Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The advice of the Imam to the litigants)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7168.
سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بس میں تو صرف ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا مقدمہ پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں نے جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا ٖفیصلہ کر دیا تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ وہ تو میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“
تشریح:
اس سے معلوم ہوا کہ قاضی فیصلہ کرتے وقت فریقین کو وعظ و نصیحت کرے کہ کوئی دوسرےکے حق پر ڈاکا نہ مارے بلکہ صرف اپنا حق لینے کے لیے تگ ودو اور کوشش کرے۔ نیز اس حدیث سے پتا چلا کہ قاضی کا فیصلہ صرف ظاہر میں نافذ ہوتا ہے۔ کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جاتا ہے لیکن اس فیصلے سے جو چیز حرام ہو وہ حلال نہیں ہو جاتی اور نہ حلال چیز حرام ہی ہوتی ہے۔ کسی بھی قاضی کا غلط فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صحیح نہیں ہو سکتا کہ اسے جوں کا توں نافذ کر دیا جائے۔ غلط، غلط ہی رہے گا جیسا کہ ہم کتاب الحدود میں اس کی وضاحت بیان کر آئے ہیں۔ واللہ أعلم۔
سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بس میں تو صرف ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا مقدمہ پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں نے جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا ٖفیصلہ کر دیا تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ وہ تو میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
اس سے معلوم ہوا کہ قاضی فیصلہ کرتے وقت فریقین کو وعظ و نصیحت کرے کہ کوئی دوسرےکے حق پر ڈاکا نہ مارے بلکہ صرف اپنا حق لینے کے لیے تگ ودو اور کوشش کرے۔ نیز اس حدیث سے پتا چلا کہ قاضی کا فیصلہ صرف ظاہر میں نافذ ہوتا ہے۔ کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جاتا ہے لیکن اس فیصلے سے جو چیز حرام ہو وہ حلال نہیں ہو جاتی اور نہ حلال چیز حرام ہی ہوتی ہے۔ کسی بھی قاضی کا غلط فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صحیح نہیں ہو سکتا کہ اسے جوں کا توں نافذ کر دیا جائے۔ غلط، غلط ہی رہے گا جیسا کہ ہم کتاب الحدود میں اس کی وضاحت بیان کر آئے ہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، بلاشبہ میں ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو۔ ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ چرب زبان ہو اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کر دوں تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی (فریق مخالف) کا کوئی حق دلا دوں۔ چاہئے کہ وہ اسے نہ لے کیوں کہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کسی بھی قاضی کا فیصلہ عنداللہ صحیح نہیں ہو سکتا گو وہ نافذ کر دیا جائے، غلط غلط ہی رہے گا۔ اس حدیث سے امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث اور جمہور علماء کا مذہب ثابت ہوا کہ قاضی کا فیصلہ ظاہر میں نافذ ہوتا ہے لیکن اس کے فیصلے سے جو شے حرام ہے وہ حلال نہیں ہوتی نہ حلال حرام ہوتی ہے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول رد ہوگیا کہ قاضی کا فیصلہ ظاہراً اور باطناً دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے اور اس مسئلہ کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علے وسلم کو غیب کا علم نہ تھا۔ البتہ اللہ تعالیٰ اگر آپ کو بتلا دیتا تو معلوم ہو جاتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "I am only a human being, and you people (opponents) come to me with your cases; and it may be that one of you can present his case eloquently in a more convincing way than the other, and I give my verdict according to what I hear. So if ever I judge (by error) and give the right of a brother to his other (brother) then he (the latter) should not take it, for I am giving him only a piece of Fire." (See Hadith No. 638, Vol. 3).