Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The giving of the Bai'a by the bedouins)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7209.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، پھر اسے بخار ہوگیا تو اس نے کہا: میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ یعنی فسخ کر دیں۔ آپ ﷺ نے انکار کر دیا۔ وہ پھر آیا اور کہا: میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی انکار کر دیا۔ آخر وہ خود ہی (مدینہ طیبہ سے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ طیبہ بھٹی کی طرح ہے، یہ میل کچیل دور کر دیتا ہے اور خالص کو رکھ لیتا ہے۔“
تشریح:
1۔فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے لیے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنا اور اس میں رہائش رکھنا ضروری تھا اور ہجرت کے بعد یہاں سے جانا گناہ اور نافرمانی شمار ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی کو بیعت توڑنے کی اجازت نہ دی کیونکہ ایسا کرنے سے گناہ اور نافرمانی پر اس کا تعاون کرنا تھا۔ 2۔مدینہ طیبہ کے متعلق جو وعید آئی ہے اس شخص کے لیے ہےجو بے رغبتی کرتے ہوئے یہاں سے خروج کرے البتہ کسی عظیم مقصد کے لیے مدینے سے باہر جا کر رہائش پذیر ہونا جائز ہے جیسا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دین اسلام کی نشرواشاعت کے لیے مدینہ طیبہ سے نکل کر دوسرے ملکوں میں پھیل گئے۔ وہ یقیناً اس وعید کی زد میں نہیں آئے۔ (فتح الباري:247/13)
اعراب سے مراد وہ لوگ ہیں جو دیہاتوں میں رہائش پذیر ہوں۔ صرف ضروری کام کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہوں۔ اپنا کام کر کے واپس دیہات میں چلے جاتےہوں۔ ان سے اسلام اور جہاد میں ثابت قدمی کی بیعت ہوتی تھی۔
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، پھر اسے بخار ہوگیا تو اس نے کہا: میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ یعنی فسخ کر دیں۔ آپ ﷺ نے انکار کر دیا۔ وہ پھر آیا اور کہا: میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی انکار کر دیا۔ آخر وہ خود ہی (مدینہ طیبہ سے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ طیبہ بھٹی کی طرح ہے، یہ میل کچیل دور کر دیتا ہے اور خالص کو رکھ لیتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے لیے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنا اور اس میں رہائش رکھنا ضروری تھا اور ہجرت کے بعد یہاں سے جانا گناہ اور نافرمانی شمار ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی کو بیعت توڑنے کی اجازت نہ دی کیونکہ ایسا کرنے سے گناہ اور نافرمانی پر اس کا تعاون کرنا تھا۔ 2۔مدینہ طیبہ کے متعلق جو وعید آئی ہے اس شخص کے لیے ہےجو بے رغبتی کرتے ہوئے یہاں سے خروج کرے البتہ کسی عظیم مقصد کے لیے مدینے سے باہر جا کر رہائش پذیر ہونا جائز ہے جیسا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دین اسلام کی نشرواشاعت کے لیے مدینہ طیبہ سے نکل کر دوسرے ملکوں میں پھیل گئے۔ وہ یقیناً اس وعید کی زد میں نہیں آئے۔ (فتح الباري:247/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے محمد بن منکدر نے‘ ان سے جابر بن عبد اللہ ؓ نے کہ ایک دیہاتی نے نبی کریم ﷺ سے اسلام پر بیعت کی پھر اسے بخار ہو گیا تو اس نے کہا کہ میری بیعت فسخ کردیجئے آنحضرت ﷺ نے انکار کیا پھر وہ آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بیعت فسخ کر دیجئے آنحضرت ﷺ نے انکار کیا آخر وہ (خود ہی مدینہ سے) چلا گیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ بھٹی کی طرح ہے اپنی میل کچیل دور کردیتا ہے اور صاف مال کو رکھ لیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
بیعت فسخ کرانے کی درخواست دینا نا پسنددیدہ فعل ہے۔ مدینہ منورہ کی خاص فضیلت بھی اس سے ثابت ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA) : A bedouin gave the Pledge of allegiance to Allah's Apostle (ﷺ) for Islam and the bedouin got a fever where upon he said to the Prophet (ﷺ) "Cancel my Pledge." But the Prophet (ﷺ) refused. He came to him (again) saying, "Cancel my Pledge.' But the Prophet (ﷺ) refused. Then (the bedouin) left (Medina). Allah's Apostle (ﷺ) said: "Medina is like a pair of bellows (furnace): It expels its impurities and brightens and clears its good."