کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ النحل میں ) کہ ہم تو جب کوئی چیز بنانا چاہتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں ہو جا وہ ہو جاتی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Verily! Our Word unto a thing when We intend it.…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7460.
سیدنا معاویہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اسے جھٹلانے والے اورد یگر مخالفین کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر یعنی قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔“ مالک بن یخامر نے کہا: میں نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ یہ گروہ شام میں ہوگا اس پر سیدنا معاویہ نے کہا: یہ مالک بن یخامر، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتا کہ وہ گروہ شام میں ہوگا۔
تشریح:
1۔مذکورہ احادیث میں حق پر قائم رہنے والے جس گروہ کا ذکر ہےدیگراحادیث میں ان کے دستور العمل کی وضاحت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ وہ میرے اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے راستے پر چلنے والے ہوں گے۔ (جامع الترمذي، الإیمان، حدیث: 2641) 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے۔ ’’یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا۔‘‘ کو دلیل بنایا ہے۔ اس سے مراد وہ کونی اور قدری امر ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے فیصلہ کیا جیسا کہ صحیح مسلم کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے پھر اس تقدیر کے فیصلے کو اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی فرمایی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو اس کی تعلیم دیں۔ جب اس کا وقت آپہنچے گا تو اللہ تعالیٰ کلمہ کن سے اسے برپا کر دے گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ امر اس کی صفات میں سے ہے اور غیر مخلوق ہے۔ یہ امر اور اللہ تعالیٰ کا قول دونوں ایک ہی چیزیں ہیں اور قیامت اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جو کلمہ کن کے اثرات سے قائم ہو گی۔ علامہ ابن بطال فرماتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد معتزلہ کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ امر مخلوق ہے۔ ان کا موقف علمائے سلف کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:549/13)
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کو ثابت فرمایا ہے۔نیز اشارہ کیا کہ ذات باری تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ کسی چیز کو پیدا کرنے سے پہلے"کن"کہا جاتا ہے اس لیے کن اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ اگر یہ کلمہ بھی مخلوق ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق کو مخلوق سے پیدا کیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ کر لینا ہی اس کا حکم دینا ہے اسے اپنی زبان سے کن لفظ ادا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"بس اس کا حکم جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے(یہ ہوتا ہے)کہ اسے کہتاہے۔" ہوجا"تو وہ ہو جاتی ہے۔"(یٰس36۔82)اس سے معلوم ہوا کہ اس کا ارادہ ہی حکم کا درجہ رکھتا ہےاور جب وہ ارادہ کرتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے اسباب و ذرائع از خود ہی مہیا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ کام ہو کے رہتا ہے کوئی بھی چیز اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اور جتنے عرصے میں اللہ تعالیٰ اسے و جودمیں لانا چاہتا ہے اتنےہی عرصے میں وہ وجود میں آجاتی ہے۔ نیز معلوم ہوا کہ قول اور امر دونوں سے ایک ہی چیز مراد ہے۔
سیدنا معاویہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اسے جھٹلانے والے اورد یگر مخالفین کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر یعنی قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔“ مالک بن یخامر نے کہا: میں نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ یہ گروہ شام میں ہوگا اس پر سیدنا معاویہ نے کہا: یہ مالک بن یخامر، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتا کہ وہ گروہ شام میں ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
1۔مذکورہ احادیث میں حق پر قائم رہنے والے جس گروہ کا ذکر ہےدیگراحادیث میں ان کے دستور العمل کی وضاحت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ وہ میرے اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے راستے پر چلنے والے ہوں گے۔ (جامع الترمذي، الإیمان، حدیث: 2641) 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے۔ ’’یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے گا۔‘‘ کو دلیل بنایا ہے۔ اس سے مراد وہ کونی اور قدری امر ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے فیصلہ کیا جیسا کہ صحیح مسلم کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے پھر اس تقدیر کے فیصلے کو اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی فرمایی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو اس کی تعلیم دیں۔ جب اس کا وقت آپہنچے گا تو اللہ تعالیٰ کلمہ کن سے اسے برپا کر دے گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ امر اس کی صفات میں سے ہے اور غیر مخلوق ہے۔ یہ امر اور اللہ تعالیٰ کا قول دونوں ایک ہی چیزیں ہیں اور قیامت اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جو کلمہ کن کے اثرات سے قائم ہو گی۔ علامہ ابن بطال فرماتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد معتزلہ کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ امر مخلوق ہے۔ ان کا موقف علمائے سلف کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:549/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جابر نے بیان کیا، کہا مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا، انہوں نے معاویہ ؓ سے سنا، بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ قرآن و حدیث پر قائم رہے گا، اسے جھٹلانے والے اور مخالفین کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، یہاں تک کہ «أمر الله» (قیامت) آ جائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ اس پر مالک بن یخامر نے کہا کہ میں نے معاذ ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ یہ گروہ شام میں ہو گا۔ اس پر معاویہ ؓ نے کہا کہ یہ مالک ؓ کہتے ہیں کہ معاذ ؓ نے کہا تھا کہ یہ گروہ شام میں ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muawiyah: I heard the Prophet (ﷺ) saying, "A group of my followers will keep on following Allah's Laws strictly and they will not be harmed by those who will disbelieve them or stand against them till Allah's Order (The Hour) will come while they will be in that state."