Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: To appoint the Maula as judges and officials)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7175.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا سیدنا ابو حذیفہ ؓ کے آزاد کردہ غلام سیدنا سالم ؓ اولین مہاجرین اور نبی ﷺ کے دوسرے صحابہ کرام کی مسجد قباء میں امامت کرتے تھے ان اصحاب میں سیدنا ابو بکر سیدنا عمر، سیدنا ابو سملہ، سیدنا زید اور سیدنا عامر بن عامر ربیعہ ؓ بھی ہوتے تھے۔
تشریح:
1۔ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ امامت کا فریضہ سرانجام اس لیے دیتے تھے کہ آپ قرآن کے زیادہ حافظ اور بہترین قاری تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث 692) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آزاد کردہ غلام کو حاکم یا قاضی بنانا جائز ہے بشرط یہ کہ اس میں اہلیت ہو، البتہ امامت کبریٰ کے لیے قریشی ہونا بنیادی شرط ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کرآئے ہیں۔ 2۔حضرت نافع بن عبدالحارث، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے مکہ کے گورنر تھے۔ ایک دفعہ وہ عسفان مقام پر ان سے ملنے آئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا: مکے میں تمہارا نائب کون ہے؟ انھوں نے کہا کہ ابن ابزی کو نائب بنا کر آیا ہوں۔ فرمایا: ایک غلام کو نائب بنایا ہے؟ عرض کی: وہ قرآن کے قاری اور علم فرائض کے عالم ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے سے بہت سی اقوام کو بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے اور بہت سی اقوام کو پستیوں میں گرادیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1897(817)
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا سیدنا ابو حذیفہ ؓ کے آزاد کردہ غلام سیدنا سالم ؓ اولین مہاجرین اور نبی ﷺ کے دوسرے صحابہ کرام کی مسجد قباء میں امامت کرتے تھے ان اصحاب میں سیدنا ابو بکر سیدنا عمر، سیدنا ابو سملہ، سیدنا زید اور سیدنا عامر بن عامر ربیعہ ؓ بھی ہوتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ امامت کا فریضہ سرانجام اس لیے دیتے تھے کہ آپ قرآن کے زیادہ حافظ اور بہترین قاری تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث 692) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آزاد کردہ غلام کو حاکم یا قاضی بنانا جائز ہے بشرط یہ کہ اس میں اہلیت ہو، البتہ امامت کبریٰ کے لیے قریشی ہونا بنیادی شرط ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کرآئے ہیں۔ 2۔حضرت نافع بن عبدالحارث، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے مکہ کے گورنر تھے۔ ایک دفعہ وہ عسفان مقام پر ان سے ملنے آئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا: مکے میں تمہارا نائب کون ہے؟ انھوں نے کہا کہ ابن ابزی کو نائب بنا کر آیا ہوں۔ فرمایا: ایک غلام کو نائب بنایا ہے؟ عرض کی: وہ قرآن کے قاری اور علم فرائض کے عالم ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے سے بہت سی اقوام کو بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے اور بہت سی اقوام کو پستیوں میں گرادیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1897(817)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں نافع نے خبر دی، انہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے خبر دی، کہا کہ ابوحذیفہ ؓ کے (آزاد کردہ غلام) سالم مہاجر اولین کی اور نبی کریم ﷺ کے دوسرے صحابہ مسجد قبا میں امامت کیا کرتے تھے۔ ان اصحاب میں ابوبکر، عمر، ابوسلمہ، زید اور عامر بن ربیعہ ؓ بھی ہوتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس کی وجہ یہ تھی کہ سالم قرآن کے بڑے قاری تھے جب کہ دوسری حدیث میں ہے قرآن چار شخصوں سے سیکھو۔ عبداللہ بن مسعود اور سالم مولیٰ، ابوحذیفہ اور ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم سے۔ ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ایک بار میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں دیر لگائی۔ آپ نے وجہ پوچھی۔ میں نے کہا ایک قاری کو نہایت عمدہ طور سے میں نے قرآن پڑھتے سنا۔ یہ سنتے ہی آپ چادر لے کر باہر نکلے دیکھا تو وہ سالم مولیٰ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسا شخص بنایا۔ سالم رضی اللہ عنہ امامت کر رہے تھے جو آزاد کردہ غلام تھے، اسی سے غلام کو حاکم یا قاضی بنانا ثابت ہوا، بشرطیکہ وہ اہلیت رکھتا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Salim, the freed salve of Abu Hudhaifa used to lead in prayer the early Muhajirin (emigrants) and the companions of the Prophet (ﷺ) in the Quba mosque. Among those (who used to pray behind him) were Abu Bakr, 'Umar, Abu Salama, and Amir bin Rabi'a.