Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The salaries of rulers and those employed to administer the funds)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور قاضی شریح قضا کی تنخواہ لیتے تھے اور عائشہ ؓ نے کہا کہ ( یتیم کا) نگراں اپنے کام کے مطابق خرچہ لے گا اور ابوبکرہ و عمر ؓ نے بھی ( خلیفہ ہونے پر) بیت المال سے بقدر کفایت تنخواہ لی تھی۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ حکومت اور قضا کی تنخواہ لینا درست ہے مگر بقدر کفاف ہونا نہ کہ حد سے آگے بڑھنا۔
7163.
سیدنا عبداللہ بن سعدی سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر ؓ کے دور خلافت میں ان کے پاس گئےتو سیدنا عمر ؓ کے دور خلافت میں ان کے پاس گئے تو سیدنا عمر ؓ نے ان سے پوچھا: کیا مجھ سے جو کہا گیا ہے وہ صحیح ہے کہ لوگوں کے کام تمہارے سپرد کیے جاتے ہیں اور جب تمہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینا ناپسند کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ بات صحیح ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: تمہارا اس سے کیا مقصد ہے؟ میں نے کہا : میرے پاس بہت سے گھوڑے اور غلام ہیں۔ نیز میں خوشحال ہوں اور میں میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: تم ایسا نہ کرو کیونکہ میں نے بھی ایک دفعہ اس بات کا ارادہ کیا تھا جس کا تم نے ارادہ کیا ہے، رسول اللہ ﷺ مجھے عطا فرماتے تو میں کہ دیتا: آپ یہ مجھ سے زیادہ ضروت مند کو عطا کردیں۔ آپ نے مجھے ایک بار مال عطا کیا اور میں نے وہی بات دہرائی کہ آپ یہ ایسے شخص کو دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ حاجت مند ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”اسے لے لو اور اس کا مالک بننے کے بعد اسے صدقہ کردو۔ یہ مال تمہیں جب اس طرح ملے کہ تم اس کے نہ خواہش مند ہو اور نہ تم نہ یہ مانگا ہوتو اسے لے لیا اور اگر اس طرح نہ ملے اور اس کے پیچھے نہ لگا کرو“
تشریح:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حکومت اورقضا کی تنخواہ بقدر کفایت لینا جائز ہے کیونکہ لوگوں کے کاموں اور ان کے متعلق فیصلے کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے مدارس کے لیے چندہ جمع کرنے پر جو سفیر مقرر ہوتے ہیں وہ عاملین کی فہرست میں آتے ہیں ان کی تنخواہیں مقرر ہونی چاہئیں اور یہ حضرات مال دار لوگوں سے جو کچھ وصول کریں اسے دیانت داری کے ساتھ مدرسے کے بیت المال میں جمع کرادیں لیکن ہمارےہاں جمع شدہ چندے سے شرح فیصدطے ہوتا ہے ایسا کرنا محل نظر ہے کیونکہ یہ اجارہ مجہولہ کی ایک قسم ہے جسے شریعت نے جائز قراردیا۔ واللہ اعلم۔2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابن منذر کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ منصب قضا پر تنخواہ وصول کرتے تھے۔(فتح الباری:13/191)
جمہور اہل علم کا یہ موقف ہے کہ حکومت اور منصب قضا کی تنخواہ لینا جائز ہےمگر بقدر ضرورت ہو۔ اس سلسلے میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے اور قاضی کو چاہیے کہ وہ حرص اور طمع نہ کر ے اور لوگوں کے اموال سے اجنتاب کرے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مجھے اس مسئلے کے متعلق کسی کے اختلاف کا علم نہیں۔(فتح الباری:13/186)
اور قاضی شریح قضا کی تنخواہ لیتے تھے اور عائشہ ؓ نے کہا کہ ( یتیم کا) نگراں اپنے کام کے مطابق خرچہ لے گا اور ابوبکرہ و عمر ؓ نے بھی ( خلیفہ ہونے پر) بیت المال سے بقدر کفایت تنخواہ لی تھی۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ حکومت اور قضا کی تنخواہ لینا درست ہے مگر بقدر کفاف ہونا نہ کہ حد سے آگے بڑھنا۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن سعدی سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر ؓ کے دور خلافت میں ان کے پاس گئےتو سیدنا عمر ؓ کے دور خلافت میں ان کے پاس گئے تو سیدنا عمر ؓ نے ان سے پوچھا: کیا مجھ سے جو کہا گیا ہے وہ صحیح ہے کہ لوگوں کے کام تمہارے سپرد کیے جاتے ہیں اور جب تمہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینا ناپسند کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ بات صحیح ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: تمہارا اس سے کیا مقصد ہے؟ میں نے کہا : میرے پاس بہت سے گھوڑے اور غلام ہیں۔ نیز میں خوشحال ہوں اور میں میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: تم ایسا نہ کرو کیونکہ میں نے بھی ایک دفعہ اس بات کا ارادہ کیا تھا جس کا تم نے ارادہ کیا ہے، رسول اللہ ﷺ مجھے عطا فرماتے تو میں کہ دیتا: آپ یہ مجھ سے زیادہ ضروت مند کو عطا کردیں۔ آپ نے مجھے ایک بار مال عطا کیا اور میں نے وہی بات دہرائی کہ آپ یہ ایسے شخص کو دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ حاجت مند ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”اسے لے لو اور اس کا مالک بننے کے بعد اسے صدقہ کردو۔ یہ مال تمہیں جب اس طرح ملے کہ تم اس کے نہ خواہش مند ہو اور نہ تم نہ یہ مانگا ہوتو اسے لے لیا اور اگر اس طرح نہ ملے اور اس کے پیچھے نہ لگا کرو“
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حکومت اورقضا کی تنخواہ بقدر کفایت لینا جائز ہے کیونکہ لوگوں کے کاموں اور ان کے متعلق فیصلے کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے مدارس کے لیے چندہ جمع کرنے پر جو سفیر مقرر ہوتے ہیں وہ عاملین کی فہرست میں آتے ہیں ان کی تنخواہیں مقرر ہونی چاہئیں اور یہ حضرات مال دار لوگوں سے جو کچھ وصول کریں اسے دیانت داری کے ساتھ مدرسے کے بیت المال میں جمع کرادیں لیکن ہمارےہاں جمع شدہ چندے سے شرح فیصدطے ہوتا ہے ایسا کرنا محل نظر ہے کیونکہ یہ اجارہ مجہولہ کی ایک قسم ہے جسے شریعت نے جائز قراردیا۔ واللہ اعلم۔2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابن منذر کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ منصب قضا پر تنخواہ وصول کرتے تھے۔(فتح الباری:13/191)
ترجمۃ الباب:
قاضی شریح عہدہ قضاء پر تنخواہ لیتے تھے ۔سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: یتیم کے مال کا نگران اپنے کام کے مطابق خرچہ لے سکتا ہے۔ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ؓ بیت المال سے تنخواہ لے لر گزر اوقات کرتے تھے
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبردی، انہیں زہری نے، انہیں نمر کے بھانجے سائب بن یزید نے خبردی، انہیں حویطب بن عبدالعزیٰ نے خبردی، انہیں عبداللہ بن السعیدی نے خبردی کہ وہ عمر ؓ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں آئے تو ان سے عمر ؓ نے پوچھا، کیا مجھ سے یہ جو کہا گیا ہے وہ صحیح ہے کہ تمہیں لوگوں کے کام سپرد کئے جاتے ہیں اور جب اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینا پسند نہیں کرتے؟ میں نے کہا کہ یہ صحیح ہے۔ عمر ؓ نے کہا کہ تمہارا اس سے مقصد کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں خوشحال ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہوجائے۔ عمر ؓ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو کیوں کہ میں نے بھی اس کا ارادہ کیا تھا جس کا تم نے ارادہ کیا ہے آنحضرت ﷺ مجھے عطا کرتے تھے تو میں عرض کردیتا تھا کہ اسے مجھ سے زیادہ اس کے ضرورت مند کو عطا فرمادیجئے۔ آخر آپ نے ایک مرتبہ مجھے مال عطا کیا اور میں نے وہی بات دہرائی کہ اسے ایسے شخص کو دے دیجئے جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو تو آپ نے فرمایا کہ اسے لو اور اس کے مالک بننے کے بعد اس کا صدقہ کرو۔ یہ مال جب تمہیں اس طرح ملے کہ تم اس کے نہ خواہشمند ہو اور نہ اسے مانگا تو اسے لے لیا کرو اور اگر اس طرح نہ ملے تو اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin As-Sa'di (RA) : That when he went to 'Umar during his Caliphate. 'Umar said to him, "Haven't I been told that you do certain jobs for the people but when you are given payment you refuse to take it?" 'Abdullah added: I said, "Yes." 'Umar said, "Why do you do so?" I said, "I have horses and slaves and I am living in prosperity and I wish that my payment should be kept as a charitable gift for the Muslims." 'Umar said, "Do not do so, for I intended to do the same as you do. Allah's Apostles used to give me gifts and I used to say to him, 'Give it to a more needy one than me.' Once he gave me some money and I said, 'Give it to a more needy person than me,' whereupon the Prophet (ﷺ) said, 'Take it and keep it in your possession and then give it in charity. Take what ever comes to you of this money if you are not keen to have it and not asking for it; otherwise (i.e., if it does not come to you) do not seek to have it yourself.' "