوسری بات کہنے لگے
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: Changing the words)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7114.
سیدنا حذیفہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: منافقت تو نبی ﷺ کے عہد مبارک میں تھی، آج تو ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا ہے۔
تشریح:
1۔دورحاضر کے منافقین اس لیے زیادہ شرارتی ہیں کہ انھوں نے وہ امور ظاہر کردیے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زیر زمین کیے جاتے تھے۔ اس وقت لوگوں نے دلوں میں کفر چھپا رکھا تھا، البتہ ان کی گفتگو کے انداز سے ان کی شناخت ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ انھیں ان کے انداز گفتگو ہی سے پہچان لیں گے۔‘‘(محمد 47/30) 2۔ایک سیدھے سادے اور صاف دل پکے مومن کی گفتگو میں ایسی پختگی اور سنجیدگی پائی جاتی ہے جو دل میں کھوٹ رکھنے والے شخص کے انداز کلام میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارے رجحان کے مطابق حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام کی اطاعت سے خروج اور بغاوت جاہلیت ہے جبکہ اسلام میں جاہلیت کا تصور نہیں بلکہ ایسا کرنا اجتماعیت کو پارہ پارہ اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مترادف ہے۔ واللہ اعلم۔(فتح الباري: 93/13)
فتنوں کے دور میں ہرشخص کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی ہمنوائی کریں ،اس کے لیے ہرقسم کے مکروفریب اور دغابازی کو جائز خیال کیا جاتا ہے۔کچھ لوگ ایسے حالات میں"جنگ ،دھوکے فریب کا نام ہے" کے الفاظ کو بطور ڈھال استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کی مکاری اور دھوکا دہی کو حلال سمجھتے ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام ایسے حالات میں بھی مکاری اور دغابازی کی اجازت نہیں دیتا۔
سیدنا حذیفہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: منافقت تو نبی ﷺ کے عہد مبارک میں تھی، آج تو ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔دورحاضر کے منافقین اس لیے زیادہ شرارتی ہیں کہ انھوں نے وہ امور ظاہر کردیے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زیر زمین کیے جاتے تھے۔ اس وقت لوگوں نے دلوں میں کفر چھپا رکھا تھا، البتہ ان کی گفتگو کے انداز سے ان کی شناخت ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ انھیں ان کے انداز گفتگو ہی سے پہچان لیں گے۔‘‘(محمد 47/30) 2۔ایک سیدھے سادے اور صاف دل پکے مومن کی گفتگو میں ایسی پختگی اور سنجیدگی پائی جاتی ہے جو دل میں کھوٹ رکھنے والے شخص کے انداز کلام میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارے رجحان کے مطابق حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام کی اطاعت سے خروج اور بغاوت جاہلیت ہے جبکہ اسلام میں جاہلیت کا تصور نہیں بلکہ ایسا کرنا اجتماعیت کو پارہ پارہ اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مترادف ہے۔ واللہ اعلم۔(فتح الباري: 93/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا‘ ان سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا‘ ان سے ابو الشعثاء نے بیان کیا اور ان سے حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں نفاق تھا آج تو ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا ہے ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abi Asha'sha: Hudhaifa said, 'In fact, it was hypocrisy that existed in the lifetime of the Prophet (ﷺ) but today it is Kufr (disbelief) after belief.'