باب : اگر کسی شخص کو حاکم دوسرے مسلمان بھائی کا مال ناحق دلادے تو اس کو نہ لے کیوں کہ حاکم کے فیصلہ سے نہ حرام حلال ہوسکتا ہے نہ حلال حرام ہوسکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: Whoever is given the right of his brother through a judicial decision)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7181.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ اپنے مقدمے لے کر آتےہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت اپنا مقصد واضح کرنے میں زیادہ ماہر ہو، میں یقین کرلوں کہ وہی سچا ہے اور اس طرح کے حق میں فیصلہ کر دوں ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ خالص دوزخ کا ٹکڑا ہے، وہ چاہے تو اسے لے لے یا چھوڑ دے۔“
تشریح:
1۔اگرقاضی جھوٹے گواہوں سے متاثر ہوکر کوئی فیصلہ کر دیتا ہے تو کیا وہ ظاہری اور باطنی امورپر نافذ العمل ہوگا؟ اس کے متعلق اکثر اہل علم کا موقف ہے کہ ایسا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہوگا کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جائے گا لیکن باطنی طور پر وہ نافذ نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہے اس سے باز پرس ہوگی جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ گواہوں کی گواہی پر فیصلہ تعبدی حکم ہے تو یہ باطن میں بھی نافذ العمل ہوگا ایسے شخص کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوگا ہاں اگرقاضی گواہوں کی گواہی پر نہیں بلکہ اپنے ذاتی علم کی وجہ سے فیصلہ کرتا ہے تو اسے مسترد کر دیا جائے گا۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ قاضی کا فیصلہ کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام نہیں کرےگا، لہذا کسی دوسرے کا حق لینے والے کو خوب سوچ وبچار کرنی چاہیے ۔واللہ أعلم۔
اگر کسی قاضی نے کسی کے لیے مال ملکیت کا فیصلہ کردیا تواگر وہ حقیقت میں بھی ظاہر کے موافق ہے تو وہ اسے لے لے اور اگرحقیقت میں اس کے مخالف ہے توقاضی کا فیصلہ حرام کو حلال نہیں کرے گا،اس لیے دوسرا آدمی اسے نہ لے۔
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ اپنے مقدمے لے کر آتےہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت اپنا مقصد واضح کرنے میں زیادہ ماہر ہو، میں یقین کرلوں کہ وہی سچا ہے اور اس طرح کے حق میں فیصلہ کر دوں ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ خالص دوزخ کا ٹکڑا ہے، وہ چاہے تو اسے لے لے یا چھوڑ دے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اگرقاضی جھوٹے گواہوں سے متاثر ہوکر کوئی فیصلہ کر دیتا ہے تو کیا وہ ظاہری اور باطنی امورپر نافذ العمل ہوگا؟ اس کے متعلق اکثر اہل علم کا موقف ہے کہ ایسا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہوگا کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جائے گا لیکن باطنی طور پر وہ نافذ نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہے اس سے باز پرس ہوگی جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ گواہوں کی گواہی پر فیصلہ تعبدی حکم ہے تو یہ باطن میں بھی نافذ العمل ہوگا ایسے شخص کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوگا ہاں اگرقاضی گواہوں کی گواہی پر نہیں بلکہ اپنے ذاتی علم کی وجہ سے فیصلہ کرتا ہے تو اسے مسترد کر دیا جائے گا۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ قاضی کا فیصلہ کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام نہیں کرےگا، لہذا کسی دوسرے کا حق لینے والے کو خوب سوچ وبچار کرنی چاہیے ۔واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں زیب بنت ابی سلمہ نے خبر دی اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ ام سلمہ ؓ نے خبر دی۔ آپ نے اپنے حجرہ کے دورازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر ان کی طرف نکلے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ مقدمے لے کر آتے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے ایک فریق دوسرے فریق سے بولنے میں زیادہ عمدہ ہو اور میں یقین کر لوں کی وہی سچا ہے اور اس طرح اس کے موافق فیصلہ کر دوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی میں کسی مسلمان کا حق دلا دوں تو وہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے وہ چاہے اسے لے یا چھوڑ دے، میں اس کو در حقیقت دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بنت ابوامیہ ہیں۔ پہلے ابوسلمہ کے نکاح میں تھیں۔ سنہ4ھ میں ان کے انتقال کے بعد حرم نبوی میں داخل ہوئیں۔ 84 سال کی عمر میں سنہ59ھ میں فوت ہوکر بقیع غرقد میں دفن ہوئیں۔ رضي اللہ عنها و أرضاہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA) : (the wife of the Prophet) Allah's Apostle (ﷺ) heard some people quarreling at the door of his dwelling, so he went out to them and said, "I am only a human being, and litigants with cases of dispute come to me, and someone of you may happen to be more eloquent (in presenting his case) than the other, whereby I may consider that he is truthful and pass a judgment in his favor. If ever I pass a judgment in favor of somebody whereby he takes a Muslim's right unjustly, then whatever he takes is nothing but a piece of Fire, and it is up to him to take or leave."