کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: آسمانوں اور زمین اور دوسری مخلوق کے پیدا کرنے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: The creation of the heavens, earth and other created beings)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور یہ پیدا کرنا اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک فعل اور اس کا امر ہے۔ پس اللہ رب العزت اپنی صفات، اپنے فعل اور اپنے امر سمیت خالق ہے، وہی بنانے والا ہے اور غیر مخلوق ہے اور جو چیز بھی اس کے فعل، اس کے امر، اس کی تخلیق اور اس کی تکوین سے بنی ہیں وہ سب مخلوق اور مکون ہیں۔تشریح:یہ باب لا کر امام بخاری نے اہل سنت کا مذہب ثابت کیا ہے کہ اللہ کی صفات خواہ ذاتیہ ہوں جیسے علم ’قدرت‘ خواہ افعالیہ ہوں خلق‘ ترزیق کلام ‘نزول استواء وغیرہ یہ سب غیر مخلوق ہیں اور معتزلہ وجہمیہ کا رد کیا۔امام بخاری نے رسالہ خلق افعال العباد میں لکھا ہے کہ قدریہ تمام افعال کا خالق بشر کو جانتے ہیں اور جبریہ تمام افعال کا خالق اور فاعل خدا کو کہتے ہیں اور جہمیہ کہتے ہیں کہ فعل اور مفعول ایک ہے اسی وجہ سے وہ کلمہ کن کو بھی مخلوق کہتے ہیں اور سلف اہل سنت کا یہ قول ہے کہ تخلیق اللہ کا فعل ہے اور مخلوق ہمارے افعال ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ کے افعال وہ اللہ کی صفات ہیں اللہ کی ذات صفات کے سوا باقی سب چیزیں مخلوق ہیں۔(وحیدی)
7452.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک رات سیدہ میمونہ ؓ کے گھر رہا جبکہ اس رات نبی ﷺ بھی ان کے پاس موجود تھے۔ وہاں رات گزارنے کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز دیکھنا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کچھ وقت اپنی زوجہ محترمہ سے محو گفتگو رہے، پھر سو گئے، جب رات کا آخری تہائی حصہ یا کچھ حصہ باقی رہ گیا تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی: ”بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں (رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں) اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔“ پھر اٹھ کر آپ نے وضو فرمایا اور مسواک کی، اس کے بعد گیارہ رکعتیں پڑھیں۔ پھر سیدنا بلال ؓ نے نماز کے لیے اذان دی تو آپ ﷺ نے دو رکعت (سنت فجر) پڑھیں پھر باہر تشریف لے گئے اور لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی ۔
تشریح:
1۔اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز تہجد کے لیے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین و آسمان کی تخلیق اور ان میں غور و فکر کرنے سے متعلق آیات تلاوت فرمائیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انھی آیات سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے جبکہ مادہ پرست حضرات کا خیال ہے کہ مادے کے اجزا آپس میں ملتے گئے اور کائنات کی ایک ایک چیز کی وجود میں آتی گئی ان کا کوئی خالق نہیں ہائیڈروجن کے ذرات ملنے سے سورج بن گیا اور وہ خود بخود گھومنے لگا پھر اس سے ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ زمین بن گئی دیر تک یہ حصہ پڑا رہنے سے جب ٹھنڈا ہوا تو استعمال کے قابل زمین بن گئی جب زمین نے گھومنا شروع کیا تو اس کا ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ چاند بن گیا اور اسی طرح دوسرے سیارے وجود میں آتے گئے اس طرح محض اتفاق سے کائنات کی ایک ایک چیز بن گئی پھر اتفاق سے یہ کائنات تباہ ہو جائے گی اور تباہی کے بعد پھر اجزا ملنے شروع ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اس موقف سے اتفاق نہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فعل خلق کا ذکر ہے اور اس فعل کا نتیجہ آسمانوں اور زمین کا پیدا ہونا ہے جو مخلوق ہیں اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے اور خلق اس کا فعل ہے جس سے وہ ازل سے متصف ہے اور اس فعل کا تعلق آسمانوں اور زمین سے حادث ہے۔ 2۔ان آیات میں ہے کہ عقل مند لوگ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار کرتے ہیں اور پکار کر عرض کرتے ہیں: (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا)’’اے ہمارےرب!تونے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔‘‘(آل عمران 191) بہر حال کائنات، کائنات کا خالق اور اس کائنات میں انسان کا مقام یہ تینوں ایسی چیزیں ہیں جن میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے اگر ہم نے وحی سے بے نیاز ہو کر ان کے متعلق سوچ بچار کی تو جگہ جگہ ٹھوکریں کھانے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ وحی الٰہی سے پتا چلتا ہے کہ کائنات کا کوئی خالق ہے جو اسےمستحکم اور ٹھوس بنیادوں پر چلا رہا ہے اور یہ بے مقصد نہیں بلکہ ایک اہم مقصد کے لیے اسے وجود میں لایا گیا اور وہ ہے انسان کی خدمت اور انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ کی عبادت ہے اور عبادت کا مفہوم اس قدر وسیع اور جامع ہے کہ اس میں ہر طرح کے شرک کارد توحید کی اہمیت قانون سزاوجزا جنت و دوزخ بلکہ پوری کی پوری شریعت اس میں آ جاتی ہے۔
اور یہ پیدا کرنا اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک فعل اور اس کا امر ہے۔ پس اللہ رب العزت اپنی صفات، اپنے فعل اور اپنے امر سمیت خالق ہے، وہی بنانے والا ہے اور غیر مخلوق ہے اور جو چیز بھی اس کے فعل، اس کے امر، اس کی تخلیق اور اس کی تکوین سے بنی ہیں وہ سب مخلوق اور مکون ہیں۔تشریح:یہ باب لا کر امام بخاری نے اہل سنت کا مذہب ثابت کیا ہے کہ اللہ کی صفات خواہ ذاتیہ ہوں جیسے علم ’قدرت‘ خواہ افعالیہ ہوں خلق‘ ترزیق کلام ‘نزول استواء وغیرہ یہ سب غیر مخلوق ہیں اور معتزلہ وجہمیہ کا رد کیا۔امام بخاری نے رسالہ خلق افعال العباد میں لکھا ہے کہ قدریہ تمام افعال کا خالق بشر کو جانتے ہیں اور جبریہ تمام افعال کا خالق اور فاعل خدا کو کہتے ہیں اور جہمیہ کہتے ہیں کہ فعل اور مفعول ایک ہے اسی وجہ سے وہ کلمہ کن کو بھی مخلوق کہتے ہیں اور سلف اہل سنت کا یہ قول ہے کہ تخلیق اللہ کا فعل ہے اور مخلوق ہمارے افعال ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ کے افعال وہ اللہ کی صفات ہیں اللہ کی ذات صفات کے سوا باقی سب چیزیں مخلوق ہیں۔(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک رات سیدہ میمونہ ؓ کے گھر رہا جبکہ اس رات نبی ﷺ بھی ان کے پاس موجود تھے۔ وہاں رات گزارنے کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز دیکھنا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کچھ وقت اپنی زوجہ محترمہ سے محو گفتگو رہے، پھر سو گئے، جب رات کا آخری تہائی حصہ یا کچھ حصہ باقی رہ گیا تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی: ”بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں (رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں) اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔“ پھر اٹھ کر آپ نے وضو فرمایا اور مسواک کی، اس کے بعد گیارہ رکعتیں پڑھیں۔ پھر سیدنا بلال ؓ نے نماز کے لیے اذان دی تو آپ ﷺ نے دو رکعت (سنت فجر) پڑھیں پھر باہر تشریف لے گئے اور لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی ۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز تہجد کے لیے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین و آسمان کی تخلیق اور ان میں غور و فکر کرنے سے متعلق آیات تلاوت فرمائیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انھی آیات سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے جبکہ مادہ پرست حضرات کا خیال ہے کہ مادے کے اجزا آپس میں ملتے گئے اور کائنات کی ایک ایک چیز کی وجود میں آتی گئی ان کا کوئی خالق نہیں ہائیڈروجن کے ذرات ملنے سے سورج بن گیا اور وہ خود بخود گھومنے لگا پھر اس سے ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ زمین بن گئی دیر تک یہ حصہ پڑا رہنے سے جب ٹھنڈا ہوا تو استعمال کے قابل زمین بن گئی جب زمین نے گھومنا شروع کیا تو اس کا ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ چاند بن گیا اور اسی طرح دوسرے سیارے وجود میں آتے گئے اس طرح محض اتفاق سے کائنات کی ایک ایک چیز بن گئی پھر اتفاق سے یہ کائنات تباہ ہو جائے گی اور تباہی کے بعد پھر اجزا ملنے شروع ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اس موقف سے اتفاق نہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فعل خلق کا ذکر ہے اور اس فعل کا نتیجہ آسمانوں اور زمین کا پیدا ہونا ہے جو مخلوق ہیں اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے اور خلق اس کا فعل ہے جس سے وہ ازل سے متصف ہے اور اس فعل کا تعلق آسمانوں اور زمین سے حادث ہے۔ 2۔ان آیات میں ہے کہ عقل مند لوگ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار کرتے ہیں اور پکار کر عرض کرتے ہیں: (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا)’’اے ہمارےرب!تونے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔‘‘(آل عمران 191) بہر حال کائنات، کائنات کا خالق اور اس کائنات میں انسان کا مقام یہ تینوں ایسی چیزیں ہیں جن میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے اگر ہم نے وحی سے بے نیاز ہو کر ان کے متعلق سوچ بچار کی تو جگہ جگہ ٹھوکریں کھانے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ وحی الٰہی سے پتا چلتا ہے کہ کائنات کا کوئی خالق ہے جو اسےمستحکم اور ٹھوس بنیادوں پر چلا رہا ہے اور یہ بے مقصد نہیں بلکہ ایک اہم مقصد کے لیے اسے وجود میں لایا گیا اور وہ ہے انسان کی خدمت اور انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ کی عبادت ہے اور عبادت کا مفہوم اس قدر وسیع اور جامع ہے کہ اس میں ہر طرح کے شرک کارد توحید کی اہمیت قانون سزاوجزا جنت و دوزخ بلکہ پوری کی پوری شریعت اس میں آ جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
یہ تخلیق اللہ تعالیٰ کا فعل اور اس کا امر ہے لہذا اللہ تعالیٰ اپنی صفات فعل اور امر سمیت خالق اور مکون ہے مخلوق نہیں۔ اور جوکچھ اس کے فعل ،امر تخلیق اور تکوین کے سبب پیدا ہوا وہ مفعول مخلوق اور مکون ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے خبر دی، انہیں کریب نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ایک رات میں نے ام المؤمنین میمونہ ؓ کے گھر گزاری اس رات نبی کریم ﷺ انہیں کے پاس تھے۔ میرا مقصد رات میں نبی کریم ﷺ کی نماز دیکھنا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے تھوڑی دیر تو اپنی اہلیہ کے ساتھ بات چیت کی پھر سو گئے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ یا بعض حصہ باقی رہ گیا تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی (إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ) بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں عقل رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں پھر اٹھ کر آپ نے وضو کیا اور مسواک کی، پھر گیارہ رکعتیں پڑھیں، پھر بلال ؓ نے نماز کے لیے اذان دی اور آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر باہر آ گئے اور لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
آیت (إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ) میں اللہ تعالیٰ نےآسمان وزمین کی پیدائش اوراس میں غورکرنے کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ میں اختلاف ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ نےان کو بھی قدیم کہا ہے اور اشعری اور محقیقین اہل حدیث کہتے ہیں کہ صفات فعلیہ جیسے کلام، نزول، استواء تکوین وغیرہ یہ سب حادث ہیں اور ان کے حدوث سےپروردگار کا حدوث لازم نہیں آتا اور یہ قاعدہ فلاسفہ کا باندھا ہوا کہ حوادث کا محل بھی حادث ہوتا ہے محض غلط اور لغو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بے شمار کام کرتا ہے۔ فرمایا: (کل یوم ھو فی شان) پھر کیا اللہ حادث ہے ہرگز نہیں وہ قدیم ہے اب جن لوگوں نے صفات کو بھی قدیم کہا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ اصل صفت قدیم ہے مگر اس کا تعلق حادث ہے۔ مثلا خلق کی صفت قدیم ہے لیکن زید سے اس کا تعلق حادث ہے اسی ح صفت استواء قدیم ہے مگر عرش سے اس کا تعلق حادث ہے۔ ام المؤمنین حضرت میمونہ ؓ ام الفضل حضرت عباس ؓ کی بیوی کی بہن ہیں جو بیوہ ہوگئی تھیں بعد میں خود حضرت عباس کی درخواست پر ان کا حرم نبوی میں داخلہ ہوا۔ نکاح خود حضرت عباس ؓ نے پانچ سو درہم مہر پر کیا۔ یہ حضور ﷺ کا آخری نکاح تھا جوماہ ذی القعدہ سنہ 7ھ میں بمقام سرف ہوا۔ بہت ہی نیک خدا ترس خاتون تھیں۔ سنہ 51ھ میں بمقام سرف ہی انتقال فرمایا اور اسی جگہ دفن ہوئیں۔عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میمونہ ؓ صالحہ اور نیک نام اور ہم سب سے زیادہ تقویٰ والی تھیں۔ وہ اپنے قرابت داروں سے بہت سلوک کرتی تھیں۔ رضي اللہ عنها و أرضاھا (آمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : Once I stayed overnight at the house of (my aunt) Maimuna while the Prophet (ﷺ) was with her, to see how was the night prayer of Allah s Apostle (ﷺ) Allah's Apostle (ﷺ) talked to his wife for a while and then slept. When it was the last third of the night (or part of it), the Prophet (ﷺ) got up and looked towards the sky and recited the Verse:-- 'Verily! In the creation of the Heavens and the Earth....there are indeed signs for the men of understanding.' (3.190) Then He got up and performed the ablution, brushed his teeth and offered eleven Rakat. Then Bilal (RA) pronounced the Adhan whereupon the Prophet (ﷺ) offered a two-Rak'at (Sunna) prayer and went out to lead the people in Fajr (morning compulsory congregational prayer.