کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : بے فائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: Asking too many questions and troubling with what does not concern one)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اسی طرح بے فائدہ سختی اٹھا نا اور وہ باتیں بنا نا جن میں کوئی فائدہ نہیں اور اللہ نے سورۃ مائدہ میں فرمایا مسلمانو! ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر بیان کی جائیں تو تم کو بری لگیں ۔ جب تک کوئی حادثہ نہ ہو تو خواہ مخواہ فرضی سوالات کرنا منع ہے جیسا کہ فقہاءکی عادت ہے کہ وہ اگر مگر سے بال کی کھال نکالتے رہتے ہیں ۔
7297.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے کسی کھیت میں تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھجور کی ایک شاخ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اس دوران میں آپ یہودیوں کے گروہ کے پاس سے گزرے تو ان میں سے کسی نے کہا: ان سے روح کے متعلق سوال کرو؟ لیکن دوسروں نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ ایسی بات سنا دیں جو تمہیں ناگوار ہو۔ آخر وہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے ابو القاسم! ہمیں روح کے متعلق بتائیں۔ آپ ﷺ تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہوگیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ”یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔آپ فر دیں کہ روح میرے رب کا امر ہے۔“
تشریح:
1۔یہودیوں نے باہمی مشورے سے یہ بات طے کی کہ نبی آخرالزمان ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے روح کے متعلق سوال کیا جائے، اگرروح کی حقیقت بیا ن کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دانشور اور حکیم ہیں پیغمبر نہیں ہیں کیونکہ کسی پیغمبر نے روح کی حقیقت بیان نہیں کی۔ اگر روح کی حقیقت بیان نہ کریں تو پیغمبر ہیں۔ کچھ یہودیوں نے کہا: ان سے یہ سوال نہ کیا جائے کیونکہ اگر انھوں نےروح کی حقیقت بیان نہ کی تو یہ ان کے رسول ہونے کا ایک اور ثبوت مل جائے گا جو تمھیں ناگوار گزرے گا۔ 2۔حقیقت یہ ہے کہ اس روح کی ماہیت کا علم کسی کو نہیں ہو سکا۔ مغربی دانشور اس کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراہا ہاتھ نہیں آسکا، بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ علم کسی کو نہیں ہو سکا۔ مغربی دانشور اس کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراہا ہاتھ نہیں آسکا، بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ روح ایک ایسا لطف جوہر ہے جوذی روح کی شکل وصورت جیسا ہوتا ہے اور اس کا ہر جز جسم حیوانی کے ہرجز میں سما جاتا ہے۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا راز ہے جس پر کوئی بھی مطلع نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’کہہ دیجئے!روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔‘‘ (بني إسرائیل: 85) 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے سوالات محض تکلفات ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ انسان کی عملی زندگی ہی سے اس کا کوئی تعلق ہے، اس لیے ایسے سوالات پوچھنے سے بچنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7024
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7297
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7297
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7297
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
تمہید باب
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اگرمگر کے ذریعے سے بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرتے ہیں،اس لیے جب تک کوئی مسئلہ پیش نہ آجائے خوامخواہ فرضی سوالات کرنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی۔ایسا کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔
اسی طرح بے فائدہ سختی اٹھا نا اور وہ باتیں بنا نا جن میں کوئی فائدہ نہیں اور اللہ نے سورۃ مائدہ میں فرمایا مسلمانو! ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر بیان کی جائیں تو تم کو بری لگیں ۔ جب تک کوئی حادثہ نہ ہو تو خواہ مخواہ فرضی سوالات کرنا منع ہے جیسا کہ فقہاءکی عادت ہے کہ وہ اگر مگر سے بال کی کھال نکالتے رہتے ہیں ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے کسی کھیت میں تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھجور کی ایک شاخ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اس دوران میں آپ یہودیوں کے گروہ کے پاس سے گزرے تو ان میں سے کسی نے کہا: ان سے روح کے متعلق سوال کرو؟ لیکن دوسروں نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ ایسی بات سنا دیں جو تمہیں ناگوار ہو۔ آخر وہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے ابو القاسم! ہمیں روح کے متعلق بتائیں۔ آپ ﷺ تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہوگیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ”یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔آپ فر دیں کہ روح میرے رب کا امر ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔یہودیوں نے باہمی مشورے سے یہ بات طے کی کہ نبی آخرالزمان ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے روح کے متعلق سوال کیا جائے، اگرروح کی حقیقت بیا ن کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دانشور اور حکیم ہیں پیغمبر نہیں ہیں کیونکہ کسی پیغمبر نے روح کی حقیقت بیان نہیں کی۔ اگر روح کی حقیقت بیان نہ کریں تو پیغمبر ہیں۔ کچھ یہودیوں نے کہا: ان سے یہ سوال نہ کیا جائے کیونکہ اگر انھوں نےروح کی حقیقت بیان نہ کی تو یہ ان کے رسول ہونے کا ایک اور ثبوت مل جائے گا جو تمھیں ناگوار گزرے گا۔ 2۔حقیقت یہ ہے کہ اس روح کی ماہیت کا علم کسی کو نہیں ہو سکا۔ مغربی دانشور اس کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراہا ہاتھ نہیں آسکا، بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ علم کسی کو نہیں ہو سکا۔ مغربی دانشور اس کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراہا ہاتھ نہیں آسکا، بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ روح ایک ایسا لطف جوہر ہے جوذی روح کی شکل وصورت جیسا ہوتا ہے اور اس کا ہر جز جسم حیوانی کے ہرجز میں سما جاتا ہے۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا راز ہے جس پر کوئی بھی مطلع نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’کہہ دیجئے!روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔‘‘ (بني إسرائیل: 85) 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے سوالات محض تکلفات ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ انسان کی عملی زندگی ہی سے اس کا کوئی تعلق ہے، اس لیے ایسے سوالات پوچھنے سے بچنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:”ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں“
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے ابراہیم نے ‘ ان سے علقمہ نے‘ ان سے ابن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں تھا۔ آنحضرت ﷺ کھجور کی ایک شاخ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ یہودی ادھر سے گزرے تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ لیکن دوسروں نے کہا کہ ان سے نہ پوچھو۔ کہیں ایسی بات نہ سنا دیں جو تمہیں نا پسند ہے۔ آخر آپ کے پاس وہ لوگ آئے اور کہا‘ ابو القاسم! روح کے بارے میں ہمیں بتائیں؟ پھر آنحضرت ﷺ تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا‘ یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہو گیا‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ”اور آپ روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہیے کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ان یہودیوں نے آپس میں یہ صلاح کی تھی کہ ان سے روح کا پوچھو۔ اگر یہ روح کی کچھ حقیقت بیان کریں جب تو سمجھ جائیں گے کہ یہ حکیم ہیں‘ پیغمبر نہیں ہیں۔ چونکہ کسی پیغمبر نے روح کی حقیقت بیان نہیں کی۔ اگر یہ بھی بیان نہ کریں تو معلوم ہوگا کہ پیغمبر ہیں۔ اس پر بعضوں نے کہا نہ پوچھو‘ اس لیے کہ اگر انہوں نے بھی روح کی حقیقت بیان نہیں کی تو ان کی پیغمبری کا ایک اور ثبوت پیدا ہوگا اور تم کو نا گوار گزرے گا۔ روح کی حقیقت میں آدم علیہ السلام سے لے کر تا ایں دم ہزارہا حکیموں نے غور کیا اور اب تک اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی۔ اب امریکہ کے حکیم روح کے پیچھے پڑے ہیں لیکن ان کو بھی اب تک پوری حقیقت دریافت نہ ہو سکی‘ پر اتنا تو معلوم ہو گیا کہ بیشک روح ایک جوہر ہے جس کی صورت ذی روح کی صورت کی سی ہوتی ہے۔ مثلاً آدمی کی روح اس کی صورت پر‘ کتے کی روح اس کی صورت پر اور یہ جو ہر ایک لفطیف جوہر ہے جس کا ہر جزو جسم حیوانی کے ہر جز میں سما جاتا ہے اور بوجہ شدت لطافت کے اس کو نہ پکڑ سکتے ہیں نہ بند کر سکتے ہیں۔ روح کی لطافت اس درجہ ہے کہ شیشہ میں سے بھی پار ہو جاتی ہے حالانکہ ہوا اور پانی دوسرے اجسام لطیفہ اس میں سے نہیں نکل سکتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ اس نے روح کو اپنی ذات مقدس کا ایک نمونہ اس دنیا میں رکھا ہے تا کہ جو لوگ صرف محسوسات کو مانتے ہیں وہ روح پر غور کر کے مجردات یعنی جنوں اور فرشتوں اور پروردگار کا بھی مانیں کیونکہ روح کے وجود سے انکار کرنا یہ ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ ساٹھ برس ادھر میں فلانے ملک میں گیا تھا میں نے یہ یہ کام کئے تھے حالانکہ اس ساٹھ برس میں اس کا بدل کئی بار بدل گیا۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی جزو قائم نہیں رہا‘ پھر وہ چیز کیا ہے جو نہیں بدلی اور جس پر میں کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدمیوں کا عجز دکھانے کے لیے روح کی حقیقت پوشیدہ کر دی۔ پیغمبروں کو اتنا ہی بتلایا گیا کہ وہ پروردگار کا امر یعنی حکم ہے۔ مثلاً ایک آدمی کہیں کا حاکم ہوا تعلق دار یا تحصیلدار ڈپٹی کلکٹر پر اس کی موقوفی کا حکم بادشاہ پاس سے صادر ہو جائے۔ دیکھو وہ شخص وہی رہتا ہے جو پہلے تھا اس کی کوئی چیز نہیں بدلتی لیکن موقوفی کے بعد اس کو تعلقدار یا تحصیلدار یا ڈپٹی کلکٹر نہیں کہتے۔ آخر کیا چیز اس میں سے جاتی رہی‘ وہی حکم بادشاہ کا جاتا رہا۔ اسی طرح روح بھی پروردگار کا ایک حکم ہے یعنی حیوۃ کی صفت کا ظہور ہے۔ جہاں یہ حکم اٹھ گیا‘ حیوان مر گیا اس کا جسم وغیرہ سب ویسا ہی رہتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Masud (RA) : I was with the Prophet (ﷺ) at one of the farms of Madinah while he was leaning on a date palm leaf-stalk. He passed by a group of Jews and some of them said to the other, Ask him (the Prophet) about the spirit. Some others said, "Do not ask him, lest he should tell you what you dislike" But they went up to him and said, "O Abal Qasim! Inform us bout the spirit." The Prophet (ﷺ) stood up for a while, waiting. I realized that he was being Divinely Inspired, so I kept away from him till the inspiration was over. Then the Prophet (ﷺ) said, "( O Muhammad (ﷺ) ) they ask you regarding the spirit, Say: The spirit its knowledge is with my Lord (i.e., nobody has its knowledge except Allah)" (17.85) (This is a miracle of the Qur'an that all the scientists up till now do not know about the spirit, i.e, how life comes to a body and how it goes away at its death) (See Hadith No. 245, Vol. 6)