Sahi-Bukhari:
Wishes
(Chapter: What uses of Al-Lau are allowed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اوراللہ تعالیٰ کاارشاد” اگر مجھے تمہارامقابلہ کرنے کی قوت ہوتی“ تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر اس طرف اشارہ کیا کہ مسلم نے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اگر مگر کہنا شیطان کا کام کھولتا ہے اور نسائی نے جو روایت کی جب تجھ پر کوئی بلا آئے تو یوں نہ کہہ اگر میں ایسا کرتا اگر ہوں ہوتا بلکہ یوں کہہ اللہ کی تقدیر میں یوں ہی تھا ۔ اس نے جو چاہا وہ کیا تو ان روایتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مگر کہنا مطلقاً منع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ اور رسول کے کلام میں اگر کا لفظ کیوں آتا ۔ بلکہ ان روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تدبیر پر نازاں ہو کر اور اللہ کی مشیت سے غافل ہو کر اگر مگر کہنا منع ہے ۔ آیت کے الفاظ حضرت ابو لوط علیہ السلام کے ہیں جو انہوں نے قوم کی فرشتوں کے ساتھ گستاخی دیکھ کر کہے تھے ۔
7243.
سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے حطیم کعبہ کے متعلق پوچھا: کیا وہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے کہا: پھر ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کیا؟ آپ نےفرمایا: ”تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔“ میں نے پوچھا: اس کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہاری قوم نے اس لیے ایسا کیا ہے تاکہ جسے چاہیں کعبہ میں داخل کریں اور جسے چاہیں منع کر دیں۔ اگر تمہاری قوم زمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتی اور مجھے ان کے دلوں کے انکار کا خطرہ نہ ہوتا تو میں حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ بھی زمین کے برابر کر دیتا۔“
تشریح:
1۔قریش نے جب بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہا تو انھوں نے عزم کیا کہ اس پر حلال کی رقم خرچ کی جائے گی تو ان کے پاس اتنامال جمع نہ ہو سکا کہ جس سے پورا بیت اللہ تعمیر ہوسکتا، اس لیے انھوں نے حطیم کوچھوڑ کر باقی بیت اللہ پر چھت ڈال دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبے کی قدر کی کہ آئندہ وہ انھی بنیادوں پر تعمیر ہوتا رہے گا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اسے تعمیر کیا تو حطیم کو اس میں شامل کر دیا اور زمین کے برابر اس کے شرقی اورغربی دروازے رکھ دیے تھے لیکن حجاج بن یوسف نے اسے مسمار کر کے دوبارہ انھی بنیادوں پر تعمیر کر دیا۔ 2۔اس حدیث میں (لَوْلا) کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
بعض روایات میں"اگرمگر" کے الفاظ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ یہ حکم امتناعی علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے غافل اور اپنی قوت وتدبیر پر فخر کرتے ہوئے اگر مگر کہنا منع ہے۔آیت کے الفاظ حضرت لوط علیہ السلام نے اس وقت کہے تھے جب ان کی قوم فرشتوں سے بدتمیزی اور گستاخی پر اترآئی تھی۔
اوراللہ تعالیٰ کاارشاد” اگر مجھے تمہارامقابلہ کرنے کی قوت ہوتی“ تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر اس طرف اشارہ کیا کہ مسلم نے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اگر مگر کہنا شیطان کا کام کھولتا ہے اور نسائی نے جو روایت کی جب تجھ پر کوئی بلا آئے تو یوں نہ کہہ اگر میں ایسا کرتا اگر ہوں ہوتا بلکہ یوں کہہ اللہ کی تقدیر میں یوں ہی تھا ۔ اس نے جو چاہا وہ کیا تو ان روایتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مگر کہنا مطلقاً منع ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ اور رسول کے کلام میں اگر کا لفظ کیوں آتا ۔ بلکہ ان روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تدبیر پر نازاں ہو کر اور اللہ کی مشیت سے غافل ہو کر اگر مگر کہنا منع ہے ۔ آیت کے الفاظ حضرت ابو لوط علیہ السلام کے ہیں جو انہوں نے قوم کی فرشتوں کے ساتھ گستاخی دیکھ کر کہے تھے ۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے حطیم کعبہ کے متعلق پوچھا: کیا وہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے کہا: پھر ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کیا؟ آپ نےفرمایا: ”تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔“ میں نے پوچھا: اس کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہاری قوم نے اس لیے ایسا کیا ہے تاکہ جسے چاہیں کعبہ میں داخل کریں اور جسے چاہیں منع کر دیں۔ اگر تمہاری قوم زمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتی اور مجھے ان کے دلوں کے انکار کا خطرہ نہ ہوتا تو میں حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ بھی زمین کے برابر کر دیتا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔قریش نے جب بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہا تو انھوں نے عزم کیا کہ اس پر حلال کی رقم خرچ کی جائے گی تو ان کے پاس اتنامال جمع نہ ہو سکا کہ جس سے پورا بیت اللہ تعمیر ہوسکتا، اس لیے انھوں نے حطیم کوچھوڑ کر باقی بیت اللہ پر چھت ڈال دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبے کی قدر کی کہ آئندہ وہ انھی بنیادوں پر تعمیر ہوتا رہے گا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اسے تعمیر کیا تو حطیم کو اس میں شامل کر دیا اور زمین کے برابر اس کے شرقی اورغربی دروازے رکھ دیے تھے لیکن حجاج بن یوسف نے اسے مسمار کر کے دوبارہ انھی بنیادوں پر تعمیر کر دیا۔ 2۔اس حدیث میں (لَوْلا) کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (سیدنا لوط ؑ نے کہا:) کاش! میرے پاس تمہارا مقابلہ کرنے کی کچھ طاقت ہوتی۔¤
وضاحت : بعض روایات میں ”اگر مگر“ کے الفاظ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ ممانعت کا یہ حکم مطلق نہیں بلکہ اللہ کی مشیت سے غافل اور اپنی قوت وتدبیر پر فخر کرتے ہوئے اگر مگر کہنا منع ہے۔ آیت کے الفاظ سیدنا لوط علیہ السلام نے اس وقت کہے تھے جب ان کی قوم فرشتوں سے بد تمیزی اور گستاخی پر اتر آئی تھی
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو الاحوص نے بیان کیا‘ کہا ہم سے اشعث نے‘ ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (خانہ کعبہ کے) حطیم کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے؟ فرمایا کہ ہاں۔ میں نے کہا‘ پھر کیوں ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل نہیں کیا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی ہوگئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ خانہ کعبہ کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے؟ فرمایا کہ یہ اس لیے انہوں نے کیا ہے تاکہ جسے چاہیں اندر داخل کریں اور جسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم (قریش) کا زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں میں اس سے انکار پیدا ہوگا تو میں حطیم کو بھی خانہ کعبہ میں شامل کر دیتا اور اس کے دروازے کو زمین کے برابر کر دیتا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں ایسا کر دیا تھا۔ شرقی اور غربی دو دروازے بنا دئیے تھے مگر حجاج بن یوسف نے ضد میں آکر اس عمارت کو تڑوا کر پہلی حالت پر کر دیا۔ آج تک اسی حالت پر ہے۔ دوسری روایت میں یوں ہے اس کے دو دروازے رکھتا ہے ایک مشرقی ایک مغربی۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سن کر جیسا منشا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اسی طرح کعبہ کو بنا دیا مگر خدا حجاج ظالم سے سمجھے اس نے کیا کیا کہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی ضد سے پھر کعبہ تڑوا کر جیسا جاہلیت کے زمانہ میں تھا ویسا ہی کر دیا اگر کعبہ میں دو دروازے رہتے تو داخلے کے وقت کیسی راحت رہتی‘ ہوا آتی اور نکلتی رہتی اب ایک ہی دروازہ اور روشن دان بھی ندارد۔ ادھر لوگوں کا ہجوم۔ داخلے کے وقت وہ تکلیف ہوتی ہے کہ معاذ اللہ اور گرمی اور حبس کے مارے نماز بھی اچھی طرح اطمینان سے نہیں پڑھی جاتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : I asked the Prophet (ﷺ) about the wall (outside the Ka’bah). "Is it regarded as part of the Ka’bah?" He replied, "Yes." I said, "Then why didn't the people include it in the Ka’bah?" He said, "(Because) your people ran short of money." I asked, "Then why is its gate so high?" He replied, ''Your people did so in order to admit to it whom they would and forbid whom they would. Were your people not still close to the period of ignorance, and were I not afraid that their hearts might deny my action, then surely I would include the wall in the Ka’bah and make its gate touch the ground."