کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: Following the Sunna of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ فرقان میں فرمانا کہ ” اے پروردگار! ہم کو پر ہیز گاروں کا پیشوا بنا دے ۔ “ مجاہد نے کہا یعنی امام بنا دے کہ ہم لوگ اگلے لوگوں صحابہ اور تابعین کی پیروی کریں اور ہمارے بعد لو لوگ آئیں وہ ہماری پیروی کریں اور عبد اللہ بن عون نے کہا تین باتیں ایسی ہیں جن کو میں خاص اپنے لیے اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے پسند کرتا ہوں ‘ ایک تو علم حدیث ۔ مسلمانوں کو اسے ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ دوسرے قرآن مجید ‘ اسے سمجھ کر پڑھیں اور لوگوں سے قرآن کے مطالب کی تحقیق کرتے رہیں ۔ تیسرے یہ کہ مسلمانوں کا ذکر ہمیشہ خیر وبھلائی کے ساتھ کیا کریں ‘ کسی کی برائی کا ذکر نہ کریں ۔
7286.
سیدنا ابن عباس سے روایت ہے انہوں نے کہا: عیینہ بن حصن کے ہاں قیام کیا۔۔۔ سیدنا حربن قیس ان لوگوں میں سے تھے جنہیں سیدنا عمر ؓ اپنے قریب رکھتے تھے۔ قرآن کریم کے علماء خواہ بوڑھے ہوں یا جوان سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی مجلس مشاورت میں شریک ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔پھر عیینہ نے اپنے بھتیجے حر سے کہا: اے میرے بھتیجے! کیا تمہیں امیر المومنین کے ہاں کچھ اثر ورسوخ حاصل ہے کہ تم میرے لیے ان کے پاس حاضری کی اجازت لے دو؟ انہوں نے کہا: میں آپ کے لیے اجازت مانگوں گا سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا: سیدنا حر نے عیینہ کے لیے اجازت حاصل کی۔ جب وہ مجلس میں داخل ہوئے تو کہا: اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! تم ہمیں زیادہ عطیہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان عدل وانصاف سے فیصلے ہی کرتے ہو۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ غصے سے بھر گئے یہاں تک کہ آپ نے اسے (سخت) سزا دینے کا ارادہ کرلیا۔ تو سیدنا حرنے کہا: اے امیرالمومنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے: درگزر اختیار کریں، بھلائی کا حکم دیں اور جاہلوں سے اعراض کریں۔ یہ شخص بھی جاہلوں میں ہے۔ اللہ کی قسم! جس وقت سیدنا حر نے یہ آیت تلاوت کی تو سیدنا عمر ؓ ٹھنڈے ہوگئے اور آپ کی یہ عادت مبارک تھی کہ اللہ کی کتاب پر فوراً عمل کرتے تھے۔
تشریح:
1۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے پاس وقاف تھے، یعنی کتاب اللہ کے احکام پر فوراً عمل کیا کرتے تھے اور جو اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے والا ہو وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی اقتدا کرتا ہے۔ 2۔اس حدیث سے علم اور اہل علم کی قدردانی کا پتا چلتا ہے کہ یہ اس وقت ہوتی ہے جب بادشاہ اور حکمران ان سے مشاورت کریں اور انھیں اپنے ہاں جگہ دیں۔ امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشیر بھی علماء قراء اور نیک سیرت عبادت گزار بوڑھے اور نوجوان تھے۔ علم ہی ایک ایسی چیزہے جو بوڑھوں اور جوانوں میں افضلیت پیدا کرتی ہے۔ 3۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس کے وقت کوئی دربان نہیں ہوتا تھا۔ ان کی مجلس میں داخل ہونے کے لیے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی، البتہ جب تنہا ہوتے اور آرام کا وقت ہوتا تو اس وقت ان کے پاس جانے کے لیے اجازت لینی پڑتی تھی، اس لیے عیینہ کو تنہائی میں آپ سے ملاقات کے لیے اجازت لینی پڑی لیکن اس نے آداب واحترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آتے ہی ’’اے خطاب کے بیٹے!‘‘ سے بات شروع کی۔ یہ اس کی قساوت قلبی (سخت دلی) اوربڑوں کے مقام ومرتبے سے عدم معرفت تھی۔ اگر اسے علم ہوتا تو ایسی گستاخی اور بدتمیزی نہ کرتا اور بے ادبی کی بات منہ سے نہ نکالتا۔ حضرت حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرمداخلت نہ کرتے تو اسے ایسی سزا ملتی کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا۔ 4۔بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کی اہمیت وافادیت کو ثابت کیا ہے جو اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7013
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7286
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7286
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7286
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن آپ کے اقوال وافعال ہیں۔اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن کی اقتدا کریں اور جو انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں معتوب اور گمراہ ہے اور اس کے متعلق سخت وعید سنائی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:"جو لوگ اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائیں یا انھیں کوئی المناک عذاب آپہنچے۔"(النور 24/63) جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے گا وہی بعد میں آنے والے لوگوں کا امام ہوگا۔ابن عون رحمۃ اللہ علیہ نے جن تین خصلتوں کاذکرکیا ہے ان میں اعتصام بالکتاب والسنۃ ہی کی تلقین کی ہے کہ پہلے انھیں سمجھا جائے،پھر ان پر عمل کیاجائے۔واللہ اعلم۔
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ فرقان میں فرمانا کہ ” اے پروردگار! ہم کو پر ہیز گاروں کا پیشوا بنا دے ۔ “ مجاہد نے کہا یعنی امام بنا دے کہ ہم لوگ اگلے لوگوں صحابہ اور تابعین کی پیروی کریں اور ہمارے بعد لو لوگ آئیں وہ ہماری پیروی کریں اور عبد اللہ بن عون نے کہا تین باتیں ایسی ہیں جن کو میں خاص اپنے لیے اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے پسند کرتا ہوں ‘ ایک تو علم حدیث ۔ مسلمانوں کو اسے ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ دوسرے قرآن مجید ‘ اسے سمجھ کر پڑھیں اور لوگوں سے قرآن کے مطالب کی تحقیق کرتے رہیں ۔ تیسرے یہ کہ مسلمانوں کا ذکر ہمیشہ خیر وبھلائی کے ساتھ کیا کریں ‘ کسی کی برائی کا ذکر نہ کریں ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عباس سے روایت ہے انہوں نے کہا: عیینہ بن حصن کے ہاں قیام کیا۔۔۔ سیدنا حربن قیس ان لوگوں میں سے تھے جنہیں سیدنا عمر ؓ اپنے قریب رکھتے تھے۔ قرآن کریم کے علماء خواہ بوڑھے ہوں یا جوان سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی مجلس مشاورت میں شریک ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔پھر عیینہ نے اپنے بھتیجے حر سے کہا: اے میرے بھتیجے! کیا تمہیں امیر المومنین کے ہاں کچھ اثر ورسوخ حاصل ہے کہ تم میرے لیے ان کے پاس حاضری کی اجازت لے دو؟ انہوں نے کہا: میں آپ کے لیے اجازت مانگوں گا سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا: سیدنا حر نے عیینہ کے لیے اجازت حاصل کی۔ جب وہ مجلس میں داخل ہوئے تو کہا: اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! تم ہمیں زیادہ عطیہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان عدل وانصاف سے فیصلے ہی کرتے ہو۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ غصے سے بھر گئے یہاں تک کہ آپ نے اسے (سخت) سزا دینے کا ارادہ کرلیا۔ تو سیدنا حرنے کہا: اے امیرالمومنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے: درگزر اختیار کریں، بھلائی کا حکم دیں اور جاہلوں سے اعراض کریں۔ یہ شخص بھی جاہلوں میں ہے۔ اللہ کی قسم! جس وقت سیدنا حر نے یہ آیت تلاوت کی تو سیدنا عمر ؓ ٹھنڈے ہوگئے اور آپ کی یہ عادت مبارک تھی کہ اللہ کی کتاب پر فوراً عمل کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے پاس وقاف تھے، یعنی کتاب اللہ کے احکام پر فوراً عمل کیا کرتے تھے اور جو اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے والا ہو وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی اقتدا کرتا ہے۔ 2۔اس حدیث سے علم اور اہل علم کی قدردانی کا پتا چلتا ہے کہ یہ اس وقت ہوتی ہے جب بادشاہ اور حکمران ان سے مشاورت کریں اور انھیں اپنے ہاں جگہ دیں۔ امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشیر بھی علماء قراء اور نیک سیرت عبادت گزار بوڑھے اور نوجوان تھے۔ علم ہی ایک ایسی چیزہے جو بوڑھوں اور جوانوں میں افضلیت پیدا کرتی ہے۔ 3۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس کے وقت کوئی دربان نہیں ہوتا تھا۔ ان کی مجلس میں داخل ہونے کے لیے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی، البتہ جب تنہا ہوتے اور آرام کا وقت ہوتا تو اس وقت ان کے پاس جانے کے لیے اجازت لینی پڑتی تھی، اس لیے عیینہ کو تنہائی میں آپ سے ملاقات کے لیے اجازت لینی پڑی لیکن اس نے آداب واحترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آتے ہی ’’اے خطاب کے بیٹے!‘‘ سے بات شروع کی۔ یہ اس کی قساوت قلبی (سخت دلی) اوربڑوں کے مقام ومرتبے سے عدم معرفت تھی۔ اگر اسے علم ہوتا تو ایسی گستاخی اور بدتمیزی نہ کرتا اور بے ادبی کی بات منہ سے نہ نکالتا۔ حضرت حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرمداخلت نہ کرتے تو اسے ایسی سزا ملتی کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا۔ 4۔بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کی اہمیت وافادیت کو ثابت کیا ہے جو اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”(اے ہمارے رب!) اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا۔“ ا س کے معنی یہ ہیں کہ ہم پہلے لوگوں کی پیروی کریں اور بعد میں آنے والے ہماری پیروی کریں۔ ¤ابن عون نے کہا: تین باتیں اسی ہیں کو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں: ایک تو علم حدیث ہے، مسلمانوں کو اسے ضرور سیکھنا چاہیے اور اسکے متعلق دوسروں سے دریافت کرنا چاہیے۔دوسرا قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں اور لوگوں سے اس کا مطالب ومعارف کی تحقیق کرتے رہیں ۔تیسرا یہ کہ مسلمانوں کا ذکر ہمیشہ بھلائی کے ساتھ کریں کسی کی برائی کا ذکر نہ کریں
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا‘ ان سے یونس بن یزید ایلی نے‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے‘ ان سے عبد اللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ عیینہ بن حذیفہ بن بدر مدینہ آئے اور اپنے بھتیجے الحر بن قیس بن حصن کے یہاں قیام کیا۔ الحر بن قیس ان لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر ؓ اپنے قریب رکھتے تھے۔ قرآن مجید کے علماء عمر ؓ کے شریک مجلس ومشورہ رہتے تھے‘ خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ پھر عیینہ نے اپنے بھتیجے حر سے کہا‘ بھتیجے! کیا امیر المؤمنین کے یہاں کچھ رسوخ حاصل ہے کہ تم میرے لیے ان کے یہاں حاضری کی اجازت لے دو؟ انہو ں نے کہا کہ میں آپ کے لیے اجازت مانگوں گا۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے عیینہ کے لیے اجازت چاہی (اور آپ نے اجازت دی) پھر جب عیینہ مجلس میں پہنچے تو کہا کہ اے ابن خطاب! واللہ! تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ اس پر عمر ؓ غصہ ہو گئے‘ یہاں تک کہ آپ نے انہیں سزا دینے کا ارادہ کر لیا۔ اتنے میں حضرت الحر نے کہا‘ امیر المؤ منین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ سے فرمایا کہ ”معاف کرنے کا طریقہ اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو“ اور یہ شخص جاہلوں میں سے ہے۔ پس واللہ! عمر ؓ کے سامنے جب یہ آیت انہوں نے تلاوت کی تو آپ ٹھنڈے ہو گئے اور عمر ؓ کی عادت تھی کہ اللہ کی کتاب پر فوراً عمل کرتے۔
حدیث حاشیہ:
یہ عیینہ بن حصن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسلمان ہو گیا تھا پھر جب طلیحہ اسدی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تو عیینہ بھی اس کے معتقدوں میں شریک ہو گیا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں طلیحہ پر مسلمانوں نے حملہ کیا تو وہ بھاگ گیا لیکن عیینہ قید ہو گیا۔ اس کو مدینہ لے کر آئے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا توبہ کر۔ اس نے توبہ کی ۔ سبحان اللہ! علم کی قدردانی جب ہوتی ہے جب بادشاہ اور رئیس عالموں کو مقرب رکھتے ہیں۔ علم ایسی ہی چیز ہے کہ جوان میں ہو یا بوڑھے میں‘ ہر طرح اس سے افضلیت پیدا ہوتی ہے۔ ایک جوان عالم درجہ اور مرتبہ میں اس سو برس کے بوڑھے سے کہیں زائد ہے جو کمبخت جاہل لٹھ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں جہاں اور فضیلیتں جمع تھیں وہاں علم کی قدردانی بھی بدرجہ کمال ان میں تھی۔ سبحان اللہ! خلافت ایسے لوگوں کو سزا وار ہے جو قرآن وحدیث کے ایسے تابع اور مطیع ہوں۔ اب ان جاہلوں سے پوچھنا چاہیے کہ عیینہ بن حصن تو تمہارا ہی بھائی تھا پھر اس نے ایسی بد تمیزی کیوں کی اگر ذرا بھی علم رکھتا ہوتا تو ایسی بے ادبی کی بات منہ سے نہ نکالتا۔ حر بن قیس جو عالم تھے‘ ان کی وجہ سے اس کی عزت بچ گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے وہ مار کھاتا کہ چھٹی کا دودھ یاد آجاتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA) : Uyaina bin Hisn bin Hudhaifa bin Badr came and stayed (at Medina) with his nephew Al-Hurr bin Qais bin Hisn who has one of those whom 'Umar used to keep near him, as the Qurra' (learned men knowing Qur'an by heart) were the people of Umar's meetings and his advisors whether they were old or young. 'Uyaina said to his nephew, "O my nephew! Have you an approach to this chief so as to get for me the permission to see him?" His nephew said, "I will get the permission for you to see him." (Ibn 'Abbas (RA) added:) So he took the permission for 'Uyaina, and when the latter entered, he said, "O the son of Al-Khattab! By Allah, you neither give us sufficient provision nor judge among us with justice." On that 'Umar became so furious that he intended to harm him. Al-Hurr, said, "O Chief of the Believers!" Allah said to His Apostle (ﷺ) 'Hold to forgiveness, command what is good (right), and leave the foolish (i.e. do not punish them).' (7.199) and this person is among the foolish." By Allah, 'Umar did not overlook that Verse when Al-Hurr recited it before him, and 'Umar said to observe (the orders of) Allah's Book strictly." (See Hadith No. 166, Vol. 6)