کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ کہف میں ” اور انسان سب سے زیادہ جھگڑا لو ہے “
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: “…But, man is ever more quarrelsome than anything.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ارشاد خدا وندی سورۃ عنکبوت میں ” اور تم اہل کتاب سے بحث نہ کرو لیکن اس طریقہ سے جو اچھا ہو یعنی نرمی کے ساتھ اللہ کے پیغمبروں اور اس کی کتابوں کا ادب ملحوظ رکھ کر ان سے بحث کرو “ ۔
7347.
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ رات کے وقت ان کے پاس اور سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لے گئے تو ان سے فرمایا: ”تم (رات کو) نماز کیوں نہیں پڑھتے؟“ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! ہماری ارواح اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جب ہمیں اٹھانا چاہتا ہے ہم اٹھتے ہیں جس وقت سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے یہ جواب دیا تو رسول اللہ ﷺ واپس چلے گئے اور انہیں کچھ جواب نہ دیا۔ پھر انہوں نے آپ کو سنا جب آپ اپنی پشت پھیر کر واپس جا رہے تھے اور اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے: ”انسان تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ ) نے کہا: جو رات کے وقت تیرے پاس آئے وہ طارق ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طارق ستارہ ہے۔ اور ثاقب کے معنی ہیں: روشنی کرنے والا آگ سلگانے والے کو کہا جاتا ہے : آگ روشن کردو۔
تشریح:
1۔اس حدیث کے عنوان کے پہلے جز سے مطابقت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی رغبت دلائی کہ اٹھ کر اپنے عزم وارادے سے نماز پڑھیں لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قضا وقدر کا سہارا لیا جیسا کہ عام طور پر کوئی عمل نہ کرنے کا بہانہ کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بر موقع بہانہ سازی سن کر تعجب کرتے ہوئے واپس ہوگئے، پھر نیند کا بھی غلبہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ سختی اس لیے نہیں کی کہ نماز تہجد فرض نہ تھی۔ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد عمل کرکے نماز پڑھتے تو اچھا تھا۔ 2۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قول یا فعل سے دفاع کرنا انسان کی فطرت ہے۔ بہرحال حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف غلبہ نیند کے باعث ترک قیام سے عذر خواہی کی تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان نیکی کے کسی کلام میں غفلت کر رہا ہو اسے یاد دلانا مشروع ہے کیونکہ غفلت انسان کی گھٹی میں شامل ہے۔ 3۔کتاب الاعتصام سے اس حدیث کا تعلق یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں بہتر یہی تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر عمل کر کے نماز پڑھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7073
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7347
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7347
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7347
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
تمہید باب
یہ عنوان دوآیات پر مشتمل ہے:ایک آیت میں انسان کے جھگڑالوپن کاذکر ہے اور دوسری آیت میں اہل کتاب کے ساتھ اچھے اچھے طریقے سے مجادلہ کرنے کا بیان ہے ،یعنی انھیں دین کی دعوت دی جائے اور اس کے انکار کرنے پرانھیں تنبیہ کی جائے،ان کے ایمان کی امید رکھی جائے اور اگروہ کفر پر قائم رہیں تو ان کے خلاف تلوار اٹھائی جائے۔
اور ارشاد خدا وندی سورۃ عنکبوت میں ” اور تم اہل کتاب سے بحث نہ کرو لیکن اس طریقہ سے جو اچھا ہو یعنی نرمی کے ساتھ اللہ کے پیغمبروں اور اس کی کتابوں کا ادب ملحوظ رکھ کر ان سے بحث کرو “ ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ رات کے وقت ان کے پاس اور سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لے گئے تو ان سے فرمایا: ”تم (رات کو) نماز کیوں نہیں پڑھتے؟“ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! ہماری ارواح اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جب ہمیں اٹھانا چاہتا ہے ہم اٹھتے ہیں جس وقت سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے یہ جواب دیا تو رسول اللہ ﷺ واپس چلے گئے اور انہیں کچھ جواب نہ دیا۔ پھر انہوں نے آپ کو سنا جب آپ اپنی پشت پھیر کر واپس جا رہے تھے اور اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے: ”انسان تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ ) نے کہا: جو رات کے وقت تیرے پاس آئے وہ طارق ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طارق ستارہ ہے۔ اور ثاقب کے معنی ہیں: روشنی کرنے والا آگ سلگانے والے کو کہا جاتا ہے : آگ روشن کردو۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کے عنوان کے پہلے جز سے مطابقت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی رغبت دلائی کہ اٹھ کر اپنے عزم وارادے سے نماز پڑھیں لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قضا وقدر کا سہارا لیا جیسا کہ عام طور پر کوئی عمل نہ کرنے کا بہانہ کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بر موقع بہانہ سازی سن کر تعجب کرتے ہوئے واپس ہوگئے، پھر نیند کا بھی غلبہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ سختی اس لیے نہیں کی کہ نماز تہجد فرض نہ تھی۔ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد عمل کرکے نماز پڑھتے تو اچھا تھا۔ 2۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قول یا فعل سے دفاع کرنا انسان کی فطرت ہے۔ بہرحال حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف غلبہ نیند کے باعث ترک قیام سے عذر خواہی کی تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان نیکی کے کسی کلام میں غفلت کر رہا ہو اسے یاد دلانا مشروع ہے کیونکہ غفلت انسان کی گھٹی میں شامل ہے۔ 3۔کتاب الاعتصام سے اس حدیث کا تعلق یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں بہتر یہی تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر عمل کر کے نماز پڑھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اور تم اہل کتاب سے احسن انداز ہی سے بحث وتکرار کرو۔“¤
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری نے کہا کہ اور مجھ سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا‘ کہا ہم کو عتاب بن بشیر نے خبردی‘ انہیں اسحاق ابن ابی راشد نے‘ انہیں زہری نے‘ انہیں زین العابدین علی بن حسین ؓ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد حسین بن علی ؓ نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب ؓ نے بیان کیا کہ ان کے اور فاطمہ بنت رسول اللہ علیم السلام والصلوٰۃ کے گھر ایک رات آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے۔ علی ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے تو ہم کو اٹھا دے گا۔ جو ںہی میں نے آنحضرت ﷺ سے یہ کہا تو آپ پیٹھ موڑ کر واپس جانے لگے اور کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ”اور انسان بڑا ہی جھگڑالوں ہے۔“ اگر کوئی تمہارے پاس رات میں آئے تو ”طارق“ کہلائے گا اور قرآن میں جو ”والطارق“ کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ستارہ ہے اور ”ثاقب“ بمعنی چمکتا ہوا۔ عرب لوگ آگ جلانے والے سے کہتے ہیں۔ اثقب نارك یعنی آگ روشن کر۔ اس سے لفظ ثاقب ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب بطریق انکار کے نہیں دیا مگر ان سے نیند کی حالت میں یہ کلام نکل گیا‘ اس میں شک نہیں کہ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر اٹھ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھتے تو اور زیادہ افضل ہوتا۔ اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو کہا وہ بھی درست تھا مگر کسی شخص کا جاگنا اور بیدار کرنا بھی اللہ ہی کا جگانا اور بیدار کرنا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس موقع پر کہ کہنا کہ جب اللہ ہم کو جگائے گا تو اٹھیں گے محض مجادلہ اور مکابرہ تھا‘ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے۔ اور تہجد کی نماز کچھ فرض نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مجبور کرتے۔ دوسرے ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے بعد اٹھے ہوں اور تہجد کی نماز پڑھی ہو۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Ali Ibn Abi Talib (RA) : That Allah's Apostle (ﷺ) came to him and Fatima the daughter of Allah's Apostle (ﷺ) at their house at night and said, "Won't you pray?" 'Ali replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Our souls are in the Hands of Allah and when he wants us to get up, He makes us get up." When 'Ali said that to him, Allah's Apostle (ﷺ) left without saying anything to him. While the Prophet (ﷺ) was leaving, 'Ali heard him striking his thigh (with his hand) and saying, "But man is quarrelsome more than anything else." (18.54)