باب : حاکموں کو جو ہدیے تحفے دیئے جائیں ان کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The gifts taken by the employees)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7174.
سیدنا ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بنو اسد کے ایک شخص کو صدقات کی وصولی کے لیے تحصیل دار مقرر کیا۔ اسے ”ابن اتبیہ“ کہا جاتا تھا۔وہ صدقات لے کر آیا تو اس نے کہا: یہ آپ لوگوں کا مال ہے اور یہ مجھے نذرانہ دیا گیا ہے۔ یہ سن کر نبی ﷺ منبر پر تشریف لائے۔۔۔۔(راوی حدیث) سفیان نے کہا: منبر پر چڑھے۔۔۔۔۔۔اللہ کی حمد وثنا کرنے کے بعد فرمایا: اس عامل کا کیا حال ہے جسے ہم (صدقات وصول کرنے کے لیے) بھیجتے ہیں تو وہ وآپس آکر کہتا ہے: یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے؟ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر بیٹھا رہا، پھر دیکھا جاتا کہ اس کے پاس ہاتھ میں میری جان ہے یا نہیں؟ مجھےاس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ عامل جو چیز بھی اپنے پاس رکھ لے گا قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر وہ اونٹ ہوگا تووہ اپنی آواز نکالتا آئے گا۔ اگر گائے ہوگی تو وہ اپنی آواز نکالتی ہوئی آئے گی۔ اگر وہ بکری ہوگی تو وہ ممیاتی ہوئی آئے گی۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے حتی کہ ہم نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ کہے: ”خبردار! میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے۔“سفیان بن عینیہ نے کہا: یہ حدیث ہم سے زہری نے بیان کی ہے۔ ہشام نے اپنے والد کے ذریعے سے ابو حمید سے کچھ اضافہ بیان کیا، انہوں نے فرمایا: میرے کانوں نے سنا، میری آنکھوں نے دیکھا اور تم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی پوچھ لو، انہوں نے یہ حدیث میرے ہمراہ سنی تھی۔ (سفیان نے کہا:) زہری یہ الفاظ بیان نہیں کیے: میرے کانوں نے اسے سنا- امام بخاری ؓ نے کہا: حدیث میں خوار کے معنی ہیں: آواز اور جُوَارّ، تجارون سے ماخوذ ہے۔ اپنی آوازیں بلند کریں گے یعنی گائے کی طرح آوازیں نکالتے ہوں گے-
تشریح:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو ہدیے اور نذرانے حکمرانوں کو رعایا کی طرف سے دیے جاتے ہیں وہ رشوت ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے: ’’حاکم وقت کے تحائف اور نذرانے مال خیانت ہیں۔‘‘ (مسند احمد 5/424) اسی طرح بادشاہ کو بادشاہ کی حیثیت سے جو تحفہ دیا جائے وہ بیت المال میں شامل ہوگا، ہاں اگر بادشاہ اپنی ذات کے لیے ہدیہ قبول کرے تو وہ اس کے لیے جائز ہے۔ اگر امام وقت کسی کارندے کے لیے ہدیہ مباح کر دے تو وہ ا کے لیے جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا حاکم مقرر کرتے وقت فرمایا تھا: ’’میں نے تیرے لیے ہدیہ حلال کیا ہے۔‘‘ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن میں جوہدایا ملے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کرآئے۔ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نےحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ واقعہ بیان کیا توانھوں نے یہ جائز قرار دیا ہے۔ (عمدة القاري: 428/16) 2۔ہمارے رجحان کے مطابق حاکم وقت کے ہدایا رشوت ہیں کیونکہ اگر وہ حاکم نہ ہوتا تو کوئی بھی اسے ہدیہ نہ دیتا، اسی طرح قاضی کا ہدیہ بھی حرام ہے۔ ابن بطال کہتے ہیں کہ اگر مقروض، قرض خواہ کو ہدیہ دیتا ہے تو وہ بھی اسی کے حکم میں ہے الا یہ کہ اسے قرض سے منہا کر دیا جائے توجائز ہے۔ (فتح الباري: 208/13)
سیدنا ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بنو اسد کے ایک شخص کو صدقات کی وصولی کے لیے تحصیل دار مقرر کیا۔ اسے ”ابن اتبیہ“ کہا جاتا تھا۔وہ صدقات لے کر آیا تو اس نے کہا: یہ آپ لوگوں کا مال ہے اور یہ مجھے نذرانہ دیا گیا ہے۔ یہ سن کر نبی ﷺ منبر پر تشریف لائے۔۔۔۔(راوی حدیث) سفیان نے کہا: منبر پر چڑھے۔۔۔۔۔۔اللہ کی حمد وثنا کرنے کے بعد فرمایا: اس عامل کا کیا حال ہے جسے ہم (صدقات وصول کرنے کے لیے) بھیجتے ہیں تو وہ وآپس آکر کہتا ہے: یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے؟ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر بیٹھا رہا، پھر دیکھا جاتا کہ اس کے پاس ہاتھ میں میری جان ہے یا نہیں؟ مجھےاس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ عامل جو چیز بھی اپنے پاس رکھ لے گا قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر وہ اونٹ ہوگا تووہ اپنی آواز نکالتا آئے گا۔ اگر گائے ہوگی تو وہ اپنی آواز نکالتی ہوئی آئے گی۔ اگر وہ بکری ہوگی تو وہ ممیاتی ہوئی آئے گی۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے حتی کہ ہم نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ کہے: ”خبردار! میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے۔“سفیان بن عینیہ نے کہا: یہ حدیث ہم سے زہری نے بیان کی ہے۔ ہشام نے اپنے والد کے ذریعے سے ابو حمید سے کچھ اضافہ بیان کیا، انہوں نے فرمایا: میرے کانوں نے سنا، میری آنکھوں نے دیکھا اور تم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی پوچھ لو، انہوں نے یہ حدیث میرے ہمراہ سنی تھی۔ (سفیان نے کہا:) زہری یہ الفاظ بیان نہیں کیے: میرے کانوں نے اسے سنا- امام بخاری ؓ نے کہا: حدیث میں خوار کے معنی ہیں: آواز اور جُوَارّ، تجارون سے ماخوذ ہے۔ اپنی آوازیں بلند کریں گے یعنی گائے کی طرح آوازیں نکالتے ہوں گے-
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو ہدیے اور نذرانے حکمرانوں کو رعایا کی طرف سے دیے جاتے ہیں وہ رشوت ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے: ’’حاکم وقت کے تحائف اور نذرانے مال خیانت ہیں۔‘‘ (مسند احمد 5/424) اسی طرح بادشاہ کو بادشاہ کی حیثیت سے جو تحفہ دیا جائے وہ بیت المال میں شامل ہوگا، ہاں اگر بادشاہ اپنی ذات کے لیے ہدیہ قبول کرے تو وہ اس کے لیے جائز ہے۔ اگر امام وقت کسی کارندے کے لیے ہدیہ مباح کر دے تو وہ ا کے لیے جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا حاکم مقرر کرتے وقت فرمایا تھا: ’’میں نے تیرے لیے ہدیہ حلال کیا ہے۔‘‘ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن میں جوہدایا ملے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کرآئے۔ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نےحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ واقعہ بیان کیا توانھوں نے یہ جائز قرار دیا ہے۔ (عمدة القاري: 428/16) 2۔ہمارے رجحان کے مطابق حاکم وقت کے ہدایا رشوت ہیں کیونکہ اگر وہ حاکم نہ ہوتا تو کوئی بھی اسے ہدیہ نہ دیتا، اسی طرح قاضی کا ہدیہ بھی حرام ہے۔ ابن بطال کہتے ہیں کہ اگر مقروض، قرض خواہ کو ہدیہ دیتا ہے تو وہ بھی اسی کے حکم میں ہے الا یہ کہ اسے قرض سے منہا کر دیا جائے توجائز ہے۔ (فتح الباري: 208/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے، انہوں نے عروہ سے سنا، انہیں حمید ساعدی ؓ نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ بنی اسد کے ایک شخص کو صدقہ کی وصولی کے لیے رسول اللہ ﷺ نے تحصیلدار بنایا، ان کا نام ابن الاتیبہ تھا۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ آپ لوگوں کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں دیا گیا ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے، سفیان ہی نے یہ روایت بھی کی کہ ”پھر آپ منبر پر چڑھے“ پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا، اس عامل کا کیا حال ہوگا جسے ہم تحصیل کے لیے بھیجتے ہیں پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے۔ کیوں نہ وہاں اپنے باپ یا ماں کے گھر بیٹھا رہا اور دیکھا ہوتا کہ اسے ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عامل جو چیز بھی (ہدیہ کے طورپر) لے گا اسے قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ ہوگا تو وہ اپنی آواز نکالتا آئے گا، اگر گائے ہوگی تو وہ اپنی آواز نکالتی آئے گی، بکری ہوگی تو وہ بولتی آئے گی، پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے۔ یہاں تک کہ ہم نے آپ کے دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی اور آپ نے فرمایا کہ میں نے پہنچا دیا! تین مرتبہ یہی فرمایا۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ یہ حدیث ہم سے زہری نے بیان کی اور ہشام نے اپنے والد سے روایت کی، ان سے ابوحمید ؓ نے بیان کیا کہ میرے دونوں کانوں نے سنا اور دونوں آنکھوں نے دیکھا اور زید بن ثابت صحابی ؓ سے بھی پوچھ کیوں کہ انہوں نے بھی یہ حدیث میرے ساتھ سنی ہے۔ سفیان نے کہا زہری نے یہ لفظ نہیں کہا کہ میرے کانوں نے سنا۔ امام بخاری ؓ نے کہا حدیث میں خوار کا لفظ ہے یعنی گائے کی آواز یا جوار کا لفظ جو لفظ تجارون سے نکلا ہے جو سورۃ مومنون میں ہے یعنی گائے کی آواز نکالتے ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فقہائے بزرگ اصحاب سے ہیں۔ عہد صدیقی میں انہوں نے قرآن کو جمع کیا اور عہد عثمانی میں نقل کیا۔ 56سال کی عمر میں سنہ45ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Humaid Al-Sa'idi (RA) : The Prophet (ﷺ) appointed a man from the tribe of Bani Asad, called Ibn Al-Utabiyya to collect the Zakat. When he returned (with the money) he said (to the Prophet), "This is for you and this has been given to me as a gift." The Prophet (ﷺ) stood up on the pulpit (Sufyan said he ascended the pulpit), and after glorifying and praising Allah, he said, "What is wrong with the employee whom we send (to collect Zakat from the public) that he returns to say, 'This is for you and that is for me?' Why didn't he stay at his father's and mother's house to see whether he will be given gifts or not? By Him in Whose Hand my life is, whoever takes anything illegally will bring it on the Day of Resurrection by carrying it over his neck: if it is a camel, it will be grunting: if it is a cow, it will be mooing: and if it is a sheep it will be bleating!" The Prophet (ﷺ) then raised both his hands till we saw the whiteness of his armpits (and he said), "No doubt! Haven't I conveyed Allah's Message?" And he repeated it three times.