Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The salaries of rulers and those employed to administer the funds)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور قاضی شریح قضا کی تنخواہ لیتے تھے اور عائشہ ؓ نے کہا کہ ( یتیم کا) نگراں اپنے کام کے مطابق خرچہ لے گا اور ابوبکرہ و عمر ؓ نے بھی ( خلیفہ ہونے پر) بیت المال سے بقدر کفایت تنخواہ لی تھی۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ حکومت اور قضا کی تنخواہ لینا درست ہے مگر بقدر کفاف ہونا نہ کہ حد سے آگے بڑھنا۔
7164.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر ؓ سے سنا،انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ مجھے کچھ مال عطا کرتے تو میں کہتا: آپ یہ اسے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو حتیٰ کہ آپ نے مجھے ایک مرتبہ مال دیا تو میں نے کہا: آپ یہ مال اس شخص کو دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اسے لے لو اور اس کا مالک بننے کے بعد اسے صدقہ کردو۔ یہ مال جب تمہیں اس طرح ملے کہ تم اس کے خواہش مند نہ ہو اور نہ تم نے مانگا ہوتو اسے لے لیا کرو جو اس طرح نہ ملے تو اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،“
تشریح:
1۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یہ حدیث پہلے ایک واقعے کے ضمن میں بیان ہوئی تھی۔اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مستقل طور پر بیان کیا ہے تاکہ اس کی استنادی حیثیت مضبوط ہو جائے۔اس حدیث کے مطابق اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ مال نہ لیتے اور اس واپس کر دیتے تو اس کی وہ افادیت نہ ہوتی جو اس کے لینے اور صدقہ کردینے میں ہے۔2۔بعض دفعہ مال واپس کر دینے میں بھی نفس میں ایک غرور سا پیدا ہو جاتا ہے اگر کوئی شخص اس طرح کا تکبر اپنے اندر محسوس کرے تو اسے لے لینا چاہیے پھر اسے خیرات کردے۔ ایسے حالات میں اس کا لینا اس کے نہ لینے سے کہیں بہتر ہے آج کل دینی خدمات سر انجام دینے والوں کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق تنخواہ ضرورلیں۔ اگر صاحب حیثیت ہیں تو بھی وصول کر لیں پھر اسے خیرات کردیں۔
جمہور اہل علم کا یہ موقف ہے کہ حکومت اور منصب قضا کی تنخواہ لینا جائز ہےمگر بقدر ضرورت ہو۔ اس سلسلے میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے اور قاضی کو چاہیے کہ وہ حرص اور طمع نہ کر ے اور لوگوں کے اموال سے اجنتاب کرے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مجھے اس مسئلے کے متعلق کسی کے اختلاف کا علم نہیں۔(فتح الباری:13/186)
اور قاضی شریح قضا کی تنخواہ لیتے تھے اور عائشہ ؓ نے کہا کہ ( یتیم کا) نگراں اپنے کام کے مطابق خرچہ لے گا اور ابوبکرہ و عمر ؓ نے بھی ( خلیفہ ہونے پر) بیت المال سے بقدر کفایت تنخواہ لی تھی۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ حکومت اور قضا کی تنخواہ لینا درست ہے مگر بقدر کفاف ہونا نہ کہ حد سے آگے بڑھنا۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر ؓ سے سنا،انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ مجھے کچھ مال عطا کرتے تو میں کہتا: آپ یہ اسے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو حتیٰ کہ آپ نے مجھے ایک مرتبہ مال دیا تو میں نے کہا: آپ یہ مال اس شخص کو دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اسے لے لو اور اس کا مالک بننے کے بعد اسے صدقہ کردو۔ یہ مال جب تمہیں اس طرح ملے کہ تم اس کے خواہش مند نہ ہو اور نہ تم نے مانگا ہوتو اسے لے لیا کرو جو اس طرح نہ ملے تو اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،“
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یہ حدیث پہلے ایک واقعے کے ضمن میں بیان ہوئی تھی۔اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مستقل طور پر بیان کیا ہے تاکہ اس کی استنادی حیثیت مضبوط ہو جائے۔اس حدیث کے مطابق اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ مال نہ لیتے اور اس واپس کر دیتے تو اس کی وہ افادیت نہ ہوتی جو اس کے لینے اور صدقہ کردینے میں ہے۔2۔بعض دفعہ مال واپس کر دینے میں بھی نفس میں ایک غرور سا پیدا ہو جاتا ہے اگر کوئی شخص اس طرح کا تکبر اپنے اندر محسوس کرے تو اسے لے لینا چاہیے پھر اسے خیرات کردے۔ ایسے حالات میں اس کا لینا اس کے نہ لینے سے کہیں بہتر ہے آج کل دینی خدمات سر انجام دینے والوں کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق تنخواہ ضرورلیں۔ اگر صاحب حیثیت ہیں تو بھی وصول کر لیں پھر اسے خیرات کردیں۔
ترجمۃ الباب:
قاضی شریح عہدہ قضاء پر تنخواہ لیتے تھے ۔سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: یتیم کے مال کا نگران اپنے کام کے مطابق خرچہ لے سکتا ہے۔ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ؓ بیت المال سے تنخواہ لے لر گزر اوقات کرتے تھے
حدیث ترجمہ:
اور زہری سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ میں نے عمر ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مجھے عطا کرتے تھے تو میں کہتا کہ آپ اسے دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو، پھر آپ نے مجھے ایک مرتبہ مال دیا اور میں نے کہا کہ آپ اسے ایسے شخص کو دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے لے لو اور اس کے مالک بننے کے بعد اس کا صدقہ کردو۔ یہ مال جب تمہیں اس طرح ملے کہ تم اس کے خواہشمند نہ ہو اور نہ اسے تم نے مانگا ہو تو اسے لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بات بتلائی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں سوجھی یعنی اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مال کو نہ لیتے صرف واپس کردیتے تو اس میں اتنا فائدہ نہ تھا جتنا لے لینے میں اور پھر اللہ کی راہ میں خیرات کرنے میں۔ کیوں کہ صدقہ کا ثواب بھی اس میں حاصل ہوا۔ محققین فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ مال کے رد کرنے میں بھی نفس کو ایک غرور حاصل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو اسے مال لے لینا چاہئے پھر لے کر خیرات کردے یہ نہ لینے سے افضل ہوگا۔ آج کل دینی خدمات کرنے والوں کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ تنخواہ بقدر کفالت لیں، غنی ہوں تو نہ لیں یا لے کر خیرات کردیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : I have heard 'Umar saying, "The Prophet (ﷺ) used to give me some money (grant) and I would say (to him), 'Give it to a more needy one than me.' Once he gave me some money and I said, 'Give it to a more needy one than me.' The Prophet (ﷺ) said (to me), 'Take it and keep it in your possession and then give it in charity. Take whatever comes to you of this money while you are not keen to have it and not asking for it; take it, but you should not seek to have what you are not given. ' "