کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: Going deeply into and arguing about knowledge, and exaggerating in religion, and inventing heresies)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔
7305.
سیدنا مالک بن اوس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں سیدنا عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ اتنے میں ان کے دربان سیدنا یرفا آئے اور کہا: سیدنا عثمان، عبدالرحمن، زبیر اور سعد ؓ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اجازت دی جائے؟ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: ہاں چنانچہ وہ سب لوگ اندر آگئے، سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفا نے آ کر پوچھا: کیا سیدنا عباس اور سیدنا علی ؓ کو اندر آنے کی اجازت ہے؟ سیدنا عمر ؓ نے دونوں کو اندر آنے اجازت دے دی۔۔ سیدنا عباس ؓ نے کہا: امیری المومنین! میرے اور اس ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیں پھر وہ دونوں آپس میں الجھ گئے اور ایک دوسرے سے توتکار کی۔ سیدنا عثمان بن عفان ؓ اور ان کے ساتھیوں نے کہا: امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ایک دوسرے سے راحت پہنچائیں۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: تھوڑا صبر کرو۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین وآسمان قائم ہے! کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا تھا: ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو ترکہ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔“ رسول اللہ ﷺ نے اس سے مراد خود اپنی ذات کریمہ لی تھی؟ ان حضرات نے کہا: واقعی آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا، پھر سیدنا عمر ؓ سیدنا عباس اور سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا تھا ؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ اس کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں اس کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: اب میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے اس مال فے میں رسول کے لیے ایک حصہ خاص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی اور کو نہیں دیا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جو مال فے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اپنے رسول کو دیا۔ اس پر تم نے اونٹ گھوڑے نہیں دوڑائے۔۔۔۔۔۔۔آخر تک“ اس آیت کریمہ کے مطابق یہ مال خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ نے اسے، آپ لوگوں کو نظر انداز کر کے، اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد ہی بنایا بلکہ آپ نے اسے تم لوگوں کو دیا اور سب میں تقسیم کر دیا یہاں تک کہ اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا۔ نبی ﷺ اس میں سے اپنے اہل خانہ کا سالانہ خرچ دیتے تھے، پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کی ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ نبیﷺ نے اپنی زندگی بھر یہی معمول بنائے رکھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تمہیں اس کا علم ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: ہاں (ہم سب جانتے ہیں) پھر آپ نے سیدنا علی اور عباس ؓ سے کہا: میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگ بھی اسے جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں (ہمیں اس کا علم ہے)۔ پھر آپ نے فرمایا: اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو وفات دی تو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کا جانشین ہوں۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے اس مال کو اپنےقبضے میں لے کر اس میں وہی عمل کیا جو رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا اور تم دونوں س وقت موجود تھے۔ آپ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوکر یہ بات کہی۔ اور آپ حضرات کا خیال تھا کہ ابو بکر ؓ نے ان اموال میں ایسا ایسا کیا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والئ تھے، پھر اللہ تعالیٰ سیدنا ابو بکر ؓ کو فوت کر لیا تو میں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ میں دو سال تک رکھا اور اس میں رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ کے معمول کے مطابق عمل کرتا رہا۔ پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ دونوں کا مطالبہ ایک تھا اور تمہارا کام بھی ایک ہی تھا، اے عباس! آپ اپنے بھتیجے کی وراثت لینے آئے اور علی ؓ اپنی بیوی کی طرف سے اپنی میراث لینے آئے۔ میں نے تم سے کہا: یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں یہ دے دیتا ہوں اور تم پر اللہ کا عہد اور وعدہ ہے کہ اس میں وہی عمل کرو گے جو رسول اللہ ﷺ نے کیا اور جو ابو بکر ؓ نے کیا اور میں نے کیا جب سے ولی بنا ہوں۔ اگر تمہیں یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملے میں بات نہ کرو۔ اس وقت تم دونوں نے کہا تھا: ٹھیک ہے۔ اس شرط پر جائیداد ہمارے حوالے کردیں۔ تب میں نے اس شرط پر وہ جائیداد تمہارے حوالے کردیں۔ تب میں نے اس شرط پر وہ جائیداد تمہارے حوالے کر دی۔ اب میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا میں نے اسی شرط پر جائیداد ان دونوں کے حوالے کی تھی؟ اس گروہ نے کہا: جی ہاں ۔پھر سیدنا عمر ؓ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوکر پوچھا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا میں نے اسی شرط پر جائیداد تمہارے حوالے کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: آپ ؓ نے کہا: کیا آپ حضرات مجھ سے اس کے علاوہ کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں! میں اس جائیداد میں اسکے علاوہ کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ اگر آنحضرات اس کا انتطام نہیں کرسکتے تو اسے میرے حوالے کر دو، میں تمہارے لیے اس کا بھی انتظام کرلوں گا۔
تشریح:
1۔حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقیقی چچا تھے اور بھتیجا بیٹے کی طرح ہوتا ہے اس لیے اگر انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظالم کہا ہے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں کیونکہ باپ بیٹے کی تلخ کلامی ہو جاتی ہےالبتہ کسی دوسرے کے لیے ایسا کہنا جائز نہیں۔ ممکن ہے کہ اس لفظ سے اس کے حقیقی معنی مراد ہی نہ ہوں بلکہ اسے لغوی معنی میں استعمال کیا گیا ہو کہ ایک چیز کو اس کے محل کے علاوہ دوسری جگہ رکھ دینا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں یہ کہنا محال ہے کہ وہ حقیقی طور پر ظالم ہوں۔ اس کی تاویل یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطور ڈانٹ ڈپٹ کہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے براخیال کر کے اس کا نوٹس نہیں لیا حالانکہ آپ منکر اشیاء کو بہت براخیال کرتے تھے۔ 2۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جھگڑے اور اختلاف کو اچھا خیال نہ کیا اسی لیے بیک زبان ہو کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: آپ ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر کے انھیں آرام پہنچائیں۔ اس جھگڑے کی وجہ سے یہ لوگ سخت پریشان ہیں۔ ان حضرات کا بےجا جھگڑا تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہی ثابت کیا ہے دیگر مباحث پہلے گزر چکے ہیں ہم انھیں دہرانا نہیں چاہتے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7032
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7305
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7305
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7305
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
تمہید باب
غلو کے معنی حد سے تجاوز کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی معاملات میں غلو سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ذات باری تعالیٰ کے متعلق بحث و تمحیص کرتے وقت انسان اس حدسے تجاوز کر جائے کہ شیطان کو دخل اندازی کا موقع مل جائے۔ یہود و نصاریٰ نے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق غلو سے کام لیا تھا۔یہودیوں نے ان کی قدر و منزلت کو اس حد تک گھٹا دیا کہ ان کی رسالت ہی سے انکار کردیا ۔اور نصاریٰ نے انھیں اس قدر بڑھایا کہ انھیں الٰہ بنادیا یا انھیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا ہمارے مسلمانوں میں بھی اس قسم کے غلو کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ دین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا مالک بن اوس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں سیدنا عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ اتنے میں ان کے دربان سیدنا یرفا آئے اور کہا: سیدنا عثمان، عبدالرحمن، زبیر اور سعد ؓ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اجازت دی جائے؟ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: ہاں چنانچہ وہ سب لوگ اندر آگئے، سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفا نے آ کر پوچھا: کیا سیدنا عباس اور سیدنا علی ؓ کو اندر آنے کی اجازت ہے؟ سیدنا عمر ؓ نے دونوں کو اندر آنے اجازت دے دی۔۔ سیدنا عباس ؓ نے کہا: امیری المومنین! میرے اور اس ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیں پھر وہ دونوں آپس میں الجھ گئے اور ایک دوسرے سے توتکار کی۔ سیدنا عثمان بن عفان ؓ اور ان کے ساتھیوں نے کہا: امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ایک دوسرے سے راحت پہنچائیں۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: تھوڑا صبر کرو۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین وآسمان قائم ہے! کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا تھا: ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو ترکہ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔“ رسول اللہ ﷺ نے اس سے مراد خود اپنی ذات کریمہ لی تھی؟ ان حضرات نے کہا: واقعی آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا، پھر سیدنا عمر ؓ سیدنا عباس اور سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا تھا ؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ اس کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں اس کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: اب میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے اس مال فے میں رسول کے لیے ایک حصہ خاص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی اور کو نہیں دیا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جو مال فے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اپنے رسول کو دیا۔ اس پر تم نے اونٹ گھوڑے نہیں دوڑائے۔۔۔۔۔۔۔آخر تک“ اس آیت کریمہ کے مطابق یہ مال خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ نے اسے، آپ لوگوں کو نظر انداز کر کے، اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد ہی بنایا بلکہ آپ نے اسے تم لوگوں کو دیا اور سب میں تقسیم کر دیا یہاں تک کہ اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا۔ نبی ﷺ اس میں سے اپنے اہل خانہ کا سالانہ خرچ دیتے تھے، پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کی ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ نبیﷺ نے اپنی زندگی بھر یہی معمول بنائے رکھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تمہیں اس کا علم ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: ہاں (ہم سب جانتے ہیں) پھر آپ نے سیدنا علی اور عباس ؓ سے کہا: میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگ بھی اسے جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں (ہمیں اس کا علم ہے)۔ پھر آپ نے فرمایا: اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو وفات دی تو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کا جانشین ہوں۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے اس مال کو اپنےقبضے میں لے کر اس میں وہی عمل کیا جو رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا اور تم دونوں س وقت موجود تھے۔ آپ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوکر یہ بات کہی۔ اور آپ حضرات کا خیال تھا کہ ابو بکر ؓ نے ان اموال میں ایسا ایسا کیا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والئ تھے، پھر اللہ تعالیٰ سیدنا ابو بکر ؓ کو فوت کر لیا تو میں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ میں دو سال تک رکھا اور اس میں رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ کے معمول کے مطابق عمل کرتا رہا۔ پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ دونوں کا مطالبہ ایک تھا اور تمہارا کام بھی ایک ہی تھا، اے عباس! آپ اپنے بھتیجے کی وراثت لینے آئے اور علی ؓ اپنی بیوی کی طرف سے اپنی میراث لینے آئے۔ میں نے تم سے کہا: یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں یہ دے دیتا ہوں اور تم پر اللہ کا عہد اور وعدہ ہے کہ اس میں وہی عمل کرو گے جو رسول اللہ ﷺ نے کیا اور جو ابو بکر ؓ نے کیا اور میں نے کیا جب سے ولی بنا ہوں۔ اگر تمہیں یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملے میں بات نہ کرو۔ اس وقت تم دونوں نے کہا تھا: ٹھیک ہے۔ اس شرط پر جائیداد ہمارے حوالے کردیں۔ تب میں نے اس شرط پر وہ جائیداد تمہارے حوالے کردیں۔ تب میں نے اس شرط پر وہ جائیداد تمہارے حوالے کر دی۔ اب میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا میں نے اسی شرط پر جائیداد ان دونوں کے حوالے کی تھی؟ اس گروہ نے کہا: جی ہاں ۔پھر سیدنا عمر ؓ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوکر پوچھا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا میں نے اسی شرط پر جائیداد تمہارے حوالے کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: آپ ؓ نے کہا: کیا آپ حضرات مجھ سے اس کے علاوہ کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں! میں اس جائیداد میں اسکے علاوہ کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ اگر آنحضرات اس کا انتطام نہیں کرسکتے تو اسے میرے حوالے کر دو، میں تمہارے لیے اس کا بھی انتظام کرلوں گا۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقیقی چچا تھے اور بھتیجا بیٹے کی طرح ہوتا ہے اس لیے اگر انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظالم کہا ہے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں کیونکہ باپ بیٹے کی تلخ کلامی ہو جاتی ہےالبتہ کسی دوسرے کے لیے ایسا کہنا جائز نہیں۔ ممکن ہے کہ اس لفظ سے اس کے حقیقی معنی مراد ہی نہ ہوں بلکہ اسے لغوی معنی میں استعمال کیا گیا ہو کہ ایک چیز کو اس کے محل کے علاوہ دوسری جگہ رکھ دینا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں یہ کہنا محال ہے کہ وہ حقیقی طور پر ظالم ہوں۔ اس کی تاویل یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بطور ڈانٹ ڈپٹ کہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے براخیال کر کے اس کا نوٹس نہیں لیا حالانکہ آپ منکر اشیاء کو بہت براخیال کرتے تھے۔ 2۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جھگڑے اور اختلاف کو اچھا خیال نہ کیا اسی لیے بیک زبان ہو کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: آپ ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر کے انھیں آرام پہنچائیں۔ اس جھگڑے کی وجہ سے یہ لوگ سخت پریشان ہیں۔ ان حضرات کا بےجا جھگڑا تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہی ثابت کیا ہے دیگر مباحث پہلے گزر چکے ہیں ہم انھیں دہرانا نہیں چاہتے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور حق کے سوا اللہ پر کچھ نہ کہو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں مالک بن اوس نضری نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے اس سلسلہ میں ذکر کیا تھا، پھر مالک کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں روانہ ہوا اور عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے دربان یرفاء آئے اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمن، زبیر اور سعد ؓ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں اجازت دی جائے؟ عمر ؓ نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ سب لوگ اندر آگئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفاء نے آکرپوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے؟ ان حضات کو بھی اندر بلایا۔ عباس ؓ نے کہا کہ امیرالمؤمنین! میرے اور ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیجئے۔ آپس میں دونوں نے سخت کلامی کی۔ اس پر عثمان ؓ اور ان کے ساتھیوں کی جماعت نے کہا کہ امیرالمؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیئجے تا کہ دونوں کو آرام حاصل ہو۔ عمر ؓ نے کہا کہ صبر کرو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے آسمان وزمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جوکچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس سے خود اپنی ذات مراد لی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا، پھر آپ علی اور عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ کو یہ معلوم تھا؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ عمر ؓ نے اس کے بعد کہا کہ پھر میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا اس مال میں سے ایک حصہ مخصوص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ الْآيَةَ) تو یہ مال خاص آنحضرت ﷺ کے لئے تھا، پھر واللہ! آنحضرت ﷺ نے اسے اپنے لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائداد بنایا۔ آنحضرت ﷺ نے اسے آپ لوگوں کو بھی دیا اور سب میں تقسیم کیا‘ یہاں تک اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا تو آنحضرت ﷺ اس میں سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ دیتے تھے‘ پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کے ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے زندگی بھر اس کے مطابق عمل کیا۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اس کا علم ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں پھر آپ نے علی اور عباس ﷺ سے کہا‘ میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو وفات دی اور ابو بکر ؓ نے آنحضرت ﷺ کے ولی ہونے کی حیثیت سے اس پر قبضہ کیا اور اسی میں اسی طرح عمل کیا جیسا کہ آنحضرت ﷺ کرتے تھے۔ آپ دونوں حضرات بھی یہیں موجود تھے۔ آپ نے علی اور عباس ؓ کی طرف متوجہ ہو کر یہ بات کہی اور آپ لوگوں کا خیال تھا کہ ابو بکر ؓ اس معاملے میں خطا کار ہیں اوراللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے اور نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والے تھے‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ابو بکر ؓ کو وفات دی اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر ﷺ کا ولی ہوں اس طرح میں نے بھی اس جائداد کو اپنے قبضے میں دو سال تک رکھا اور اس میں اسی کے مطابق عمل کرتا رہا جیسا کہ آنحضرت ﷺ اور ابو بکر صدیق ؓ نے کیا تھا‘ پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ لوگوں کا معاملہ ایک ہی تھا۔ کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ (عباس ؓ !) آئے اپنے بھائی کے لڑکے کی طرف سے اپنی میراث لینے آئے اور یہ (علی ؓ ) اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔ میں نے تم سے کہا کہ یہ جائداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن تم لوگ چاہو تو میں اہتمام کے طور پر آپ کو یہ جائداد دے دوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں پر اللہ کا عہد اور اس کی میثاق ہے کہ اس کو اسی طرح خرچ کرو گے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا اور جس طرح ابو بکر ؓ نے کیا تھا اور جس طرح میں نے اپنے زمانہ ولایت میں کیا اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کریں۔ آپ دونوں حضرات نے کہا کہ اس شرط کے ساتھ ہمارے حوالہ جائداد کر دیں۔ چنانچہ میں نے اس شرط کے ساتھ آپ کے حوالہ جائداد کر دی تھی۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے ان لوگوں کو اس شرط کے ساتھ جائیداد دی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہا ں‘ پھر آپ نے علی اور عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے جائداد آپ لوگووں کو اس شرط کے ساتھ حوالہ کی تھی؟ انہوں نے کہا کہاں۔ پھر آپ نے کہا‘ کیا آپ لوگ مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں۔ پس اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں‘ اس میں‘ اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ اگر آپ لوگ اس کا انتظام نہیں کر سکتے تو پھر میرے حوالہ کر دو میں اس کا بھی انتظام کرلوں گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب کی مطابقت اس طرح سے ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے علی اور عباس رضی اللہ عنہ کے تنازع اور اختلاف کو برا سمجھا۔ جب تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا‘ ان دونوں کا فیصلہ کر کے ان کو آرام دیجئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Malik bin Aus An-Nasri: I proceeded till I entered upon 'Umar (and while I was sitting there), his gate-keeper Yarfa came to him and said, " 'Uthman, 'Abdur-Rahman, Az-Zubair and Sa'd ask your permission to come in." 'Umar allowed them. So they entered, greeted, and sat down. (After a while the gatekeeper came) and said, "Shall I admit 'Ali and 'Abbas?'' 'Umar allowed them to enter. Al-'Abbas said "O Chief of the believers! Judge between me and the oppressor ('Ali)." Then there was a dispute (regarding the property of Bani Nadir) between them ('Abbas and 'Ali). 'Uthman and his companions said, "O Chief of the Believers! Judge between them and relieve one from the other." Umar said, "Be patient! beseech you by Allah, with Whose permission the Heaven and the Earth Exist! Do you know that Allah's Apostle (ﷺ) said, 'Our property is not to be inherited, and whatever we leave is to be given in charity,' and by this Allah's Apostle (ﷺ) meant himself?" On that the group said, "He verily said so." 'Umar then faced 'Ali and 'Abbas and said, "I beseech you both by Allah, do you both know that Allah's Apostle (ﷺ) said so?" They both replied, "Yes". 'Umar then said, "Now I am talking to you about this matter (in detail) . Allah favored Allah's Apostle (ﷺ) with some of this wealth which He did not give to anybody else, as Allah said: 'What Allah bestowed as Fai (Booty on His Apostle (ﷺ) for which you made no expedition... ' (59.6) So that property was totally meant for Allah's Apostle, yet he did not collect it and ignore you, nor did he withhold it with your exclusion, but he gave it to you and distributed it among you till this much of it was left behind, and the Prophet, used to spend of this as the yearly expenditures of his family and then take what remained of it and spent it as he did with (other) Allah's wealth. The Prophet (ﷺ) did so during all his lifetime, and I beseech you by Allah, do you know that?" They replied, "Yes." 'Umar then addressed 'Ali and 'Abbas, saying, "I beseech you both by Allah, do you know that?" Both of them replied, "Yes." 'Umar added, "Then Allah took His Apostle (ﷺ) unto Him. Abu Bakr (RA) then said 'I am the successor of Allah's Apostle' and took over all the Prophet's property and disposed of it in the same way as Allah's Apostle (ﷺ) used to do, and you were present then." Then he turned to 'Ali and 'Abbas and said, "You both claim that Abu Bakr (RA) did so-and-so in managing the property, but Allah knows that Abu Bakr (RA) was honest, righteous, intelligent, and a follower of what is right in managing it. Then Allah took Abu Bakr (RA) unto Him, 'I said: I am the successor of Allah's Apostle (ﷺ) and Abu Bakr.' So I took over the property for two years and managed it in the same way as Allah's Apostle, and Abu Bakr (RA) used to do. Then you both ('Ali and 'Abbas) came to me and asked for the same thing! (O 'Abbas! You came to me to ask me for your share from nephew's property; and this ('Ali) came to me asking for his wives share from her father's property, and I said to you both, 'If you wish, I will place it in your custody on condition that you both will manage it in the same way as Allah's Apostle (ﷺ) and Abu Bakr (RA) did and as I have been doing since I took charge of managing it; otherwise, do not speak to me anymore about it.' Then you both said, 'Give it to us on that (condition).' So I gave it to you on that condition. Now I beseech you by Allah, did I not give it to them on that condition?" The group (whom he had been addressing) replied, "Yes." 'Umar then addressed 'Abbas and 'Ali saying, "I beseech you both by Allah, didn't I give you all that property on that condition?" They said, "Yes." 'Umar then said, "Are you now seeking a verdict from me other than that? By Him with Whose Permission the Heaven and the Earth exists I will not give any verdict other than that till the Hour is established; and if you both are unable to manage this property, then you can hand it back to me, and I will be sufficient for it on your behalf." (See, Hadith No. 326, Vol. 4)