باب : ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کرجائے تو کیسا ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The appointment of a caliph)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7217.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ کہا: ہائے سر پھٹا جا رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم مرجاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت مانگوں گا اور دعائے خیر کروں گا۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: افسوس! آپ تو میری موت کے طالب ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو آپ دن کی آخری حصےمیں ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے۔ نبی ﷺنے فرمایا: ایس نہیں بلکہ میں تو اپنے سر درد کا اظہار کرتا ہوں۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ میں ابو بکر اور اس کے بیٹے کو بلاؤں اور انہیں خلیفہ بنا دوں تاکہ کسی دعویٰ کرنے والے یا س کی خواہش رکھنے والے کے لیے گنجائش باقی نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود کسی دوسرے کی خلافت کا انکار کرے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے۔۔۔۔۔یا فرمایا۔۔۔۔ اللہ دفع کرے گا اورمسلمان کسی اور کو خلیفہ نہیں بننے دین گے۔
تشریح:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض وفات میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: ’’تم اپنے والد اور اپنے بھائی کو بلالو تاکہ میں خلافت کے متعلق تحریر لکھ دوں۔ اس حدیث کے آخر میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے علاوہ کوئی دوسرا خلیفہ منظور نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6181(2387) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت ارادہ الٰہی اور چاہت نبوی کے عین مطابق تھی، اب جو لوگ ایسے پاکباز خلیفہ کو غاصب اور ظالم خیال کرتے ہوں وہ انتہائی خطرناک مقام پر کھڑے ہیں، نیز خلافت کے لیے نامزدگی میں کوئی حرج نہیں، حالات اگراجازت دیں تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔
اسلام میں انتخاب امیر کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے ۔حالات کے پیش نظر خلیفہ اپنی موت کے وقت خلافت کے لیے کسی شخص کو نامزد کرسکتا ہے اور ایک جماعت بھی تشکیل دے سکتا ہے جو اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرلیں۔الغرض دینی مقاصد اور شرعی احکام وحدود کا لحاظ کرتے ہوئے حالات کے مطابق کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ کہا: ہائے سر پھٹا جا رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم مرجاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت مانگوں گا اور دعائے خیر کروں گا۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: افسوس! آپ تو میری موت کے طالب ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو آپ دن کی آخری حصےمیں ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے۔ نبی ﷺنے فرمایا: ایس نہیں بلکہ میں تو اپنے سر درد کا اظہار کرتا ہوں۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ میں ابو بکر اور اس کے بیٹے کو بلاؤں اور انہیں خلیفہ بنا دوں تاکہ کسی دعویٰ کرنے والے یا س کی خواہش رکھنے والے کے لیے گنجائش باقی نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود کسی دوسرے کی خلافت کا انکار کرے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے۔۔۔۔۔یا فرمایا۔۔۔۔ اللہ دفع کرے گا اورمسلمان کسی اور کو خلیفہ نہیں بننے دین گے۔
حدیث حاشیہ:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض وفات میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: ’’تم اپنے والد اور اپنے بھائی کو بلالو تاکہ میں خلافت کے متعلق تحریر لکھ دوں۔ اس حدیث کے آخر میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے علاوہ کوئی دوسرا خلیفہ منظور نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6181(2387) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت ارادہ الٰہی اور چاہت نبوی کے عین مطابق تھی، اب جو لوگ ایسے پاکباز خلیفہ کو غاصب اور ظالم خیال کرتے ہوں وہ انتہائی خطرناک مقام پر کھڑے ہیں، نیز خلافت کے لیے نامزدگی میں کوئی حرج نہیں، حالات اگراجازت دیں تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبر دی‘ انہیں یحییٰ بن سعید نے‘ کہامیں نے قاسم بن محمد سے سنا کہ عائشہ ؓ نے کہا (اپنے سردرد پر) ہائے سر پھٹا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا‘ اگر تم مر جاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت کروںگا اور تمہارے لیے دعا کروں گا۔ عائشہ ؓ نے اس پر کہا افسوس میرا خیال ہے کہ آپ میری موت چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ دن کے آخری وقت ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو نہیں بلکہ میں اپنا سر دکھنے کا اظہار کرتا ہوں۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ ابو بکر اور انکے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں (ابو بکر کو) خلیفہ بنا دوں تا کہ اس پر کسی دعویٰ کرنے والے یا اسکی خواہش رکھنے والے کے لئے کوئی گنجائش نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود (کسی دوسرے کو خلیفہ) نہیں ہونے دے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے۔ یا (آپ نے اس طرح فرمایا کہ) اللہ دفع کرے گا اور مسلمان کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دیں گے۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ نے مرض موت میں فرمایا عائشہ! اپنے باپ اور بھائی کو بلا لو تاکہ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت لکھ جاؤں۔ اس کے آخر میں بھی یہ ہے کہ اللہ پاک اور مسلمان لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کی خلافت نہیں مانیں گے۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ارادہ الٰہی اور مرضی نبوی کے موافق تھی۔ اب جو لوگ ایسے پاک نفس خلیفہ کو غاصب اور ظالم جانتے ہیں وہ خود ناپاک اور پلید ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Qasim bin Muhammad (RA) : 'Aisha (RA) said, "O my head!" Allah's Apostle (ﷺ) said, "If that (i.e., your death) should happen while I am still alive, I would ask Allah to forgive you and would invoke Allah for you." 'Aisha (RA) said, "O my life which is going to be lost! By Allah, I think that you wish for my death, and if that should happen then you would be busy enjoying the company of one of your wives in the last part of that day." The Prophet (ﷺ) said, "But I should say, 'O my head!' I feel like calling Abu Bakr (RA) and his son and appoint (the former as my successors lest people should say something or wish for something. Allah will insist (on Abu Bakr (RA) becoming a Caliph) and the believers will prevent (anyone else from claiming the Caliphate)," or "..Allah will prevent (anyone else from claiming the Caliphate) and the believers will insist (on Abu Bakr (RA) becoming the Caliph)."