باب : امام کا اپنے نائبوں کو اور قاضی کا اپنے عملہ کو لکھنا
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The writing of a letter by the ruler to representatives and by judge to workers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7192.
سیدنا سہل بن ابی حثمہ ؓ اور ان کی قوم کے بڑے بڑے فضلاء سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ ؓ خیبر کی طرف گئے کیونکہ وہ ن دونں تنگ دستی میں مبتلا تھے۔ محیصہ ؓ کو بتایا گیا کہ عبداللہ کو قتل کر کے گڑھے یا پانی کے چشمے میں پھینک دیا گیا ہے۔ وہ یہودیوں کے پاس گئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم نے عبداللہ کو قتل کیا ہے انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر وہ واپس اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اس بات کا ذکر کیا۔ اس کے بعد وہ، ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل آئے۔ محیصہ نے بات کرنا چاہی کیونکہ وہی خیبر میں موجود تھے تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”بڑے کو آگے کرو۔“ یعنی جو عمر میں تم سے بڑا ہے، چنانچہ حویصہ نے بات کا آغاز کیا، پھر محیصہ نے بھی گفتگو کی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کے متعلق فرمایا: وہ تمہارے ساتھی کی دیت ادا کریں یا لڑائی کے لیے تیار ہوجائیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف اس مضمون کا خط بھیجا تو انہوں نے جواب میں یہ لکھا: ہم نے اسے قتل نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمن ؓ سے فرمایا: کیا تم قسمیں اٹھاتے ہوتا کہ تم اپنے ساتھی کی دیت کے حق دار بن سکو؟ انہوں نے کہا: ہم قسم نہیں اٹھائیں گے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا آپ لوگوں کے لیے یہودی قسم اٹھائیں؟“ انہوں نے کہا: وہ تو مسلمان نہیں۔تب رسول اللہ ﷺ نے اپنی طرف سے سو اونٹ بطور دیت ادا کر دیے، چنانچہ ان کو حویلی میں داخل کر دیا گیا ۔سہل ؓ نےکہا: ان میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے اپنی طرف سے مقتول کی دیت ادا کر دی، نیز ان کی تالیف قلب (دل جوئی کرنا) بھی مقصود تھی ورنہ ان کا حق نہیں بنتا تھا کیونکہ وہ خود قسم اٹھانے پر آمادہ نہ تھے اور نہ یہودیوں کی قسم پر انھیں اعتبار ہی تھا۔ 2۔عنوان کامقصد یہ ہے کہ حاکم وقت اپنے کارندوں کو زکاۃ کی وصولی یا جہاد سے متعلقہ ہدایات لکھ کر بھیج سکتا ہے، لیکن حدیث میں اپنے نائب کو لکھنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فریق مخالف یہودیوں کو لکھا۔ جب انھیں لکھا جا سکتا ہے تو اپنے عملے کو لکھنے میں کیا حرج ہے۔ (فتح الباري: 229/13)
سیدنا سہل بن ابی حثمہ ؓ اور ان کی قوم کے بڑے بڑے فضلاء سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ ؓ خیبر کی طرف گئے کیونکہ وہ ن دونں تنگ دستی میں مبتلا تھے۔ محیصہ ؓ کو بتایا گیا کہ عبداللہ کو قتل کر کے گڑھے یا پانی کے چشمے میں پھینک دیا گیا ہے۔ وہ یہودیوں کے پاس گئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم نے عبداللہ کو قتل کیا ہے انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر وہ واپس اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اس بات کا ذکر کیا۔ اس کے بعد وہ، ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل آئے۔ محیصہ نے بات کرنا چاہی کیونکہ وہی خیبر میں موجود تھے تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”بڑے کو آگے کرو۔“ یعنی جو عمر میں تم سے بڑا ہے، چنانچہ حویصہ نے بات کا آغاز کیا، پھر محیصہ نے بھی گفتگو کی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کے متعلق فرمایا: وہ تمہارے ساتھی کی دیت ادا کریں یا لڑائی کے لیے تیار ہوجائیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف اس مضمون کا خط بھیجا تو انہوں نے جواب میں یہ لکھا: ہم نے اسے قتل نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمن ؓ سے فرمایا: کیا تم قسمیں اٹھاتے ہوتا کہ تم اپنے ساتھی کی دیت کے حق دار بن سکو؟ انہوں نے کہا: ہم قسم نہیں اٹھائیں گے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا آپ لوگوں کے لیے یہودی قسم اٹھائیں؟“ انہوں نے کہا: وہ تو مسلمان نہیں۔تب رسول اللہ ﷺ نے اپنی طرف سے سو اونٹ بطور دیت ادا کر دیے، چنانچہ ان کو حویلی میں داخل کر دیا گیا ۔سہل ؓ نےکہا: ان میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے اپنی طرف سے مقتول کی دیت ادا کر دی، نیز ان کی تالیف قلب (دل جوئی کرنا) بھی مقصود تھی ورنہ ان کا حق نہیں بنتا تھا کیونکہ وہ خود قسم اٹھانے پر آمادہ نہ تھے اور نہ یہودیوں کی قسم پر انھیں اعتبار ہی تھا۔ 2۔عنوان کامقصد یہ ہے کہ حاکم وقت اپنے کارندوں کو زکاۃ کی وصولی یا جہاد سے متعلقہ ہدایات لکھ کر بھیج سکتا ہے، لیکن حدیث میں اپنے نائب کو لکھنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فریق مخالف یہودیوں کو لکھا۔ جب انھیں لکھا جا سکتا ہے تو اپنے عملے کو لکھنے میں کیا حرج ہے۔ (فتح الباري: 229/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی‘ انہیں ابن ابی لیلیٰ نے (دوسری سند) امام بخاری نے کہا کہ ہم سے اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے ابو لیلیٰ بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن سہل نے، ان سے سہل بن ابی حثمہ نے، انہیں سہل اور ان کی قوم کے بعض دوسرے ذمہ داروں نے خبر دی کہ عبد اللہ سہل اور محیصہ ؓ خیبر کی طرف (کھجور لینے کے لیے) گئے۔ کیونکہ تنگ دستی میں مبتلا تھے۔ پھر محیصہ کو بتایا گیا کہ عبد اللہ کو کسی نے قتل کر کے گڑھے یا کنویں میں ڈال دیا ہے۔ پھر وہ یہودیوں کے پاس گئے اور کہا کہ واللہ! تم نے ہی قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا واللہ! ہم نے انہیں نہیں قتل کیا۔ پھر وہ واپس آئے اور اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے ذکر کیا۔ اس کے بعد وہ اور ان کے بھائی حویصہ جو ان سے بڑے تھے اور عبد الرحمن بن سہل ؓ آئے‘ پھر محیصہ ؓ نے بات کرنی چاہی کیونکہ آپ ہی خیبر میں موجود تھے لیکن آنحضرت ﷺ نے ان سے کہا کہ بڑے کو آگے کرو‘ بڑے کو آپ کی مراد عمر کی بڑائی تھی۔ چنانچہ حویصہ نے بات کی، پھر محیصہ نے بھی بات کی۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہودی تمہارے ساتھی کی دیت ادا کریں ورنہ لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے یہودیوں کو اس مقدمہ میں لکھا۔ انہوں نے جواب میں یہ لکھا کہ ہم نے انہیں نہیں قتل کیا ہے۔ پھر آپ نے حویصہ‘ محیصہ اور عبدالرحمن ؓ سے کہا کہ کیا آپ لوگ قسم کھا کر اپنے شہید ساتھی کے خون کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا کہ نہیں (کیونکہ جرم کرتے دیکھا نہیں تھا) پھر آپ نے فرمایا‘ کیا آپ لوگوں کے بجائے یہودی قسم کھائیں (کہ انہوں نے قتل نہیں کیا ہے)؟ انہوں نے کہا کہ ہم سلمان نہیں ہیں اور وہ جھوٹی قسم کھا سکتے ہیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اپنی طرف سے سو اونٹوں کی دیت ادا کی اور وہ اونٹ گھر میں لائے گئے۔ سہل ؓ نے بیان کیا کہ ان میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری۔
حدیث حاشیہ:
آپ نے یہودیوں کو اس مقدمہ قتل کے بارے میں سوا لنامہ لکھوا کر بھیجا اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Laila bin 'Abdullah bin Abdur-Rahman bin Sahl (RA) : Sahl bin Abi Hathma and some great men of his tribe said, 'Abdullah bin 'Sahl and Muhaiyisa went out to Khaibar as they were struck with poverty and difficult living conditions. Then Muhaiyisa was informed that Abdullah had been killed and thrown in a pit or a spring. Muhaiyisa went to the Jews and said, "By Allah, you have killed my companion." The Jews said, "By Allah, we have not killed him." Muhaiyisa then came back to his people and told them the story. He, his elder brother Huwaiyisa and 'Abdur-Rahman bin Sahl came (to the Prophet) and he who had been at Khaibar, proceeded to speak, but the Prophet (ﷺ) said to Muhaiyisa, "The eldest! The eldest!" meaning, "Let the eldest of you speak." So Huwaiyisa spoke first and then Muhaiyisa. Allah's Apostle (ﷺ) said, "The Jews should either pay the blood money of your (deceased) companion or be ready for war." After that Allah's Apostle (ﷺ) wrote a letter to the Jews in that respect, and they wrote that they had not killed him. Then Allah's Apostle (ﷺ) said to Huwaiyisa, Muhaiyisa and 'Abdur-Rahman, "Can you take an oath by which you will be entitled to take the blood money?" They said, "No." He said (to them), "Shall we ask the Jews to take an oath before you?" They replied, "But the Jews are not Muslims." So Allah's Apostle (ﷺ) gave them one-hundred she-camels as blood money from himself. Sahl added: When those she-camels were made to enter the house, one of them kicked me with its leg.