کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” اور وہی غالب ہے ‘ حکمت والا “ ۔اور فرمایا ” اے رسول ! تیرا مالک عزت والا ہے ’ ان باتوں سے پاک ہے جو یہ کافر بناتے ہیں “ اور فرمایا ” عزت اللہ اور اس کے رسول ہی کے لیے ہے “ اور جو شخص اللہ کی عزت اور اس کی دوسری صفات کی قسم کھاتے تو وہ قسم منعقد ہو جائے گی ‘
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “And He is the All-Mighty, the All-Wise.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا تو جہنم کہے گی کہ بس بس تیری عزت کی قسم ! اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ ایک شخص جنت اور دوذخ کے درمیان باقی رہ جائے گا جو سب سے آخری دوزخی ہوگا جسے جنت میں داخل ہونا ہے اور کہے گا اے رب ! میرا چہرہ جہنم سے پھیر دے ‘ تیری عزت کی قسم اس کے سوا اور میں کچھ نہیں مانگوں گا ۔ ابو سعید ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل کہ گا کہ تمہارے لیے یہ ہے اور اس سے دس گنا اور ایوب علیہ السلام نے دعا کی ” اور تیری عزت کی قسم ! کیا میں تیری عنایت اور سر فرازی سے کبھی بے پروا ہو سکتا ہوں “ حضرت امام نے صفات الٰہیہ کا اثبات فرمایا جو معتزلہ کی تردید ہے ۔
7383.
سیدنا بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کہا کرتے تھے: ”اے اللہ ! میں تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تجھے موت نہیں آئے گی جبکہ جن وانس مر جائیں گے۔“
تشریح:
1۔خوفناک چیز سے بھاگ کر کسی بچانے والے کی پناہ میں آنے کو"عوذ" کہا جاتا ہے جبکہ خیر کی تلاش میں تگ ودود کرنے کو "لود" کہتے ہیں۔ استعاذے کی یہی حقیقت ہے کہ ہر شرارتی کی شرارت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر عادت مبارک تھی کہ وہ رب العزت کی پناہ مانگتے تھے اور پناہ لیتے وقت اللہ تعالیٰ کی صفت عزت کا حوالہ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے پناہ مانگنا عبادت بلکہ بہترین عبادت ہے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کے درج ذیل حکم کی تعمیل ہوتی ہے: ’’اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، لہذا تم اسے انھیں ناموں سے پکارا کرو۔‘‘(الأعراف 180/7) 2۔اللہ تعالیٰ کی صفات کی پناہ لینا بھی اس کی قسم اٹھانے کی طرح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اللہ تعالیٰ کی صفت عزت کو ثابت کرنا ہے۔ اس حدیث میں اس کا واضح ثبوت ہے۔
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے صفت عزت کو ثابت کیا ہے کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عزت کے بغیر عزیز ہے جس طرح علم کے بغیر علیم ہے ،اس عنوان سے ان کی تردید مقصود ہے۔(فتح الباری 13/452)عزیز اس ذات کا نام ہے جو عزت تام اور قوت کامل کی مالک ہو جسے کوئی چیز عاجز نہ کرسکے۔کائنات کی ہرچیز پر غالب ہو اور کسی وقت بھی مغلوب نہ ہو۔صفت عزت میں قوت کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :عزیز وہ ہے جو ہمیشہ غالب رہے،کسی وقت بھی مغلوب نہ ہو اور جو عزت اللہ تعالیٰ کی صفت ہے وہ حقیقی ،قابل تعریف اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔بعض اوقات عزت کا لفظ قومی حمیت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔اس وقت کافر اور فاسق کے لیے اس کا اطلاق ہوتا ہے جو کسی صورت میں قابل تعریف نہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ)اور جب اسے کہا جاتا ہے کہ تو اللہ سے ڈرتو اس کا تکبر اور گھمنڈ اسے گناہ پر ابھارتا ہے۔"(البقرہ 2/206) نیز فرمان الٰہی ہے:مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ"جوشخص عزت چاہتا ہے تو عزت تو تمام تر اللہ ہی کے لیے ہے۔"(الفاطر 10/35)اس کا مطلب یہ ہے کہ عزت توصرف اسے ملے گی جو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوکیونکہ تمام ترعزت کاسرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے ثابت کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ)"(تمام تر) عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور اہل ایمان کے لیے ہے۔"(المنافقون 8/63)بعض اوقات لفظ عزت گراں اورصعوبت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:(عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ)"اگرتمھیں تکلیف پہنچے تو رسول پر بڑی گراں گزرتی ہے۔"(التوبہ 128/9)یہ غلبے کے معنی میں بھی مستعمل ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ)"اور گفتگو میں بھی اس نے مجھے دبالیاہے۔"(ص 38/23)بعض اوقات قلت کے معنی بھی دیتاہے۔(فتح الباری 13/452)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں تین آیات کا حوالہ دیا ہے۔پہلی آیت میں العزیز صفت عزت کو مشتمل ہے۔یہ صفت ذات ہے جس کے معنی ہیں:قدرت اور عظمت۔اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ اس صفت سے متصف ہے اور مخلوق کے اعتبار سے یہ صفت فعل ہے جب چاہے وہ اپنی مخلوق کو عزت اور غلبہ دے۔دوسری آیت میں عزت کو رب کی طرف سے منسوب کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں:قہر اورغلبہ۔ممکن ہے کہ رب مالک اورصاحب کے معنی میں ہو،اس صورت میں صفت ذات ہے،یعنی وہ ہمیشہ عزت والاہے۔تیسری آیت میں لفظ عزت غلبے کے معنی میں ہے کیونکہ اس کا پس منظر اس شخص کے دعوے کی تردید ہے جس نے کہا تھا کہ وہ بہت عزت والا ہے اور اس کا مخالف ذلیل تر ہے،اس کی طرح تردید فرمائی کہ عزت اور غلبہ تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور اہل ایمان کے لیے ہے،یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں عزیز ہیں جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ تعالیٰ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور بالضرور میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔بلاشبہ اللہ بڑازورآور سب پر غالب ہے۔"(المجادلہ 21/58)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان والنذور میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب الْحَلِفِ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَصِفَاتِهِ وَكَلَامِهِ)"اللہ کی عزت اور اس کی صفات کی قسم اٹھانا" (صحیح البخاری الایمان والنذور باب رقم 12)دراصل اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم اٹھانا دوطرح سے ہے:الف۔اگر اس سے مراد صفت ذات ہے تو قسم درست ہوگی اور قسم توڑنے کی صورت میں،قسم توڑنے والا حانث،یعنی گناہ گار ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی قسم اٹھانا جائز ہے۔ب۔اگر اس سے مراد صفت فعل ہے جو مخلوق میں پیدا کی جاتی ہے تو اس کی قسم اٹھانا جائز نہیں۔لیکن جب قسم اٹھانے والا مطلق طور پر اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم اٹھائے تو اس سے مراد صفت ذات کی قسم ہوتی ہے بشرط یہ کہ اس کا خلاف مقصود نہ ہو۔(عمدۃ القاری 16/595)حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ روایت کتاب الایمان والنذور میں متصل سند سے گزرچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کا کلام نقل کیا ہے جب اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا تو وہ کہے گا:اے اللہ! مجھے تیری عزت کی قسم!بس بس اب بھر گئی ہوں۔(صحیح البخاری الایمان والنذور حدیث 6661)ہمارے نزدیک جہنم خود کلام کرے گی اور اس وقت اللہ تعالیٰ اس میں بولنے کی قوت پیدا کردے گا۔اس کی وضاحت آئندہ بیان ہوگی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کو بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری الرقاق حدیث 6573)اس حدیث میں ہے کہ وہ آدمی اللہ کی عزت کی قسم اٹھائے گا۔مذکورہ حدیث بیان کرنے میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موافقت کی ہے لیکن دس گناکا اضافہ صرف حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیاہے۔(صحیح البخاری الرقاق حدیث 6574)آخر میں حضرت ایوب علیہ السلام کی قسم کا بیان ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے انھیں صحت دی اور سونے کی ٹڈیاں برسیں تو انھیں اکٹھی کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"کیا میں نے تجھے غنی نہیں کیا؟"اس پر حضرت ایوب علیہ السلام نے مذکورہ جواب دیا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے متصل سند سے بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری الغسل حدیث 279)ان احادیث سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت وعزت اور دیگرصفات کی قسم اٹھانا اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھانے کی طرح ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق نہیں ہیں کیونکہ مخلوق کی قسم اٹھانا شرعاً ناجائز ہے،نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود صفات باری تعالیٰ کو ثابت کرنا اور معتزلہ کی تردید کرنا ہے جو صفات کا انکار یا تاویل کرتے ہیں۔(شرح کتاب التوحید للغنیمان 1/150)
اور انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا تو جہنم کہے گی کہ بس بس تیری عزت کی قسم ! اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ ایک شخص جنت اور دوذخ کے درمیان باقی رہ جائے گا جو سب سے آخری دوزخی ہوگا جسے جنت میں داخل ہونا ہے اور کہے گا اے رب ! میرا چہرہ جہنم سے پھیر دے ‘ تیری عزت کی قسم اس کے سوا اور میں کچھ نہیں مانگوں گا ۔ ابو سعید ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل کہ گا کہ تمہارے لیے یہ ہے اور اس سے دس گنا اور ایوب علیہ السلام نے دعا کی ” اور تیری عزت کی قسم ! کیا میں تیری عنایت اور سر فرازی سے کبھی بے پروا ہو سکتا ہوں “ حضرت امام نے صفات الٰہیہ کا اثبات فرمایا جو معتزلہ کی تردید ہے ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کہا کرتے تھے: ”اے اللہ ! میں تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تجھے موت نہیں آئے گی جبکہ جن وانس مر جائیں گے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔خوفناک چیز سے بھاگ کر کسی بچانے والے کی پناہ میں آنے کو"عوذ" کہا جاتا ہے جبکہ خیر کی تلاش میں تگ ودود کرنے کو "لود" کہتے ہیں۔ استعاذے کی یہی حقیقت ہے کہ ہر شرارتی کی شرارت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر عادت مبارک تھی کہ وہ رب العزت کی پناہ مانگتے تھے اور پناہ لیتے وقت اللہ تعالیٰ کی صفت عزت کا حوالہ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے پناہ مانگنا عبادت بلکہ بہترین عبادت ہے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کے درج ذیل حکم کی تعمیل ہوتی ہے: ’’اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، لہذا تم اسے انھیں ناموں سے پکارا کرو۔‘‘(الأعراف 180/7) 2۔اللہ تعالیٰ کی صفات کی پناہ لینا بھی اس کی قسم اٹھانے کی طرح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اللہ تعالیٰ کی صفت عزت کو ثابت کرنا ہے۔ اس حدیث میں اس کا واضح ثبوت ہے۔
ترجمۃ الباب:
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”دوزخ کہے گی: قط،قط تیری عزت کی قسم!“ ¤سیدنا ابو ہریرہؓ کرتے ہیں کہ : نبی ﷺ نے فرمایا: ”جنت اور دوزخ کے درمیان ایک آدمی باقی رہ جائے گا جو سب سے آخر میں جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہوگا۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میرا چہرہ دوزخ سے ایک طرف کردے۔ مجھے تیری عزت کی قسم! اس کے علاوہ تجھ سے کوئی سوال نہیں کروں گا۔“ ¤
سیدنا ابو سعید خدری ؓ کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا :تیرے لیے جنت کا یہ مقام اور اس سے دس گنا مزید ہے“ ¤سیدنا ایوب علیہ السلام نے کہا: ”اے اللہ! مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیری برکت سے بے نیاز نہیں ہوں۔“ ¤ وضاحت: یہ تمام روایات صحیح بخاری ہی میں متصل سند سے مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے اللہ تعالیٰ کی صفت عزت اور اس کی قسم اٹھانے کا جواز ثابت کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حسین معلم نے بیان کیا‘ ان سے عبد اللہ بن بریدہ نے‘ ان سے یحییٰ بن یعمر نے اور انہیں ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کہا کرتے تھے۔ ”تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں کہ کوئی معبود تیرے سوا نہیں‘ تیری ایسی ذات ہے جسے موت نہیں اور جن وانس فنا ہو جائیں گے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) used to say, "I seek refuge (with YOU) by Your 'Izzat, None has the right to be worshipped but You Who does not die while the Jinns and the human beings die."