باب : آنحضرت ﷺ کا یوں فرمانا کہ کاش ایسا اور ایسا ہوتا
)
Sahi-Bukhari:
Wishes
(Chapter: “Would that so-and-so…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7231.
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبیﷺ کو ایک رات نیند نہ آئی تو آپ نے فرمایا: ’’کاش! میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرے ہاں پہرہ دے۔‘‘ اس دوران میں اچانک ہم نے ہتھیاروں کی چھنکار سنی۔ آپﷺ نے پوچھا:’’کون صاحب ہیں؟‘‘ کہا گیا: اللہ کے رسول! میں سعد بن ابی وقاص ہوں۔ آپ کی حفاظت کے لیے حاضر ہوا ہوں، پھر نبیﷺ سو گئے حتیٰ کہ ہم نے آپ کے خراٹے بھرنے کی آواز سنی۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: بلالؓ (جب نئے نئے مدینہ طیبہ آئے تو بخار کی حالت میں انہوں) نے کہا: کاش! میں ایسے میدان میں رات گزاروں جہاں میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے نبیﷺ کو اس امر کی خبر دی۔
تشریح:
1۔مدینہ طیبہ میں دشمنانِ اسلام کا ہر طرف ہجوم تھا، اس لیے حفاظت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دیا جاتا تھا کہ کوئی دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچائے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے پہرا دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’اور اللہ تعالیٰ آپ کولوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔‘‘ (المآئدة: 5/67) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تقریباً سترہ مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس آیت کے نزول کے بعد پہرا اٹھا دیا گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نبوت 23 سال ہے، ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں، باقی بیس سال کے عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سترہ بار قاتلانہ حملے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینے کی سازشیں تیار ہوئیں، ان میں سے 9 حملے تو قریش مکہ کی طرف سے ہوئے تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے، ایک منافقین سے اور ایک شاہ ایران خسرو پرویز سے اورغالباً اس دنیا میں کسی بھی دوسرے شخص پر اتنی بار قاتلانہ حملے نہیں ہوئے اور ہر باراللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کرکے یا مدد کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں سے بچا کر اپنا وعدہ پورا کردیا۔ 2۔روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ بدر، غزوہ اُحد، غزوہ خندق، خیبر سے واپسی کے وقت، وادی قریٰ، عمرہ قضا اور غزوہ حنین میں باقاعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دیا گیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت غزوہ حنین کے بعد نازل ہوئی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دینے والوں میں سے تھے۔ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو پہراختم کردیا گیا اورحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ہیں۔ (فتح الباري: 270/13) 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ حرف لَيْتَ تمنی ہے۔ اس کا تعلق اکثر وبیشتر ناممکنات میں سے ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار ممکنات کے لیے بھی استعمال ہوتاہے، چنانچہ مذکورہ احادیث میں پہرا دینا اورمخصوص وادی میں رات گزارنا ممکنات میں سے ہے۔ مؤخر الذکر کی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمنا کی تھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہرے سے متعلق تمنا پوری کردی گئی تھی۔ (فتح الباري: 269/13)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبیﷺ کو ایک رات نیند نہ آئی تو آپ نے فرمایا: ’’کاش! میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرے ہاں پہرہ دے۔‘‘ اس دوران میں اچانک ہم نے ہتھیاروں کی چھنکار سنی۔ آپﷺ نے پوچھا:’’کون صاحب ہیں؟‘‘ کہا گیا: اللہ کے رسول! میں سعد بن ابی وقاص ہوں۔ آپ کی حفاظت کے لیے حاضر ہوا ہوں، پھر نبیﷺ سو گئے حتیٰ کہ ہم نے آپ کے خراٹے بھرنے کی آواز سنی۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: بلالؓ (جب نئے نئے مدینہ طیبہ آئے تو بخار کی حالت میں انہوں) نے کہا: کاش! میں ایسے میدان میں رات گزاروں جہاں میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے نبیﷺ کو اس امر کی خبر دی۔
حدیث حاشیہ:
1۔مدینہ طیبہ میں دشمنانِ اسلام کا ہر طرف ہجوم تھا، اس لیے حفاظت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دیا جاتا تھا کہ کوئی دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچائے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے پہرا دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’اور اللہ تعالیٰ آپ کولوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔‘‘ (المآئدة: 5/67) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تقریباً سترہ مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس آیت کے نزول کے بعد پہرا اٹھا دیا گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نبوت 23 سال ہے، ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں، باقی بیس سال کے عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سترہ بار قاتلانہ حملے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینے کی سازشیں تیار ہوئیں، ان میں سے 9 حملے تو قریش مکہ کی طرف سے ہوئے تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے، ایک منافقین سے اور ایک شاہ ایران خسرو پرویز سے اورغالباً اس دنیا میں کسی بھی دوسرے شخص پر اتنی بار قاتلانہ حملے نہیں ہوئے اور ہر باراللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کرکے یا مدد کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں سے بچا کر اپنا وعدہ پورا کردیا۔ 2۔روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ بدر، غزوہ اُحد، غزوہ خندق، خیبر سے واپسی کے وقت، وادی قریٰ، عمرہ قضا اور غزوہ حنین میں باقاعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دیا گیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت غزوہ حنین کے بعد نازل ہوئی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دینے والوں میں سے تھے۔ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو پہراختم کردیا گیا اورحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ہیں۔ (فتح الباري: 270/13) 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ حرف لَيْتَ تمنی ہے۔ اس کا تعلق اکثر وبیشتر ناممکنات میں سے ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار ممکنات کے لیے بھی استعمال ہوتاہے، چنانچہ مذکورہ احادیث میں پہرا دینا اورمخصوص وادی میں رات گزارنا ممکنات میں سے ہے۔ مؤخر الذکر کی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمنا کی تھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہرے سے متعلق تمنا پوری کردی گئی تھی۔ (فتح الباري: 269/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ سے سنا کہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک رات بنی کریم ﷺ کو نیند نہ آئی‘ پھر آپ نے فرمایا‘ کاش میرے صحابہ میں سے کوئی نیک مرد میرے لیے آج رات پہرہ دیتا۔ اتنے میں ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ بتایا گیا کہ سعد بن ابی وقاص ؓ ہیں یا رسول اللہ! (انہوں نے کہا) میں آپ ﷺ کے لئے پہرہ دینے آیا ہوں‘ پھر آنحضرت ﷺ سوئے یہاں تک کہ ہم نے آپکے خراٹے کی آواز سنی۔ ابو عبد اللہ امام بخاری نے بیان کیا کہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ بلال ؓ جب نئے نئے مدینہ آئے تو بحالت بخار حیرانی میں یہ شعر پڑھتے تھے۔ ”کاش میں جانتا کہ میں ایک رات اس وادی میں گزار سکوں گا (وادی میں) اور میرے چاروں طرف اذخر اور جیل گھاس ہوگی۔“ پھر میں نے نبی ﷺ سے اسکی خبر کی۔
حدیث حاشیہ:
مولانا وحید الزماں نے اس شعر کا ترجمہ شعر میں کیوں کیا ہے کاش میں مکہ کی پاؤں ایک رات گرد میرے ہوں جلیل اذ خر نبات یہ پہرہ کا ذکر مدینہ میں شروع شروع آتے وقت کا ہے کیونکہ دشمنوں کا ہر طرف ہجوم تھا۔ آپ کی دعا سعد رضی اللہ عنہ کے حق میں قبول ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA) : One night the Prophet (ﷺ) was unable to sleep and said, "Would that a righteous man from my companions guarded me tonight." Suddenly we heard the clatter of arms, whereupon the Prophet (ﷺ) said, "Who is it?" It was said, "I am Sa'd, O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have come to guard you." The Prophet (ﷺ) then slept so soundly that we heard him snoring. Abu 'Abdullah said: 'Aisha (RA) said: Bilal (RA) said, "Would that I but stayed overnight in a valley with Idhkhir and Jalil (two kinds of grass) around me (i.e., in Makkah)." Then I told that to the Prophet (ﷺ) .