Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The ruler calling his employees to account)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7197.
سیدنا ابو حمیدی ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ابن قبیہ کو بنو سلیم سے صدقات وصول کرنے پر مقرر کیا۔ جب(وہ صدقات وصول کرکے) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے حساب طلب فرمایا۔ اس نے کہا: یہ تو آپ حضرات کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھر تو اپنے مان باپ کےگھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا، اگر تو سچا ہے تو وہاں بھی نذرانے آتے رہتے؟ اس کے بعد آپ اٹھے اور لوگوں سے خطاب فرمایا: آپ نے حمد وثنا کے بعد فرمایا: امابعد! میں تم سے کچھ لوگوں کو ان امور پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سونپے ہیں، پھر تم میں سے ایک شخص آتا ہے: یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے نذرانہ دیا گیا ہے اگر وہ شخص سچا ہے تو اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا حتی کہ اس کے پاس نذرانے آئیں؟ اللہ کی قسم! تم میں سے اگر کوئی اس مال میں سے کوئی چیز لے گا۔۔۔۔ ہشام کے یہ الفاظ ہیں:حق کے بغیر رکھے گا۔۔۔۔ تو قیامت کے دن اسے اٹھا کر اللہ کے حضور پیش ہوگا۔۔۔ خبردار! جو وہ اللہ کے پاس لائے گا میں اسے پہچان لوں گا۔ وہ اونٹ لے کر آئے گا جو بلبلاتا ہوگا یا گائے ہوگی جو ڈکارتی ہوگی یا بکری ممیاتی ہوگی۔ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے حتی کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی اور فرمایا: خبردار! کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے؟
تشریح:
1۔حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اپنے افسران کو سخت ہدایات جاری کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ’’وہاں سے جو کچھ بھی تم میری اجازت کے بغیر لوگے وہ خیانت شمار ہوگا۔‘‘ (جامع الترمذي، الأحکام، حدیث: 1335) پھران کی کڑی نگرانی کرے اور محاسبہ کرتا رہے چنانچہ ابن تسبیہ جب بہت سا مال لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حساب کے لیے اپنے کارندے بھیجے۔ اس نے پہلے سے ہی مال کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا اور کہنے لگا یہ تمھارا مال ہے اور یہ میرے نذرانے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملےکی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سخت نوٹس لیا اور بددیانتی پر باز پرس فرمائی ۔ 2۔بہر حال جس حکومت کے افسران بددیانت ہوں گے اس کا ضرور ایک نہ ایک دن بیڑا غرق ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رشوت لینے والے بددیانت اور خائن افسران سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔
سیدنا ابو حمیدی ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ابن قبیہ کو بنو سلیم سے صدقات وصول کرنے پر مقرر کیا۔ جب(وہ صدقات وصول کرکے) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے حساب طلب فرمایا۔ اس نے کہا: یہ تو آپ حضرات کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھر تو اپنے مان باپ کےگھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا، اگر تو سچا ہے تو وہاں بھی نذرانے آتے رہتے؟ اس کے بعد آپ اٹھے اور لوگوں سے خطاب فرمایا: آپ نے حمد وثنا کے بعد فرمایا: امابعد! میں تم سے کچھ لوگوں کو ان امور پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سونپے ہیں، پھر تم میں سے ایک شخص آتا ہے: یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے نذرانہ دیا گیا ہے اگر وہ شخص سچا ہے تو اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا حتی کہ اس کے پاس نذرانے آئیں؟ اللہ کی قسم! تم میں سے اگر کوئی اس مال میں سے کوئی چیز لے گا۔۔۔۔ ہشام کے یہ الفاظ ہیں:حق کے بغیر رکھے گا۔۔۔۔ تو قیامت کے دن اسے اٹھا کر اللہ کے حضور پیش ہوگا۔۔۔ خبردار! جو وہ اللہ کے پاس لائے گا میں اسے پہچان لوں گا۔ وہ اونٹ لے کر آئے گا جو بلبلاتا ہوگا یا گائے ہوگی جو ڈکارتی ہوگی یا بکری ممیاتی ہوگی۔ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے حتی کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی اور فرمایا: خبردار! کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے؟
حدیث حاشیہ:
1۔حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اپنے افسران کو سخت ہدایات جاری کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ’’وہاں سے جو کچھ بھی تم میری اجازت کے بغیر لوگے وہ خیانت شمار ہوگا۔‘‘ (جامع الترمذي، الأحکام، حدیث: 1335) پھران کی کڑی نگرانی کرے اور محاسبہ کرتا رہے چنانچہ ابن تسبیہ جب بہت سا مال لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حساب کے لیے اپنے کارندے بھیجے۔ اس نے پہلے سے ہی مال کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا اور کہنے لگا یہ تمھارا مال ہے اور یہ میرے نذرانے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملےکی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سخت نوٹس لیا اور بددیانتی پر باز پرس فرمائی ۔ 2۔بہر حال جس حکومت کے افسران بددیانت ہوں گے اس کا ضرور ایک نہ ایک دن بیڑا غرق ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رشوت لینے والے بددیانت اور خائن افسران سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سے محمد بن سلام نے بیان کیا‘ کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی‘ ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا‘ ان سے ان کے والد نے‘ ان سے ابو حمید ساعدی نے کہ نبی کریم ﷺ نے ابن الاتیہ کو بنی سلیم کے صدقہ کی وصولیابی کے لیے عامل بنایا۔ جب وہ آنحضرت ﷺ کے پاس (وصولیابی کر کے) آئے اور آنحضرت ﷺ نے ان سے حساب طلب فرمایا تو انہوں نے کہا یہ تو آپ لوگوں کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھے رہے‘ اگر تم سچے ہو تو وہاں بھی تمہارے پاس ہدیہ آتا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ دیا۔ آپ نے حمد وثنا کے بعد فرمایا۔ اما بعد! میں کچھ لوگوں کو بعض ان کاموں کے لیے عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سونپے ہیں‘ پھر تم میں سے کوئی ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ اگر وہ سچا ہے تو پھر کیوں نہ وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا رہا تا کہ وہیں اس کا ہدیہ پہنچ جاتا۔ پس خدا کا قسم تم میں سے کوئی اگر اس مال میں سے کوئی چیز لے گا۔ ہشام نے آگے کا مضمون اس طرح بیان کیا کہ بلا حق کے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس طرح لائے گا کہ وہ اس کو اٹھائے ہوئے ہوگا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں اسے پہچان لوں گا جو اللہ کے پاس وہ شخص لے کر آئے گا۔ اونٹ جو آواز نکال رہا ہوگا یا گائے جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی یا بکری جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی اور فرمایا کیا میں نے پہنچا دیا۔
حدیث حاشیہ:
جس حکومت کے عمال اور افسران بددیانت ہوں گے اس کا ضرور ایک دن بیڑا غرق ہوگا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سختی کے ساتھ اس عامل سے باز پرس فرمائی اور اس کی بدیانتی پر آپ نے سخت لفظوں میں اسے ڈانٹا۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Humaid As-Sa'idi (RA) : The Prophet (ﷺ) employed Ibn Al-Utbiyya to collect Zakat from Bani Sulaim, and when he returned (with the money) to Allah's Apostle (ﷺ) the Prophet (ﷺ) called him to account, and he said, "This (amount) is for you, and this was given to me as a present." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Why don't you stay at your father's house or your mother's house to see whether you will be given gifts or not, if you are telling the truth?" Then Allah's Apostle (ﷺ) stood up and addressed the people, and after glorifying and praising Allah, he said: Amma Ba'du (then after) I employ some men from among you for some job which Allah has placed in my charge, and then one of you comes to me and says, 'This (amount) is for you and this is a gift given to me.' Why doesn't he stay at the house of his father or the house of his mother and see whether he will be given gifts or not if he was telling the truth by Allah, none of you takes anything of it (i.e., Zakat) for himself (Hisham added: unlawfully) but he will meet Allah on the Day of Resurrection carrying it on his neck! I do not want to see any of you carrying a grunting camel or a mooing cow or a bleating sheep on meeting Allah." Then the Prophet (ﷺ) raised both his hands till I saw the whiteness of his armpits, and said, "(No doubt)! Haven't I conveyed Allah's Message!"