باب : ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کرجائے تو کیسا ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: The appointment of a caliph)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7220.
سیدنا جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس ایک خاتون آئی اور کسی معاملے کے متعلق آپ سے گفتگو کی۔ آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ وہ دوبارہ آئے، اس نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو کیا کروں؟ اس کا اشارہ آپ کی وفات کی طرف تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس چلی آنا۔“
تشریح:
1۔یہ حدیث اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت برحق تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوں گے، لیکن اس حدیث میں صراحت نہیں بلکہ واضح اشارہ ہے۔ (فتح الباري: 407/13) ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دیہاتی نے بیعت کی اور اس نے پوچھا: اگر آپ کی وفات ہوجائے تو میں کس کے پاس آؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوبکرکے پاس آنا۔‘‘ اس نے پوچھا: اگر وہ بھی فوت ہوجائیں تو؟ آپ نے فرمایا: ’‘پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلے آنا۔‘‘ اس سے بھی ترتیب خلافت معلوم ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 31/7)
اسلام میں انتخاب امیر کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے ۔حالات کے پیش نظر خلیفہ اپنی موت کے وقت خلافت کے لیے کسی شخص کو نامزد کرسکتا ہے اور ایک جماعت بھی تشکیل دے سکتا ہے جو اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرلیں۔الغرض دینی مقاصد اور شرعی احکام وحدود کا لحاظ کرتے ہوئے حالات کے مطابق کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔
سیدنا جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس ایک خاتون آئی اور کسی معاملے کے متعلق آپ سے گفتگو کی۔ آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ وہ دوبارہ آئے، اس نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو کیا کروں؟ اس کا اشارہ آپ کی وفات کی طرف تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس چلی آنا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔یہ حدیث اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت برحق تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوں گے، لیکن اس حدیث میں صراحت نہیں بلکہ واضح اشارہ ہے۔ (فتح الباري: 407/13) ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دیہاتی نے بیعت کی اور اس نے پوچھا: اگر آپ کی وفات ہوجائے تو میں کس کے پاس آؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوبکرکے پاس آنا۔‘‘ اس نے پوچھا: اگر وہ بھی فوت ہوجائیں تو؟ آپ نے فرمایا: ’‘پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلے آنا۔‘‘ اس سے بھی ترتیب خلافت معلوم ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 31/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد العزیز بن عبد اللہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے ان کے والد نے‘ ان سے محمد جبیر بن مطعم نے‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک خاتون آئیں اور کسی معاملہ میں آپ سے گفتگو کی‘ پھر آنحضرت ﷺ نے ان سے کہا کہ وہ دوبارہ آپ کے پاس آئیں۔ انہوں نے عرض کیا یا رسو ل اللہ! اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو پھر آپ کیا فرماتے ہیں؟ جیسے ان کا اشارہ وفات کی طرف ہو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر ؓ کے پاس آئیو۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث صاف دلیل ہے اس بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں گے۔ دوسری روایت میں جسے طبرانی اور اسماعیلی نے نکالا یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گنوار نے بیعت کی‘ پوچھا اگر آپ کی وفات ہو جائے تو کس کے پاس آؤں؟ آپ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔ پوچھا اگر وہ بھی گزر جائیں؟ فرما یا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس۔ تربیت خلافت کا یہ کھلا ثبوت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jubair bin Mut'im (RA) : A woman came to the Prophet (ﷺ) and spoke to him about something and he told her to return to him. She said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! If I come and do not find you?" (As if she meant, "...if you die?") The Prophet (ﷺ) said, "If you should not find me, then go to Abu Bakr."