کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” اور اللہ بہت سننے والا ‘ بہت دیکھنے والا ہے ۔ “
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “And Allah is Ever All-Hearer, All-Seer.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اعمش نے تمیم سے بیان کیا ‘ ان سے عروہ بن زبیر نے ‘ ان سے عائشہؓ نے کہ انہوں نے کہا ساری حمد اسی اللہ کے لیے سزا وار ہے جو تمام آوازوں کو سنتا ہے پھر خولہ بنت ثعلبہ کا قصہ بیان کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اللہ تعالیٰ نے اس کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑا کرتی تھی۔ “
7386.
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، جب ہم کسی پہاڑ کی بلندی پر چڑھتے تو بآواز بلند ”اللہ اکبر“ کہتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! اپنے آپ پر رحم کھاؤ! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ تم سب کچھ سننے والے خوب دیکھنے والے اور بہت زیادہ قریب رہنے والے کو بلا رہے ہو۔“ پھر آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں اپنے دل میں ”اَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ“ کہہ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: اے عبداللہ بن قیس ! تم لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ یا آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہاری (جنت کے خزانے کی طرف ) رہنمائی نہ کروں؟“
تشریح:
1۔اللہ تعالیٰ غائب نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہرآواز کو سن رہا ہے۔ وہ اس قدر دور نہیں کہ اسے بآواز بلند پکارنے کی ضرورت پیش آئے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو (انھیں کہہ دو کہ )میں قریب ہوں۔ پکارنے والی کی دعا قبول کرتا ہوں وہ جب بھی مجھے پکارے۔‘‘(البقرہ:186) آواز کیا چیز ہے وہ تو دل کی بات اور آنکھ کی خیانت کو جانتا ہے اسی لیے فرمایا: تم سب کچھ سننے والے دیکھنے والے اور انتہائی قریب رہنے والے کو پکارتے ہو۔ بندہ بھی ان صفات سے متصف ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ہم نے اسے (انسان کو) خوب سننے والا دیکھنے والا بنایا ہے۔‘‘(الدہر76۔2) لیکن بندے کے سمع اور بصر ناقص ہیں جو دور سے سن نہیں سکتا بلکہ قریب بھی اگر پردہ یا اوٹ حائل ہو تو اس کی سماعت و بصارت کام نہیں آتی لیکن اللہ تعالیٰ کامل پر ان صفات سے متصف ہے اس کی سمع سے کوئی حرکت فوت نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی پوشیدہ ہو۔ وہ رات کے اندھیرے میں سفید پتھر پر چلنے والی چیونٹی کے قدموں کی آہٹ کو سنتا ہے بلکہ اس سے بھی مخفی چیزوں کو سنتا ہے۔ سانس کی آمدو رفت سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ اسے بھی سنتا ہے جبکہ خود انسان اسے نہیں سن سکتا۔ اس کی بصر کائنات کی تمام حرکات و سکنات کو دیکھتی ہے۔ اتنا انسان کسی انسان کے قریب نہیں جتنا اللہ تعالیٰ اس کے قریب ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ہم تو اس کی شاہ رگ (رگ جان) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘(ق:50۔16) 2۔ واضح رہے کہ یہ قرب علم اور قدرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ذات باری تعالیٰ مستوی علی العرش ہے۔ بعض جہلاء نے اس قسم کی آیات سے یہ فلسفہ کشید کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ بذات خود موجود ہے پھر انھوں نے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود جیسی ناپاک اصطلاحات بنا ڈالیں۔ کچھ لوگوں نے ایک قدم آگے بڑھا دیا کہ حضرات ا نبیاء علیہم السلام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہر جگہ موجود ہیں اور لوگوں نے اپنے پیروں اور مرشدوں کے ہر جگہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے کے متعلق ہم آئندہ تفصیل سے بحث کریں گے۔ 3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی مذکورہ صفات کے پیش نظر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: تم اپنے آپ پر رحم کرو اور ترس کھاؤ۔ نعرہ تکبیرکہتے وقت اپنی آوازوں کو اس قدر اونچا کرنے کا تکلف نہ کرو۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جس ذات کی تم کبریائی اورتسبیح بیان کرتے ہو وہ سمیع اور بصیرہے۔ وہ اللہ پوشیدہ آواز کو بھی اسی طرح سنتا ہے جس طرح اونچی آواز کو سنتا ہے اور مخفی اشیاء کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح سر عام پڑی چیز کو دیکھتا ہے۔ اس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 191/1)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اللہ تعالیٰ کی دو صفات "سمع"اور بصر"کو ثابت کیا ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی تمام صفات بھی کاملہ ہیں۔ان میں کسی قسم کا کوئی نقص یا عیب نہیں ہے۔ ان صفات کاملہ میں سے ایک صفت سمع اور دوسری بصر ہے اس بنا پر اس کے صفاتی نام سمیع اور بصیر قرآنی آیات میں آئےہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غیر اللہ کے معبود ہونے کا ابطال اس دلیل سے کیا کہ وہ سمع اور بصر سے محروم ہیں چنانچہ آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کو مخاطب کر کے فرمایا:"اے میرے باپ! تو اس چیز کی عبادت کیوں کرتا ہے جونہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تجھے کوئی فائدہ ہی پہنچا سکتی ہے۔"(مریم:19۔42)اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ذات کا سمع اور بصرسے محروم ہونا اس کے عجز اور نقص پر دلالت کرتا ہے۔ اگر مخلوق میں کچھ صفات کمال ہیں تو محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اس میں مخلوق کی ذاتی کوشش کوکوئی دخل نہیں۔بہر حال سمع اور بصر اللہ تعالیٰ کے لیے اعلیٰ درجے کی صفات ہیں جو مبنی بر حقیقت اور کمال و مدح پر مشتمل ہیں۔ اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صفات باری کے متعلق دو غالی فرقوں کی تردید کی ہے معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سمع کے بغیر سمع اور بصر کے بغیر بصیر ہے کیونکہ سمع کان کی جھلی سے آواز کی لہروں کے ٹکراجانے کا نام ہے اور بصر آنکھ کی شعاع کا بالمقابل چیز پر پڑنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ایسی چیزوں کا ثابت کرنا اس کی شان کے خلاف ہے۔کچھ لوگوں نے ان صفات کی تاویل کی ہے کہ وہ جاننے والا ہے یعنی سننے اور دیکھنے سے مراد اشیاء کے بارے میں معلومات رکھتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں گروہوں کی تردید فرمائی ہے معتزلہ کی تردید اس طرح ہے کہ کان کی جھلی سے آواز کے ٹکرانے سے صفت سمع کا پیدا ہونا اور آنکھ کی شعاع کا سامنے کی چیز پر پڑنے سے صفت بصر کا وجود میں آنا یہ مخلوق کے لیے ہے کہ وہ ان صفات کے لیے اسباب اور ذرائع کی محتاج ہے جبکہ اللہ تعالیٰ آواز کے ٹکرانے اور شعاعوں کے نکلنے سے پاک ہے۔ وہ ان کے بغیر سنتا اور دیکھتا ہے۔ اسی طرح دوسرے گروہ کے مطابق لازم آتا ہے کہ نابینا اور بہرہ رب العالمین کے مساوی ہو کیونکہ نابینا جانتا ہے کہ آسمان نیلا ہے، حالانکہ وہ دیکھتا نہیں ہے اور بہرہ جانتا ہے کہ کائنات میں آوازیں ہیں حالانکہ وہ انھیں سنتا نہیں اس بنا پر یہ عقیدہ ظاہر البطلان ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ سمع اور بصیر کے عالم ہونے کے علاوہ ایک زائد معنی کو ثابت کیا جائے اور وہ سمع اور بصر ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سمع وہ ہوتا ہے جو کان کے ذریعے سے مسموعات کو سنے اور بصیر وہ ہوتا ہے جو آنکھ کے ذریعے سے کسی مرئی چیز کو دیکھے یہ دونوں صفات اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا)پڑھا اور اپنے انگوٹھے کو کان پر اور ساتھ والی انگلی کو اپنی آنکھ پر رکھا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتےہوئے دیکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اپنی انگلیاں کان اور آنکھ پر کھی تھیں۔(سنن ابی داودالسنۃ حدیث4728)اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے نیز اللہ تعالیٰ کی آنکھ اور کان ہیں ان صفات کے معنی"جاننے والا" نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ثابت کرنے کے لیے دل کی طرف اشارہ کرتے جو علم کا محل ہے لیکن اپ نے ایسا نہیں کیا ہے۔(فتح الباری:13/456)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مذکورہ روایت کو امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متصل سند سے ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس کے کانوں نے ہر قسم کی آوازوں کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ایک جھگڑنے والی (حضرت خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا )آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی معاملے میں جھگڑنے لگی ۔میں گھر کے ایک کونے میں موجود تھی لیکن مجھے اس کی بات سنائی نہ دیتی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کو سن کر یہ آیت نازل فرمائی ۔(مسند احمد6/46)اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت "سمع"ثابت ہے اسی طرح ایک حدیث میں صفت بصر کی بھی صراحت ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ کے حجاب نور ہیں اگر وہ انھیں دور کردے تو اس کے چہرے کی کرنیں اس کی حد بصر تک مخلوق کی ہر چیز کو جلا کر راکھ بنا دیں۔"(صحیح مسلم الایمان حدیث:445(179)ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین صفات باری تعالیٰ کے سلسلے میں نصوص کے ظاہری معنی پر ایمان لائے۔انھوں نے ان کی کوئی تاویل نہیں کی اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ بھی یہی ہے کہ انھیں مبنی بر حقیقت تسلیم کیا جائے کیونکہ اگر اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا موقف غلط ہوتا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول انھیں ضرور متنبہ کرتے اور انھیں صحیح راستہ اختیار کرنے کے متعلق کہا جاتا۔لیکن کسی صحیح یا ضعیف حدیث میں ان کے متعلق کوئی تاویل منقول نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صفات کے متعلق تاویل کا سہارا لینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج نہیں اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین یا تابعین عظام ہی نے اسے اختیار کیا ہے۔"شرح کتاب التوحید للغنیمان 1/189)
اور اعمش نے تمیم سے بیان کیا ‘ ان سے عروہ بن زبیر نے ‘ ان سے عائشہؓ نے کہ انہوں نے کہا ساری حمد اسی اللہ کے لیے سزا وار ہے جو تمام آوازوں کو سنتا ہے پھر خولہ بنت ثعلبہ کا قصہ بیان کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اللہ تعالیٰ نے اس کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑا کرتی تھی۔ “
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، جب ہم کسی پہاڑ کی بلندی پر چڑھتے تو بآواز بلند ”اللہ اکبر“ کہتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! اپنے آپ پر رحم کھاؤ! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ تم سب کچھ سننے والے خوب دیکھنے والے اور بہت زیادہ قریب رہنے والے کو بلا رہے ہو۔“ پھر آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں اپنے دل میں ”اَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ“ کہہ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: اے عبداللہ بن قیس ! تم لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ یا آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہاری (جنت کے خزانے کی طرف ) رہنمائی نہ کروں؟“
حدیث حاشیہ:
1۔اللہ تعالیٰ غائب نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہرآواز کو سن رہا ہے۔ وہ اس قدر دور نہیں کہ اسے بآواز بلند پکارنے کی ضرورت پیش آئے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو (انھیں کہہ دو کہ )میں قریب ہوں۔ پکارنے والی کی دعا قبول کرتا ہوں وہ جب بھی مجھے پکارے۔‘‘(البقرہ:186) آواز کیا چیز ہے وہ تو دل کی بات اور آنکھ کی خیانت کو جانتا ہے اسی لیے فرمایا: تم سب کچھ سننے والے دیکھنے والے اور انتہائی قریب رہنے والے کو پکارتے ہو۔ بندہ بھی ان صفات سے متصف ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ہم نے اسے (انسان کو) خوب سننے والا دیکھنے والا بنایا ہے۔‘‘(الدہر76۔2) لیکن بندے کے سمع اور بصر ناقص ہیں جو دور سے سن نہیں سکتا بلکہ قریب بھی اگر پردہ یا اوٹ حائل ہو تو اس کی سماعت و بصارت کام نہیں آتی لیکن اللہ تعالیٰ کامل پر ان صفات سے متصف ہے اس کی سمع سے کوئی حرکت فوت نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی پوشیدہ ہو۔ وہ رات کے اندھیرے میں سفید پتھر پر چلنے والی چیونٹی کے قدموں کی آہٹ کو سنتا ہے بلکہ اس سے بھی مخفی چیزوں کو سنتا ہے۔ سانس کی آمدو رفت سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ اسے بھی سنتا ہے جبکہ خود انسان اسے نہیں سن سکتا۔ اس کی بصر کائنات کی تمام حرکات و سکنات کو دیکھتی ہے۔ اتنا انسان کسی انسان کے قریب نہیں جتنا اللہ تعالیٰ اس کے قریب ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ہم تو اس کی شاہ رگ (رگ جان) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘(ق:50۔16) 2۔ واضح رہے کہ یہ قرب علم اور قدرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ذات باری تعالیٰ مستوی علی العرش ہے۔ بعض جہلاء نے اس قسم کی آیات سے یہ فلسفہ کشید کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ بذات خود موجود ہے پھر انھوں نے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود جیسی ناپاک اصطلاحات بنا ڈالیں۔ کچھ لوگوں نے ایک قدم آگے بڑھا دیا کہ حضرات ا نبیاء علیہم السلام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہر جگہ موجود ہیں اور لوگوں نے اپنے پیروں اور مرشدوں کے ہر جگہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے کے متعلق ہم آئندہ تفصیل سے بحث کریں گے۔ 3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی مذکورہ صفات کے پیش نظر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: تم اپنے آپ پر رحم کرو اور ترس کھاؤ۔ نعرہ تکبیرکہتے وقت اپنی آوازوں کو اس قدر اونچا کرنے کا تکلف نہ کرو۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جس ذات کی تم کبریائی اورتسبیح بیان کرتے ہو وہ سمیع اور بصیرہے۔ وہ اللہ پوشیدہ آواز کو بھی اسی طرح سنتا ہے جس طرح اونچی آواز کو سنتا ہے اور مخفی اشیاء کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح سر عام پڑی چیز کو دیکھتا ہے۔ اس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 191/1)
ترجمۃ الباب:
امام اعمش ، سیدنا تمیم سے، وہ عروہ سے وہ سیدہ عائشہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس کے کان ہر قسم کی آواز کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی: ”یقیناً اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے متعلق آپ سے جھگڑ رہی تھی۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ایوب سختیانی نے‘ ان سے ابو عثمان نہدی نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور جب ہم بلندی پر چڑھتے تو (زور سے چلا کر) تکبیر کہتے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ لوگو! اپنے اوپر رحم کھاؤ! اللہ بہرا نہیں ہے اور نہ وہ کہیں دور ہے۔ تم تو ایک بہت سننے‘ بہت واقف کار اور قریب رہنے والی ذات کو بلاتے ہو۔ پھر آنحضرت ﷺ میرے پاس آئے۔ میں اس وقت دل میں لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہہ رہا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے فرمایا عبد اللہ بن قیس! لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہا کرو کہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ یا آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتا دوں۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : وہ یہی لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ہے۔ اللہ تعالیٰ غائب نہیں ہے۔ اس کا یہ معنی ہے کہ وہ ہر جگہ ہر چیز کو ہر آواز کو دیکھ اور سن رہا ہے۔ آواز کیا چیز ہے وہ تو دلوں تک کی بات جانتا ہے۔ یہ جو کہا کرتے ہیں اللہ ہر جگہ حاضر وناظر ہے اس کا بھی یہی معنی ہے کہ کوئی چیز اس کا علم اور سمع اور بصرہ سے پوشیدہ نہیں ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے جیسے جہمیہ ملاعنہ سمجھتے ہے کہ اللہ اپنی ذات قدسی صفات سے ہر مکان یا ہر جگہ میں موجود ہے‘ ذات مقدس تو اس کی بالائے عرش ہے مگر اس کا علم اور سمع اور بصر ہر جگہ ہے‘ حضور کا یہی معنی ہے۔ خود امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں اللہ آسمان پر ہے زمین میں نہیں ہے یعنی اس کی ذات مقدس بالائے آسمان اپنے عرش پر ہے اور دین کے کل اماموں کا یہی مذہب ہے جیسے اوپر بیان ہو چکا ہے۔ یہ کلمہ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ عجب پر اثر کلمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کلمے میں یہ اثر رکھا ہے کہ جو کوئی اس کو ہمیشہ پڑھا کرے وہ ہر شر سے محفوظ رہتا ہے۔ ہمارے پیرو مرشد حضرت مجدد کا ختم روزانہ یہی تھا کہ سو سو بار اول وآخر درود شریف پڑھتے اور پانچ سو مرتبہ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ اور دنیا اور آخرت کے تمام مہمات اور مقاصد حاصل ہونے کے لیے یہ بارہ کلمے میں نے تجربہ کئے ہیں جو کوئی ان کو ہر وقت جب فرصت ہو بلا قید عدد پڑھتا رہے ان شاءاللہ تعالیٰ اس کی کل مرادیں پوری ہوں گی۔ ”سبحانَ اللہ وبحمدِہ سبحانَ اللہ العظیمِ۔ اَستغفرُ اللہ، لا اله الا اللہ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ یا رافع یا مُعِز یاغنی یا حی یا قیوم برحمتك أِستغیثُ یا أرحمَ الراحمین لا إله الا انت سبحانكَ إني کنتُ مِنَ الظلمینَ حسبنا اللہ ونعم والوکیل نعم المولیٰ ونعم النصیر۔ ایسا ہوا کہ ایک ملحد بے دین شخص اہل حدیث اور اہل علم کا بڑا دشمن تھا اور اس قدر طاقت ور ہو گیا تھا کہ اس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔ ہر شخص کو خصوصاً دین داروں کو اس کے شر سے اپنی عزت وآبرو سنبھالنا دشوار ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہی کلموں کے طفیل سے اس کا قلع قمع کر دیا اور اپنے بندوں کو راحت دی۔ جب اس کے فی النار والسقر ہونے کی خبر آئی تو دفعتاً یہ مادہ تاریخ دل میں گزرا: چونکہ بو جہل رفت ازدنیا گشتہ تاریخ او بما ذمہ رائے بیروں کن وبیگر حدیث مات فرعون ھذہ الامہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : We were with the Prophet (ﷺ) on a journey, and whenever we ascended a high place, we used to say, "Allahu Akbar." The Prophet (ﷺ) said, "Don't trouble yourselves too much! You are not calling a deaf or an absent person, but you are calling One Who Hears, Sees, and is very near." Then he came to me while I was saying in my heart, "La hawla wala quwwatta illa billah (There is neither might nor power but with Allah)." He said, to me, "O ' Abdullah bin Qais (RA) ! Say, 'La hawla wala quwwata illa billah (There is neither might nor power but with Allah), for it is one of the treasures of Paradise." Or said, "Shall I tell you of it?"