باب : ناحق مال اڑانے میں جو وعید ہے وہ تھوڑے اور بہت دونوں مالوں کو شامل ہے
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: To judge cases involving wealth)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے شبرمہ ( کوفہ کے قاضی ) نے کہ دعویٰ تھوڑا ہو یا بہت سب کا فیصلہ یکساں ہے
7184.
سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی تو ان کی طرف تشریف لے گئے،پھر آپ نے ان سے فرمایا: ”میں تمہارے جیسا ایک انسان ہی ہوں۔ میرے پاس لوگ مقدمات لے کر آتے ہیں ، ممکن ہے کہ ایک فریق دوسرے کے مقابلے میں عمدہ بات کرنے کا ماہر ہو اور میں اس کی بات سن کر اس کے حق فیصلہ کردیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ بات کرنے میں سچا ہے تو ایسے حالات میں اگر میں کسی دوسرے کے حق کا فیصلہ کردوں تو بلاشبہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے وہ اسے لے لے یا چھوڑدے۔“ ۔
تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ ان کا جھگڑا ایک وراثتی جائیداد کے متعلق تھا جو بالکل ہی خستہ اور پُرانی ہوچکی تھی اور ان میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ وغیرہ نہ تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حق غیر کے متعلق خبردار کیا تو دونوں رونے لگے اور اس جائیداد سے دستبردار ہوگئے اور ان میں سے ہر ایک کہنے لگے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ دوسرے کو ہی جائیداد دے دیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم اس پر آمادہ ہو ہوتو اس جائیداد کو تقسیم کرو، پھر حق تلاش کرنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد قرعہ اندازی سے اپنا حصہ متعین کرلو اور ایک دوسرے سے معافی بھی مانگ لو۔‘‘ (طحاوي: 287/2 کتاب الفضاء والشھادات) 2۔بہرحال مال تھوڑا ہو یا زیادہ اگر کسی نے ناجائز ذرائع سے اسے ہتھیا لیا اور حق دار کو اس سے محروم کردیا تو دونوں صورتوں میں مذکورہ وعید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واللہ أعلم۔
اور ابن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے شبرمہ ( کوفہ کے قاضی ) نے کہ دعویٰ تھوڑا ہو یا بہت سب کا فیصلہ یکساں ہے
حدیث ترجمہ:
سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی تو ان کی طرف تشریف لے گئے،پھر آپ نے ان سے فرمایا: ”میں تمہارے جیسا ایک انسان ہی ہوں۔ میرے پاس لوگ مقدمات لے کر آتے ہیں ، ممکن ہے کہ ایک فریق دوسرے کے مقابلے میں عمدہ بات کرنے کا ماہر ہو اور میں اس کی بات سن کر اس کے حق فیصلہ کردیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ بات کرنے میں سچا ہے تو ایسے حالات میں اگر میں کسی دوسرے کے حق کا فیصلہ کردوں تو بلاشبہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے وہ اسے لے لے یا چھوڑدے۔“ ۔
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں ہے کہ ان کا جھگڑا ایک وراثتی جائیداد کے متعلق تھا جو بالکل ہی خستہ اور پُرانی ہوچکی تھی اور ان میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ وغیرہ نہ تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حق غیر کے متعلق خبردار کیا تو دونوں رونے لگے اور اس جائیداد سے دستبردار ہوگئے اور ان میں سے ہر ایک کہنے لگے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ دوسرے کو ہی جائیداد دے دیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم اس پر آمادہ ہو ہوتو اس جائیداد کو تقسیم کرو، پھر حق تلاش کرنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد قرعہ اندازی سے اپنا حصہ متعین کرلو اور ایک دوسرے سے معافی بھی مانگ لو۔‘‘ (طحاوي: 287/2 کتاب الفضاء والشھادات) 2۔بہرحال مال تھوڑا ہو یا زیادہ اگر کسی نے ناجائز ذرائع سے اسے ہتھیا لیا اور حق دار کو اس سے محروم کردیا تو دونوں صورتوں میں مذکورہ وعید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ابن عینیہ نے ابن شبرمہ سے بیان کیا کہ دعویٰ تھوڑے مال کا ہو یا زیادہ کا، فیصلے کے اعتبار سے دونوں کی حیثیت ایک جیسی ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی‘ انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے‘ انہیں زینب بنت ابی سلمہ ؓ نے خبر دی‘ ان سے ان کی والدہ ام سلمہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی اور ان کی طرف نکلے۔ پھر ان سے فرمایا‘ میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں‘ میرے پاس لوگ مقدمہ لے کر آتے ہیں‘ ممکن ہے ایک فریق دوسے سے زیادہ عمدہ بولنے والا ہو اور میں اس کے لیے اس حق کا فیصلہ کر دوں اور یہ سمجھوں کہ میں نے فیصلہ صحیح کیا ہے (حالانکہ وہ صحیح نہ ہو) تو جس کے لیے میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو بلا شبہ یہ فیصلہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قاضی کا فیصلہ اگر غلط ہو تو وہ نافذ نہ ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA) : The Prophet (ﷺ) heard the voices of some people quarreling near his gate, so he went to them and said, "I am only a human being and litigants with cases of disputes come to me, and maybe one of them presents his case eloquently in a more convincing and impressive way than the other, and I give my verdict in his favor thinking he is truthful. So if I give a Muslim's right to another (by mistake), then that (property) is a piece of Fire, which is up to him to take it or leave it." (See Hadith No. 281 )