مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ” اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو میں اسے بھی خیرات کردیتا
7228.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اگر میرے پاس اُحد جتنا سونا ہوتا تو میں پسند کرتا کہ اگر لینے والے مل جائیں تو تین دن گزرنے سے پہلے پہ میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی نہ بچے، سوائے اس کے جسے میں اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے روک لوں۔“
تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اسے فی سبیل اللہ خرچ کردوں اور میرے پاس اس میں سے کچھ نہ بچے۔‘‘ (صحیح البخاري۔ الاستقراض، حدیث: 2369) حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُحد پہاڑ کو دیکھا تو فرمایا: ’’کاش! میرے پاس اس پہاڑ کے برابر سونا ہوتو میں ایک یاتین راتیں گزرنے سے پہلے پہلے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح خرچ کردوں، آپ نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ فرمایا۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6444) 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ الفاظ میں ایسے عنوان بیان کرتے ہیں جن سے روایت کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔ اس عنوان میں بھی انھوں نے یہی انداز اختیار کیاہے۔ (فتح الباري: 268/13)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح کا ایک عنوان کتاب الرقاق(باب:14) میں بھی قائم کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:(باب قول النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-مَا يَسُرُّنِي أَنَّ عِنْدِي مِثْلَ أُحُدٍ هَذَا ذَهَبًا)"مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے پاس اُحد پہاڑ جتنا سونا ہو۔"وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے بے رغبتی کو ثابت کیا ہے لیکن اس مقام پر نیک خواہش اور بہتر آرزو کوثابت کرنا مقصود ہے۔
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ” اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو میں اسے بھی خیرات کردیتا
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اگر میرے پاس اُحد جتنا سونا ہوتا تو میں پسند کرتا کہ اگر لینے والے مل جائیں تو تین دن گزرنے سے پہلے پہ میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی نہ بچے، سوائے اس کے جسے میں اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے روک لوں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اسے فی سبیل اللہ خرچ کردوں اور میرے پاس اس میں سے کچھ نہ بچے۔‘‘ (صحیح البخاري۔ الاستقراض، حدیث: 2369) حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُحد پہاڑ کو دیکھا تو فرمایا: ’’کاش! میرے پاس اس پہاڑ کے برابر سونا ہوتو میں ایک یاتین راتیں گزرنے سے پہلے پہلے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح خرچ کردوں، آپ نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ فرمایا۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6444) 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ الفاظ میں ایسے عنوان بیان کرتے ہیں جن سے روایت کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔ اس عنوان میں بھی انھوں نے یہی انداز اختیار کیاہے۔ (فتح الباري: 268/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا‘ ان سے معمر نے‘ ان سے ہمام بن منبہ نے‘ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو میں پسند کرتا کہ اگر ان کے لینے والے مل جائیں تو تین دن گزرنے سے پہلے ہی میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی نہ بچے‘ سوا اس کے جسے میں اپنے اوپر قرض کی ادائیگی کے لیے روک لوں۔
حدیث حاشیہ:
بس اصل درویشی یہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی کہ کل کے لیے کچھ نہ رکھ چھوڑے‘ جو روپیہ یا مال متاع آئے وہ غرباء اور مستحقین کو فوراً تقسیم کردے۔ اگر کوئی شخص خزانہ اپنے لیے جمع کرے اور تین دن سے زیادہ روپیہ پیسہ اپنے پاس رکھ چھوڑے تو اس کو درویش نہ کہیں گے بلکہ دینار دار کہیں گے۔ ایک بزرگ کے پاس روپیہ آیا‘ انہوں نے پہلے چالیسواں حصہ اس میں سے زکوٰۃ کا نکالا پھر باقی 39 حصے بھی تقسیم کر دیے اور کہنے لگے میں نے زکوٰۃ کا ثواب حاصل کرنے کے لیے پہلے چالیسواں حصہ نکالا اگر سب ایکبار گی خیرات کردیتا تو اس فرض کے ثواب سے محروم رہتا۔ حیدر آباد میں بہت سے مشائخ اور درویش ایسے نظر آتے ہیں کہ دنیار اور ان سے بمراتب بہتر ہیں۔ افسوس انکو اپنے تئیں درویش کہتے ہوئے شرم نہیں آتی وہ تو ساہو کاروں کی طرح مال ودولت اکٹھا کرتے ہیں ان کو مہاجن یا سا ہوا کار کا لقب دینا چاہیے نہ کہ شاہ اور فقیر کا۔ (وحید ی)إلاماشاءاللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "If I had gold equal to the mountain of Uhud, I would love that, before three days had passed, not a single Dinar thereof remained with me if I found somebody to accept it excluding some amount that I would keep for the payment of my debts.''