کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : آنحضرت ﷺنے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: The religious learned men should not differ)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور مدینہ میں جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور آپ کی قبر شریف کا بیان ۔ تشریح : یا اللہ اس مبارک ترین وقت سحر میں میری غلطیاں معاف فرمانے والے میری قلم میں طاقت عطا کرتا کہ میں تیرے حبیب رسول کریم حضرت سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کے عظیم ذخیرہ کی یہ آخری منزل تیری اور تیرے حبیب ﷺم کی عین منشا کے مطابق لکھ سکوں اور اسے بخیر وخوبی اشاعت میں لا سکوں۔ یااللہ ! اس عظیم خدمت کو قبول فرما کر جملہ معاونین کرام ومخلصین عظام کے حق میں اسے بطور جاریہ قبول فرما لے اور میری آل واولاد کے لیے ‘ والدین کے لیے ذخیرہ دارین بنائیو۔ آمین رب العالمین۔ رب یسر ولا تعسر وتمم بالخیر بک نستعین۔ ( خادم محمد داؤد راز ا17 رمضان سنہ ۔ 1397ھ ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب منعقد فرما کر ان معاندین کے منہ پر طمانچہ مارا ہے جو کہتے رہتے ہیں کہ اہل حدیث مدینہ کی حقیقی عظمت نہیں کرتے‘ یہ اجماع کے منکر ہیں ‘ یہ درود نہیں پڑھتے ہیں ۔ اللہ ایسے لوگوں کو نیک ہدایت دے کہ وہ ایسی ہفوات باطلہ سے باز آئیں۔ کسی مومن مسلمان پر تہمت الزام لگا نا بد ترین گناہ ہے ۔ بہر حال اکثر علماءکا یہ قول ہے کہ اجماع جب معتبر ہوتا ہے کہ تمام جہاں کے مجتہدین اسلام اس مسئلہ پر اتفاق کر لیں ‘ ایک کا بھی اختلاف نہ ہو ۔ حضرت امام مالک نے اہل مدینہ کا اجماع بھی معتبر کہا ہے ۔ حضرت امام بخاری کے کلام سے یہ نکلتا ہے کہ اہل مکہ اور اہل مدینہ دونوں کا اجماع بھی حجت ہے ۔ مگر حافظ نے کہا امام بخاری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہل مکہ ومدہنہ کا اجماع حجت ہے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کے وقت اس جانب کو ترجیح ہوگی جس پر اہل ملہ اور مدینہ اتفاق کریں ۔ بعض لوگوں نے اہل بیت اور خلفاءاربعہ کا اتفاق ۔ بعض لوگوں نے ائمہ اربعہ کا اتفاق اجماع سمجھا ہے ۔ مگر جمہور کا وہی قول ہے کہ ایسے اتفاقات اجماع نہیں ہو سکتے ۔ جب تک تمام جہاں کے مجتہدین اسلام اتفاق نہ کر لیں ۔ حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ نے کہا اجماع کا دعویٰ ہے کہ طالب حق کو اس سے کچھ خوف نہ کرنا چاہئیے۔ میں ( وحید الزماں ) کہتا ہوں اس وقت ( 1323ھ ) میں حرمین شریفین میں بہت سی بدعات اور امور خلاف شرع جاری ہیں ۔ ( مگر آج سعودی دور1397ھ ہے ) الحمد للہ اس حکومت نے حر مین شریفین کو بیشتر بدعات اور خرافات سے پاک کردیا ہے ۔ اللہ پاک تحفظ حرمین شریفین کے لیے اس حکومت کو قاءودائم رکھے اور ان کو ہمیشہ کتاب وسنت کی اتباع پر استقامت عطا کرے ( آمین ) پس خلاف شرع امور اہل حرمین کا اجماع کوئی حجت نہیں ہے ۔ طالب حق کو ہمیشہ دلیل کی پیروی کرنی چاہیے اور جس قول کی دلیل قوی ہو ۔ اس کو اختیار کرنا چاہئیے گو اس کے قائل قلیل ہوں البتہ بہت سے مسائل ہیں جن پر تمام جہاں کے علماءاسلام سے شرقاً وغرباً اتفاق کیا ہے اور ایک مجتہد یا عالم سے بھی ان میں اختلاف منقول نہیں ہے ۔ ایسے مسائل میں بے شک اجماع کا خلاف کرنا جائز نہیں ہے ( خلاصہ شرح وحیدی ) ائمہ اربعہ کی تقلید جامد پر بھی اجماع کا دعویٰ کرنا صحیح نہیں ہے کہ ہر قرن اور ہر زمانہ میں اس جمود کی مخالف کرنے والے بیشتر اکابر علماءاسلام ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ جیسا کہ کتب تاریخ میں تفصیل سے ذکر موجود ہے ۔ دیکھو کتب اعلام الموقعین ومعیار الحق وغیرہ )
7322.
سیدنا جابر بن عبداللہ سلمی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ کی اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ طیبہ میں اس کو بخت بخار نے آلیا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیعت واپس لے لیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انکار کر دیا۔ وہ پھر آیا اور کہنے لگا: میری بیعت فسخ کر دیں۔ آپ ﷺ نے پھر انکار کر دیا وہ پھر (تیسری مرتبہ) آیا اور کہا: میری بیعت توڑ دیں۔ تو آپ نے اس دفعہ بھی بیعت توڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد وہ دیہاتی مدینہ طیبہ سے نکل گیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مدینہ طیبہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے جو میل کچیل کو دور کرتی ہے اور خالص لوہے کو رکھ لیتی ہے۔
تشریح:
1۔اس اعرابی کا خیال تھا کہ بیعت کے بعد مدینہ طیبہ میں اقامت ضروری ہے اگر بیعت نہ ہو تو مدینہ طیبہ سے باہر جا سکتا ہے، اس لیے وہ بیعت توڑنے کا بار بار اعادہ کر رہا تھا۔ وہ مرتد نہیں ہوا تھا جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ارتداد کا حکم جاری نہیں فرمایا، نیز اگر وہ مرتد ہوتا تو بار بار یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کے الفاظ استعمال نہ کرتا بلکہ وہ اسلام میں رہتے ہوئے مدینہ طیبہ سے رخصت چاہتا تھا اور بیعت سے واپسی کے الفاظ رخصت کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ 2۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب مدینہ طیبہ تمام شہروں سے افضل ہوا تو وہاں کے علماء کا اجماع بھی قابل اعتبار ہوگا کیونکہ مدینہ طیبہ میں بُرے اور بدکار لوگ ٹھہر ہی نہیں سکتے، اس لیے وہاں کے علماء سب اچھے ہوں گے لیکن مدینہ طیبہ کے متعلق یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ خاص تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت سے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ طیبہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ہمارے رجحان کے مطابق خلاف شرع امور میں اہل حرمین کا اجماع کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔طالب حق کو ہمیشہ دلیل کی پیروی کرنی چاہیے، کو اس کے قائل تعداد میں تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7049
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7322
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7322
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7322
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
اور مدینہ میں جو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین اور انصار کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور آپ کی قبر شریف کا بیان ۔ تشریح : یا اللہ اس مبارک ترین وقت سحر میں میری غلطیاں معاف فرمانے والے میری قلم میں طاقت عطا کرتا کہ میں تیرے حبیب رسول کریم حضرت سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کے عظیم ذخیرہ کی یہ آخری منزل تیری اور تیرے حبیب ﷺم کی عین منشا کے مطابق لکھ سکوں اور اسے بخیر وخوبی اشاعت میں لا سکوں۔ یااللہ ! اس عظیم خدمت کو قبول فرما کر جملہ معاونین کرام ومخلصین عظام کے حق میں اسے بطور جاریہ قبول فرما لے اور میری آل واولاد کے لیے ‘ والدین کے لیے ذخیرہ دارین بنائیو۔ آمین رب العالمین۔ رب یسر ولا تعسر وتمم بالخیر بک نستعین۔ ( خادم محمد داؤد راز ا17 رمضان سنہ ۔ 1397ھ ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب منعقد فرما کر ان معاندین کے منہ پر طمانچہ مارا ہے جو کہتے رہتے ہیں کہ اہل حدیث مدینہ کی حقیقی عظمت نہیں کرتے‘ یہ اجماع کے منکر ہیں ‘ یہ درود نہیں پڑھتے ہیں ۔ اللہ ایسے لوگوں کو نیک ہدایت دے کہ وہ ایسی ہفوات باطلہ سے باز آئیں۔ کسی مومن مسلمان پر تہمت الزام لگا نا بد ترین گناہ ہے ۔ بہر حال اکثر علماءکا یہ قول ہے کہ اجماع جب معتبر ہوتا ہے کہ تمام جہاں کے مجتہدین اسلام اس مسئلہ پر اتفاق کر لیں ‘ ایک کا بھی اختلاف نہ ہو ۔ حضرت امام مالک نے اہل مدینہ کا اجماع بھی معتبر کہا ہے ۔ حضرت امام بخاری کے کلام سے یہ نکلتا ہے کہ اہل مکہ اور اہل مدینہ دونوں کا اجماع بھی حجت ہے ۔ مگر حافظ نے کہا امام بخاری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہل مکہ ومدہنہ کا اجماع حجت ہے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کے وقت اس جانب کو ترجیح ہوگی جس پر اہل ملہ اور مدینہ اتفاق کریں ۔ بعض لوگوں نے اہل بیت اور خلفاءاربعہ کا اتفاق ۔ بعض لوگوں نے ائمہ اربعہ کا اتفاق اجماع سمجھا ہے ۔ مگر جمہور کا وہی قول ہے کہ ایسے اتفاقات اجماع نہیں ہو سکتے ۔ جب تک تمام جہاں کے مجتہدین اسلام اتفاق نہ کر لیں ۔ حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ نے کہا اجماع کا دعویٰ ہے کہ طالب حق کو اس سے کچھ خوف نہ کرنا چاہئیے۔ میں ( وحید الزماں ) کہتا ہوں اس وقت ( 1323ھ ) میں حرمین شریفین میں بہت سی بدعات اور امور خلاف شرع جاری ہیں ۔ ( مگر آج سعودی دور1397ھ ہے ) الحمد للہ اس حکومت نے حر مین شریفین کو بیشتر بدعات اور خرافات سے پاک کردیا ہے ۔ اللہ پاک تحفظ حرمین شریفین کے لیے اس حکومت کو قاءودائم رکھے اور ان کو ہمیشہ کتاب وسنت کی اتباع پر استقامت عطا کرے ( آمین ) پس خلاف شرع امور اہل حرمین کا اجماع کوئی حجت نہیں ہے ۔ طالب حق کو ہمیشہ دلیل کی پیروی کرنی چاہیے اور جس قول کی دلیل قوی ہو ۔ اس کو اختیار کرنا چاہئیے گو اس کے قائل قلیل ہوں البتہ بہت سے مسائل ہیں جن پر تمام جہاں کے علماءاسلام سے شرقاً وغرباً اتفاق کیا ہے اور ایک مجتہد یا عالم سے بھی ان میں اختلاف منقول نہیں ہے ۔ ایسے مسائل میں بے شک اجماع کا خلاف کرنا جائز نہیں ہے ( خلاصہ شرح وحیدی ) ائمہ اربعہ کی تقلید جامد پر بھی اجماع کا دعویٰ کرنا صحیح نہیں ہے کہ ہر قرن اور ہر زمانہ میں اس جمود کی مخالف کرنے والے بیشتر اکابر علماءاسلام ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ جیسا کہ کتب تاریخ میں تفصیل سے ذکر موجود ہے ۔ دیکھو کتب اعلام الموقعین ومعیار الحق وغیرہ )
حدیث ترجمہ:
سیدنا جابر بن عبداللہ سلمی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ کی اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ طیبہ میں اس کو بخت بخار نے آلیا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیعت واپس لے لیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انکار کر دیا۔ وہ پھر آیا اور کہنے لگا: میری بیعت فسخ کر دیں۔ آپ ﷺ نے پھر انکار کر دیا وہ پھر (تیسری مرتبہ) آیا اور کہا: میری بیعت توڑ دیں۔ تو آپ نے اس دفعہ بھی بیعت توڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد وہ دیہاتی مدینہ طیبہ سے نکل گیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مدینہ طیبہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے جو میل کچیل کو دور کرتی ہے اور خالص لوہے کو رکھ لیتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس اعرابی کا خیال تھا کہ بیعت کے بعد مدینہ طیبہ میں اقامت ضروری ہے اگر بیعت نہ ہو تو مدینہ طیبہ سے باہر جا سکتا ہے، اس لیے وہ بیعت توڑنے کا بار بار اعادہ کر رہا تھا۔ وہ مرتد نہیں ہوا تھا جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ارتداد کا حکم جاری نہیں فرمایا، نیز اگر وہ مرتد ہوتا تو بار بار یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کے الفاظ استعمال نہ کرتا بلکہ وہ اسلام میں رہتے ہوئے مدینہ طیبہ سے رخصت چاہتا تھا اور بیعت سے واپسی کے الفاظ رخصت کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ 2۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب مدینہ طیبہ تمام شہروں سے افضل ہوا تو وہاں کے علماء کا اجماع بھی قابل اعتبار ہوگا کیونکہ مدینہ طیبہ میں بُرے اور بدکار لوگ ٹھہر ہی نہیں سکتے، اس لیے وہاں کے علماء سب اچھے ہوں گے لیکن مدینہ طیبہ کے متعلق یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ خاص تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت سے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ طیبہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ہمارے رجحان کے مطابق خلاف شرع امور میں اہل حرمین کا اجماع کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔طالب حق کو ہمیشہ دلیل کی پیروی کرنی چاہیے، کو اس کے قائل تعداد میں تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
اور مکہ ومدینہ میں جو نبی ﷺ مہاجرین اور انصار کے متبرک مقامت ہیں اور نبی ﷺ کے مصلی منبر اور قبر کا بیان
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ انہوں نے محمد بن منکدر سے‘ انہوں نے جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ سے کہ ایک گنوار (قیس بن ابی حازم یا قیس بن حاز م یا اور کوئی) نے آنحضرت ﷺ سے اسلام پر بیعت کی‘ پھر مدینہ میں اس کو تپ آنے لگی۔ وہ آنحضرت ﷺ کے پاس آیا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ! میری بیعت فسخ کر دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے پھر انکار کیا۔ اس کے بعد وہ مدینہ سے نکل کر اپنے جنگل کو چلا گیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے جو اپنی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے اور کھرے پاکیزہ مال کو رکھ لیتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ جب مدینہ سب شہروں سے افضل ہوا تو وہاں کے علماء کے اجماع ضرور معتبر ہوگا کیونکہ مدینہ میں برے اور بد کار لوگ ٹھہر ہی نہیں سکتے۔ وہاں کے علماء سب سے اچھے ہی ہوں گے مگر یہ حکم حیات نبوی کے ساتھ تھا۔ بعد میں بہت سے اکابر صحابہ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin 'Abdullah As-Salami (RA) : A bedouin gave the Pledge of allegiance for embracing Islam to Allah's Apostle, and then he got an attack of fever in Madinah and came to Allah's Apostle: and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Cancel my pledge." Allah's Apostle (ﷺ) refused to do so. The bedouin came to him again and said, "Cancel my pledge," but he refused again, and then again, the bedouin came to him and said, "Cancel my pledge," and Allah's Apostle (ﷺ) refused. The bedouin finally went away, and Allah's Apostle (ﷺ) said, "Medina is like a pair of bellows (furnace), it expels its impurities while it brightens and clears its good.' 9.424.: