باب : فیصلہ لکھنے والا امانت دار اور عقلمند ہونا چاہیئے
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: It is desirable that a scribe should be honest and wise)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7191.
سیدنا زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ یمامہ سے جنگ میں بکثرت شہادت کی بنا پر سیدنا ابو بکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت ان کے پاس سیدنا عمر ؓ بھی تھے۔ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: میرے پاس سیدنا عمر ؓ آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنگ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور مجھے ڈر ہے اگر اسی طرح قرآن کے قاری دوسری جنگوں میں قتل ہوتے رہے توقرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا اہتمام کریں۔ میں نے (انہیں ) کہا: میں وہ کام کسے کرسکتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا عمر ؓ کہا: اللہ کی قسم! یہ تو کار خیر ہے ۔اور وہ مسلسل میرے ساتھ اس مسئلے میں تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میں میرا سینہ اس کے لیے کھول دیا جس کے لیے عمر ؓ سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے سیدنا عمر ؓ مناسب سمجھتے تھے۔ سیدنا زید ؓ نے بیان کیا کہ مجھ سے سے سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: تم جوان ہو، عقل مند ہو،ہم تمہیں کسی معاملے میں مہتمم بھی نہیں خیال کرتے۔ تم رسول اللہ ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے، لہذا تم قرآنی آیات کو تلاش کرو ،پھر انہیں ایک جگہ جمع کردو۔ سیدنا زید ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر سیدنا ابو بکر ؓ مجھے پہاڑوں میں سے کوئی پہاڑ اٹھا لانے کی تکیلیف دیتے تو اس کا بوجھ مجھے اتنا محسوس نہ ہوتا جتنا قرآن مجید کو جمع کرنے کے حکم سے محسوس ہوا۔ میں نے ان حضرات سے کہا: آپ کس طرح ایسا کام کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ کار خیر ہے، چنانچہ وہ مجھے اس کام کے لیے امادہ کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے میرا سینہ بھی کھول دیا جس کے لیے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ؓ کا سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے وہ مناسب سمجھتے تھے۔ بہرحال میں نے قرآن مجید کی تلاش شروع کردی۔ میں اسے کھجور کی شاخوں ،چمڑے کے ٹکڑوں ، سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا۔ میں نے سورہ توبہ کی آخری آیت: «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ» سیدنا خزیمہ یا ابو خزیمہ ؓ کے پاس پائی اور اسے سورت میں شامل کردیا۔ اس کے بعد یہ مرتب صحیفے سیدنا ابو بکر ؓ کے پاس رہے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی تووہ سیدنا عمر ؓ کے پاس رہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فوت کردیا۔ اس کے بعد وہ سیدہ حفصہ بنت عمر ؓ کے پاس رہے۔۔ محمد بن عبید اللہ نے کہا: لخاف سے مراد ٹھیکریاں ہیں۔
تشریح:
1۔اس حدیث کے مطابق حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوعقلمند کہا،پھر اسی عقل ودانش کو ان کے امانت دار ہونے کا سبب قراردیا بصورت دیگرصرف عقل مند ہونا توامانت دار ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ بہت سے عقلمند پر لے درجے کے خیانت پیشہ ثابت ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں عبداللہ بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فریضہ کتابت ادا کرتے تھے۔ ان کی امانت ودیانت کا یہ حال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملوک وسلاطین (بادشاہوں) کتابت کرتے تھے۔ 2۔روایات میں ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عیسائی کاتب رکھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں ڈانٹا اوریہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اے ایمان والو!یہودونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔‘‘(المآئدة: 51) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اسے میں نے دوست نہیں بنایا بلکہ بطور کاتب رکھا ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا تمھیں مسلمانوں میں کوئی کاتب نہیں ملتا جو تمہارا یہ کام کرسکے؟ جب اللہ تعالیٰ نے انھیں دور کیا ہے، خیانت پیشہ کہا ہے اور ذلیل قرار دیا ہے تو تم انھیں اپنےقریب کیوں کرتے ہو؟ انھیں امانت دارقرار دیتے ہو اور یہ عہدہ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کیوں کرتے ہو۔ (فتح الباري: 13/228)
سیدنا زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ یمامہ سے جنگ میں بکثرت شہادت کی بنا پر سیدنا ابو بکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت ان کے پاس سیدنا عمر ؓ بھی تھے۔ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: میرے پاس سیدنا عمر ؓ آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنگ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور مجھے ڈر ہے اگر اسی طرح قرآن کے قاری دوسری جنگوں میں قتل ہوتے رہے توقرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا اہتمام کریں۔ میں نے (انہیں ) کہا: میں وہ کام کسے کرسکتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا عمر ؓ کہا: اللہ کی قسم! یہ تو کار خیر ہے ۔اور وہ مسلسل میرے ساتھ اس مسئلے میں تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میں میرا سینہ اس کے لیے کھول دیا جس کے لیے عمر ؓ سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے سیدنا عمر ؓ مناسب سمجھتے تھے۔ سیدنا زید ؓ نے بیان کیا کہ مجھ سے سے سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: تم جوان ہو، عقل مند ہو،ہم تمہیں کسی معاملے میں مہتمم بھی نہیں خیال کرتے۔ تم رسول اللہ ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے، لہذا تم قرآنی آیات کو تلاش کرو ،پھر انہیں ایک جگہ جمع کردو۔ سیدنا زید ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر سیدنا ابو بکر ؓ مجھے پہاڑوں میں سے کوئی پہاڑ اٹھا لانے کی تکیلیف دیتے تو اس کا بوجھ مجھے اتنا محسوس نہ ہوتا جتنا قرآن مجید کو جمع کرنے کے حکم سے محسوس ہوا۔ میں نے ان حضرات سے کہا: آپ کس طرح ایسا کام کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ کار خیر ہے، چنانچہ وہ مجھے اس کام کے لیے امادہ کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے میرا سینہ بھی کھول دیا جس کے لیے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ؓ کا سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے وہ مناسب سمجھتے تھے۔ بہرحال میں نے قرآن مجید کی تلاش شروع کردی۔ میں اسے کھجور کی شاخوں ،چمڑے کے ٹکڑوں ، سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا۔ میں نے سورہ توبہ کی آخری آیت: «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ» سیدنا خزیمہ یا ابو خزیمہ ؓ کے پاس پائی اور اسے سورت میں شامل کردیا۔ اس کے بعد یہ مرتب صحیفے سیدنا ابو بکر ؓ کے پاس رہے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی تووہ سیدنا عمر ؓ کے پاس رہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فوت کردیا۔ اس کے بعد وہ سیدہ حفصہ بنت عمر ؓ کے پاس رہے۔۔ محمد بن عبید اللہ نے کہا: لخاف سے مراد ٹھیکریاں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کے مطابق حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوعقلمند کہا،پھر اسی عقل ودانش کو ان کے امانت دار ہونے کا سبب قراردیا بصورت دیگرصرف عقل مند ہونا توامانت دار ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ بہت سے عقلمند پر لے درجے کے خیانت پیشہ ثابت ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں عبداللہ بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فریضہ کتابت ادا کرتے تھے۔ ان کی امانت ودیانت کا یہ حال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملوک وسلاطین (بادشاہوں) کتابت کرتے تھے۔ 2۔روایات میں ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عیسائی کاتب رکھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں ڈانٹا اوریہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اے ایمان والو!یہودونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔‘‘(المآئدة: 51) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اسے میں نے دوست نہیں بنایا بلکہ بطور کاتب رکھا ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا تمھیں مسلمانوں میں کوئی کاتب نہیں ملتا جو تمہارا یہ کام کرسکے؟ جب اللہ تعالیٰ نے انھیں دور کیا ہے، خیانت پیشہ کہا ہے اور ذلیل قرار دیا ہے تو تم انھیں اپنےقریب کیوں کرتے ہو؟ انھیں امانت دارقرار دیتے ہو اور یہ عہدہ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کیوں کرتے ہو۔ (فتح الباري: 13/228)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبد اللہ ابو ثابت نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے عبید بن سابق نے اور ان سے زید بن ثابت ؓ نے کہ جنگ یمامہ میں بکثرت (قاری صحابہ کی) شہادت کی وجہ سے ابو بکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ ان کے پاس عمر ؓ بھی تھے۔ ابو بکر ؓ نے مجھ سے کہا کہ عمر میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور میرا خیال ہے کہ دوسری جنگوں میں بھی اسی طرح وہ شہید کئے جائیں گے اور قرآن اکثر ضائع ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن مجید کو (کتابی صورت میں) جمع کرنے کا حکم دیں۔ اس پر میں نے عمر ؓ سے کہا کہ میں کوئی ایسا کام کیسے کرسکتا ہوں جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا۔ عمر ؓ نے کہا واللہ! یہ تو کار خیر ہے۔ عمر ؓ اس معاملہ میں برابر مجھ سے کہتے رہے‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اس معاملے میں میرا بھی سینہ کھول دیا جس طرح عمر ؓ کا تھا اور میں بھی وہی مناسب سمجھنے لگا جسے عمر ؓ مناسب سمجھتے تھے۔ زید ؓ نے بیان یا کہ مجھ سے ابو بکر ؓ نے کہا کہ تم جوان ہو‘ عقلمند ہو اور ہم تمہیں کسی بارے میں متہم بھی نہیں سمجھتے تم آنحضرت ﷺ کی وحی بھی لکھتے تھے‘ پس تم اس قرآن مجید (کی آیات) کو تلاش کرو اور ایک جگہ جمع کردو۔ زید ؓ نے بیان کیا کہ واللہ! اگر ابو بکر ؓ مجھے کسی پہاڑ کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھنے کا مکلف کرتے تو اس کا بوجھ بھی میں اتنا نہ محسوس کرتا جتنا کہ مجھے قرآن مجید کو جمع کرنے کے حکم سے محسوس ہوا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ آپ کس طرح ایسا کام کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا۔ ابو بکر نے کہا کہ واللہ! یہ خیر ہے۔ چنانچہ مجھے آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا جس کے لئے ابو بکر وعمر ؓ کا سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے وہ لوگ مناسب خیال کر رہے تھے۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید کی تلاش شروع کی۔ اسے میں کھجور کی چھال‘ چمڑے وغیرہ کے ٹکڑوں‘ پتلے پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا۔ میں نے سورۃ توبہ کی آخری آیت «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ» آخر تک خزیمہ یا ابو خزیمہ ؓ کے پاس پائی اور اس کو سورت میں شامل کر لیا۔ (قرآن مجید کے یہ مرتب) صحیفے ابو بکر ؓ کے پاس رہے جب تک وہ زندہ ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی‘ پھر وہ عمر ؓ کے پاس آگئے اور آخر وقت تک ان کے پاس رہے۔ جب آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے وفات دی تو وہ حفصہ بن عمر ؓ کے پاس محفوظ رہے۔ محمد بن عبید اللہ نے کہا کہ ”اللخاف“ کے لفظ سے ٹھیکری مراد ہے جسے خزف کہتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
باب کا مضمون اس سے ثابت ہوا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک اہم تحریر کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Thabit (RA) : Abu Bakr (RA) sent for me owing to the large number of casualties in the battle of Al-Yamama, while 'Umar was sitting with him. Abu Bakr (RA) said (to me), 'Umar has come to my and said, 'A great number of Qaris of the Holy Qur'an were killed on the day of the battle of Al-Yamama, and I am afraid that the casualties among the Qaris of the Qur'an may increase on other battle-fields whereby a large part of the Qur'an may be lost. Therefore I consider it advisable that you (Abu Bakr) should have the Qur'an collected.' I said, 'How dare I do something which Allah's Apostle (ﷺ) did not do?' 'Umar said, By Allah, it is something beneficial.' 'Umar kept on pressing me for that till Allah opened my chest for that for which He had opened the chest of 'Umar and I had in that matter, the same opinion as 'Umar had." Abu Bakr (RA) then said to me (Zaid), "You are a wise young man and we do not have any suspicion about you, and you used to write the Divine Inspiration for Allah's Apostle. So you should search for the fragmentary scripts of the Qur'an and collect it (in one Book)." Zaid further said: By Allah, if Abu Bakr (RA) had ordered me to shift a mountain among the mountains from one place to another it would not have been heavier for me than this ordering me to collect the Qur'an. Then I said (to 'Umar and Abu Bakr), "How can you do something which Allah's Apostle (ﷺ) did not do?" Abu Bakr (RA) said, "By Allah, it is something beneficial." Zaid added: So he (Abu Bakr) kept on pressing me for that until Allah opened my chest for that for which He had opened the chests of Abu Bakr (RA) and 'Umar, and I had in that matter, the same opinion as theirs. So I started compiling the Qur'an by collecting it from the leafless stalks of the date-palm tree and from the pieces of leather and hides and from the stones, and from the chests of men (who had memorized the Qur'an). I found the last verses of Sirat-at-Tauba: ("Verily there has come unto you an Apostle (ﷺ) (Muhammad) from amongst yourselves--' (9.128-129)) from Khuzaima or Abi Khuzaima and I added to it the rest of the Sura. The manuscripts of the Qur'an remained with Abu Bakr (RA) till Allah took him unto Him. Then it remained with 'Umar till Allah took him unto Him, and then with Hafsah (RA) bint 'Umar.