Sahi-Bukhari:
Wishes
(Chapter: What uses of Al-Lau are allowed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اوراللہ تعالیٰ کاارشاد” اگر مجھے تمہارامقابلہ کرنے کی قوت ہوتی“ تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر اس طرف اشارہ کیا کہ مسلم نے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اگر مگر کہنا شیطان کا کام کھولتا ہے اور نسائی نے جو روایت کی جب تجھ پر کوئی بلا آئے تو یوں نہ کہہ اگر میں ایسا کرتا اگر ہوں ہوتا بلکہ یوں کہہ اللہ کی تقدیر میں یوں ہی تھا ۔ اس نے جو چاہا وہ کیا تو ان روایتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مگر کہنا مطلقاً منع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ اور رسول کے کلام میں اگر کا لفظ کیوں آتا ۔ بلکہ ان روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تدبیر پر نازاں ہو کر اور اللہ کی مشیت سے غافل ہو کر اگر مگر کہنا منع ہے ۔ آیت کے الفاظ حضرت ابو لوط علیہ السلام کے ہیں جو انہوں نے قوم کی فرشتوں کے ساتھ گستاخی دیکھ کر کہے تھے ۔
7239.
سیدنا عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک رات ایسا ہوا کہ نبی ﷺ نے نماز عشاء میں دیر کی تو سیدنا عمر ؓ نکلے اور کہا: اللہ کے رسول! نماز پڑھائیں، اب تو عورتیں اور بچے سونے لگے ہیں۔ اس وقت آپ حجرے سے برآمد ہوئے اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، فرمانے لگے: ”اگر میری امت پر۔۔۔۔یا فرمایا: لوگوں پر۔۔۔۔۔ مشکل نہ ہوتی تو میں اس وقت انہیں یہ نماز پڑھنے کا حکم دیتا۔“ ایک روایت میں سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے نماز عشاء میں دیر کی تو سیدنا عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! عورتیں اور بچے سوگئے ہیں۔ (یہ سن کر) آپ باہر تشریف لائے جبکہ آپ اپنی ایک جانب سے پانی صاف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”اگر میں اپنی امت پر مشکل نہ سمجھتا تو اس نماز کا عمدہ وقت یہی ہے۔“ عمرو بن دینار نے کہا: ہم سے عطاء نے بیان کیا، اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں بہرحال عمرو نے کہا: آپ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا لیکن ابن جریج نے کہا: آپ اپنی ایک جانب سے پانی صاف کر رہے تھے۔۔ عمرو نے کہا کہ آپ نے فرمایا: ”اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا۔“ ابن جریج نے کہا کہ آپ نے فرمایا: ”اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو اس نماز کا افضل وقت یہی ہے۔“ ابراہیم بن منذر نے کہا: ہم سے معن نے بیان کیا محمد بن، مسلم سے انہوں نے عمرو بن دینار سے انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔
بعض روایات میں"اگرمگر" کے الفاظ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ یہ حکم امتناعی علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے غافل اور اپنی قوت وتدبیر پر فخر کرتے ہوئے اگر مگر کہنا منع ہے۔آیت کے الفاظ حضرت لوط علیہ السلام نے اس وقت کہے تھے جب ان کی قوم فرشتوں سے بدتمیزی اور گستاخی پر اترآئی تھی۔
اوراللہ تعالیٰ کاارشاد” اگر مجھے تمہارامقابلہ کرنے کی قوت ہوتی“ تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر اس طرف اشارہ کیا کہ مسلم نے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اگر مگر کہنا شیطان کا کام کھولتا ہے اور نسائی نے جو روایت کی جب تجھ پر کوئی بلا آئے تو یوں نہ کہہ اگر میں ایسا کرتا اگر ہوں ہوتا بلکہ یوں کہہ اللہ کی تقدیر میں یوں ہی تھا ۔ اس نے جو چاہا وہ کیا تو ان روایتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مگر کہنا مطلقاً منع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ اور رسول کے کلام میں اگر کا لفظ کیوں آتا ۔ بلکہ ان روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تدبیر پر نازاں ہو کر اور اللہ کی مشیت سے غافل ہو کر اگر مگر کہنا منع ہے ۔ آیت کے الفاظ حضرت ابو لوط علیہ السلام کے ہیں جو انہوں نے قوم کی فرشتوں کے ساتھ گستاخی دیکھ کر کہے تھے ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک رات ایسا ہوا کہ نبی ﷺ نے نماز عشاء میں دیر کی تو سیدنا عمر ؓ نکلے اور کہا: اللہ کے رسول! نماز پڑھائیں، اب تو عورتیں اور بچے سونے لگے ہیں۔ اس وقت آپ حجرے سے برآمد ہوئے اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، فرمانے لگے: ”اگر میری امت پر۔۔۔۔یا فرمایا: لوگوں پر۔۔۔۔۔ مشکل نہ ہوتی تو میں اس وقت انہیں یہ نماز پڑھنے کا حکم دیتا۔“ ایک روایت میں سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے نماز عشاء میں دیر کی تو سیدنا عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! عورتیں اور بچے سوگئے ہیں۔ (یہ سن کر) آپ باہر تشریف لائے جبکہ آپ اپنی ایک جانب سے پانی صاف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”اگر میں اپنی امت پر مشکل نہ سمجھتا تو اس نماز کا عمدہ وقت یہی ہے۔“ عمرو بن دینار نے کہا: ہم سے عطاء نے بیان کیا، اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں بہرحال عمرو نے کہا: آپ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا لیکن ابن جریج نے کہا: آپ اپنی ایک جانب سے پانی صاف کر رہے تھے۔۔ عمرو نے کہا کہ آپ نے فرمایا: ”اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا۔“ ابن جریج نے کہا کہ آپ نے فرمایا: ”اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو اس نماز کا افضل وقت یہی ہے۔“ ابراہیم بن منذر نے کہا: ہم سے معن نے بیان کیا محمد بن، مسلم سے انہوں نے عمرو بن دینار سے انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (سیدنا لوط ؑ نے کہا:) کاش! میرے پاس تمہارا مقابلہ کرنے کی کچھ طاقت ہوتی۔¤
وضاحت : بعض روایات میں ”اگر مگر“ کے الفاظ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ ممانعت کا یہ حکم مطلق نہیں بلکہ اللہ کی مشیت سے غافل اور اپنی قوت وتدبیر پر فخر کرتے ہوئے اگر مگر کہنا منع ہے۔ آیت کے الفاظ سیدنا لوط علیہ السلام نے اس وقت کہے تھے جب ان کی قوم فرشتوں سے بد تمیزی اور گستاخی پر اتر آئی تھی
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہ عمر بن دینار نے کہا‘ ہم سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا‘ ایک رات ایسا ہوا آنحضرت ﷺ نے عشاء کی نماز میں دیر کی۔ آخر حضرت عمر ؓ نکلے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! نماز پڑھے عورتیں اور بچے سونے لگے۔ اس وقت آپ ﷺ (حجرے سے) بر آمد ہوئے آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا (غسل کر کے باہر تشریف لائے) فرمانے لگے اگر میری امت پر یا یوں فرمایا لوگوں پر دشوار نہ ہوتا۔ سفیان بن عیینہ نے یوں کہا میری امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں اس وت (اتنی رات گئی) ان کو یہ نماز پڑھنے کا حکم دیتا۔ اور ابن جریج نے (اسی سند سے سفیان سے‘ انہوں نے (ابن جریج سے) انہوں نے عطاء سے روایت کی‘ انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ آنحضرت ﷺ نے اس نماز (یعنی عشاء کی نماز میں دیر کی۔ حضرت عمر ؓ آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! عورتیں بچے سو گئے۔ یہ سن کر آپ باہر تشریف لائے‘ اپنے سر کی ایک جانب سے پانی پونچھ رہے تھے‘ فرما رہے تھے اس نماز کا (عمدہ) وقت یہی ہے اگر میری امت پر شاق نہ ہو۔ عمروبن دینار نے اس حدیث میں یوں نقل کیا۔ ہم سے عطاء نے بیان کیا اور ابن عباس ؓ کا ذکر نہیں کیا لیکن عمرو نے یوں کہا آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اور ابن جریج کی روایت میں یوں ہے آپ ﷺ سر کے ایک جانب سے پانی پونچھ رہے تھے۔ اور عمرو نے کہا آپ ﷺ نے فرمایا اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا۔ اور ابن جریج نے کہا آپ ﷺ نے فرمایا اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا تو اس نماز کا (افضل) وقت تو یہی ہے۔ اور ابراہیم بن منذر (امام بخاری کے شیخ) نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے محمد بن مسلم نے‘ انہوں نے عمرو بن دینار سے‘ انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے‘ انہوں نے ابن عباس ؓ سے‘ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے پھر یہی حدیث نقل کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ata: One night the Prophet (ﷺ) delayed the Isha' prayer whereupon 'Umar went to him and said, "The prayer, O Allah's Apostle (ﷺ) ! The women and children had slept." The Prophet (ﷺ) came out with water dropping from his head, and said, "Were I not afraid that it would be hard for my followers (or for the people), I would order them to pray Isha prayer at this time." (Various versions of this Hadith are given by the narrators with slight differences in expression but not in content).