باب : بادشاہ کے سامنے منھ در منھ خوشامد کرنا، پیٹھ پیچھے اس کو براکہنا منع ہے
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: Praising the Sultan and saying differently after leaving him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7178.
سیدنا محمد بن زید سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے کہا: جب ہم اپنے بادشاہ کے پاس جاتے ہیں تو ان کے سامنے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ باہر آکر اس کے خلاف کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عمر ؓ نے جواب دیا: ہم اسے نفاق شمار کرتے تھے۔
تشریح:
1۔ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے کہ چند لوگ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہنے لگے۔آپ نے فرمایا:تم ان کے سامنے بھی ایسا کہتے ہو؟انھوں نے کہا:نہیں،بلکہ ہم ان کے سامنے تعریف کرتے ہیں۔آپ نے فرمایا:ہم اسی کو منافقت شمارکرتے تھے۔ (فتح الباري: 212/13 وسنن الکبری للبیهقي: 165/5) ایک دوسری حدیث میں ہے : ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا:یہ شخص بہت بُرا ہے۔ لیکن وہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خندہ پیشانی سے ملے؟ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 6032) اس کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اظہار حقیقت کیا تاکہ اس سے کوئی معاملہ نہ کریں اور جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں۔ 2۔بہرحال انسان کے ظاہرہ باطن میں یکسانیت ہونی چاہیے۔ ظاہر وباطن کے فرق کو منافقت کہا جاتا ہے لیکن یہ عملی منافقت ہے جو انسان کو آہستہ آہستہ کفر کےقریب کر دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نفاق کفر تھا جبکہ ہمارے ہاں نفاق عمل پایا جاتا ہے۔ (فتح الباري: 212/13)
سیدنا محمد بن زید سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے کہا: جب ہم اپنے بادشاہ کے پاس جاتے ہیں تو ان کے سامنے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ باہر آکر اس کے خلاف کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عمر ؓ نے جواب دیا: ہم اسے نفاق شمار کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے کہ چند لوگ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہنے لگے۔آپ نے فرمایا:تم ان کے سامنے بھی ایسا کہتے ہو؟انھوں نے کہا:نہیں،بلکہ ہم ان کے سامنے تعریف کرتے ہیں۔آپ نے فرمایا:ہم اسی کو منافقت شمارکرتے تھے۔ (فتح الباري: 212/13 وسنن الکبری للبیهقي: 165/5) ایک دوسری حدیث میں ہے : ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا:یہ شخص بہت بُرا ہے۔ لیکن وہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خندہ پیشانی سے ملے؟ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 6032) اس کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اظہار حقیقت کیا تاکہ اس سے کوئی معاملہ نہ کریں اور جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں۔ 2۔بہرحال انسان کے ظاہرہ باطن میں یکسانیت ہونی چاہیے۔ ظاہر وباطن کے فرق کو منافقت کہا جاتا ہے لیکن یہ عملی منافقت ہے جو انسان کو آہستہ آہستہ کفر کےقریب کر دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نفاق کفر تھا جبکہ ہمارے ہاں نفاق عمل پایا جاتا ہے۔ (فتح الباري: 212/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر نے، اور ان سے ان کے والد نے کہ کچھ لوگوں نے ابن عمر ؓ سے کہا کہ ہم اپنے حاکموں کے پاس جاتے ہیں اور ان کے حق میں وہ باتیں کہتے ہیں کہ باہر آنے کے بعد ہم اس کے خلاف کہتے ہیں۔ ابن عمر ؓ نے کہا کہ ہم اسے نفاق کہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Zaid bin Abdullah bin 'Umar (RA) : Some people said to Ibn 'Umar (RA), "When we enter upon our ruler(s) we say in their praise what is contrary to what we say when we leave them." Ibn 'Umar (RA) said, "We used to consider this as hypocrisy."