کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ النحل میں ) کہ ہم تو جب کوئی چیز بنانا چاہتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں ہو جا وہ ہو جاتی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Verily! Our Word unto a thing when We intend it.…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7462.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں نبی ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کا سہارا لیے جا رہے تھے۔ اتنے میں ہم یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپس میں کہا: ان سے روح کے متعلق پوچھو۔ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ان سے نہ پوچھو، مبادا ایسا جواب دیں جو تمہیں ناگوار ہو، اس کے باوجود کچھ یہودیوں نے کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: اے ابو القاسم! روح کیا چیز ہے؟ نبی ﷺ اس (کو جواب دینے) سے خاموش رہے تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”وہ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے روح میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔“ اعمش نے کہا : ہماری قراءت میں اسی طرح ہے یعنی أوتوُا۔
تشریح:
1۔ مشہور قراءت میں (وَمَا أُوتِيتُم) ہے یعنی تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا البتہ امام اعمش کی قراءت میں (وَمَا أُوتُوا) یعنی ماضی غائب کا صیغہ ہے اور یہ قراءت شاذ ہے۔ 2۔روح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ فلا سفہ نے اس کے متعلق جو کہا ہے وہ سب تخمینی جو کہا ہے وہ سب تخمینی باتیں ہیں موجود سائنس دانوں کو سخت محنت کے باوجود اس کے متعلق کوئی حقیقی علم نہیں ہو سکا۔ اس وقت کے یہودی اس معقول جواب کو سب کر بالکل خاموش ہو گئے کیونکہ اس جواب نے قیل و قال کا دروازہ ہی بند کر دیا آیت کریمہ میں روح کی حقیقت کو واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک امر رب ہے جب تک وہ کسی حیوان میں ہے اس کی قدر و قیمت ہے اور جب وہ اس سے الگ ہو جاتی ہے تو وہی حیوان بے قدر اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہودیوں کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لیا جائے کیونکہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ روح کی حقیقت کوئی شخص نہیں جانتا اگر یہ حضرت اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو روح کی حقیقت بیان نہیں کریں گے۔ 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث میں ذکر کردہ آیت کریمہ سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کہ روح کا وجود اللہ تعالیٰ کے امر کے مرہون منت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا امر ایک الگ حقیقت ہے جو غیر مخلوق ہے اور روح جو اس کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہے وہ مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کا امر اس روح کی تخلیق سے پہلے موجود تھا البتہ اس امر کا تعلق اس روح سے حادث ہے۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے کلمہ کن سے ہی پیدا کیا ہے۔ یہی بات عنوان میں بیان کی گئی ہے۔
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کو ثابت فرمایا ہے۔نیز اشارہ کیا کہ ذات باری تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ کسی چیز کو پیدا کرنے سے پہلے"کن"کہا جاتا ہے اس لیے کن اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ اگر یہ کلمہ بھی مخلوق ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق کو مخلوق سے پیدا کیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ کر لینا ہی اس کا حکم دینا ہے اسے اپنی زبان سے کن لفظ ادا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"بس اس کا حکم جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے(یہ ہوتا ہے)کہ اسے کہتاہے۔" ہوجا"تو وہ ہو جاتی ہے۔"(یٰس36۔82)اس سے معلوم ہوا کہ اس کا ارادہ ہی حکم کا درجہ رکھتا ہےاور جب وہ ارادہ کرتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے اسباب و ذرائع از خود ہی مہیا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ کام ہو کے رہتا ہے کوئی بھی چیز اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اور جتنے عرصے میں اللہ تعالیٰ اسے و جودمیں لانا چاہتا ہے اتنےہی عرصے میں وہ وجود میں آجاتی ہے۔ نیز معلوم ہوا کہ قول اور امر دونوں سے ایک ہی چیز مراد ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں نبی ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کا سہارا لیے جا رہے تھے۔ اتنے میں ہم یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپس میں کہا: ان سے روح کے متعلق پوچھو۔ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ان سے نہ پوچھو، مبادا ایسا جواب دیں جو تمہیں ناگوار ہو، اس کے باوجود کچھ یہودیوں نے کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: اے ابو القاسم! روح کیا چیز ہے؟ نبی ﷺ اس (کو جواب دینے) سے خاموش رہے تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”وہ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے روح میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔“ اعمش نے کہا : ہماری قراءت میں اسی طرح ہے یعنی أوتوُا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مشہور قراءت میں (وَمَا أُوتِيتُم) ہے یعنی تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا البتہ امام اعمش کی قراءت میں (وَمَا أُوتُوا) یعنی ماضی غائب کا صیغہ ہے اور یہ قراءت شاذ ہے۔ 2۔روح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ فلا سفہ نے اس کے متعلق جو کہا ہے وہ سب تخمینی جو کہا ہے وہ سب تخمینی باتیں ہیں موجود سائنس دانوں کو سخت محنت کے باوجود اس کے متعلق کوئی حقیقی علم نہیں ہو سکا۔ اس وقت کے یہودی اس معقول جواب کو سب کر بالکل خاموش ہو گئے کیونکہ اس جواب نے قیل و قال کا دروازہ ہی بند کر دیا آیت کریمہ میں روح کی حقیقت کو واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک امر رب ہے جب تک وہ کسی حیوان میں ہے اس کی قدر و قیمت ہے اور جب وہ اس سے الگ ہو جاتی ہے تو وہی حیوان بے قدر اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہودیوں کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لیا جائے کیونکہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ روح کی حقیقت کوئی شخص نہیں جانتا اگر یہ حضرت اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو روح کی حقیقت بیان نہیں کریں گے۔ 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث میں ذکر کردہ آیت کریمہ سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کہ روح کا وجود اللہ تعالیٰ کے امر کے مرہون منت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا امر ایک الگ حقیقت ہے جو غیر مخلوق ہے اور روح جو اس کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہے وہ مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کا امر اس روح کی تخلیق سے پہلے موجود تھا البتہ اس امر کا تعلق اس روح سے حادث ہے۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے کلمہ کن سے ہی پیدا کیا ہے۔ یہی بات عنوان میں بیان کی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ بن قیس نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ اپنے ہاتھ کی چھڑی کا سہارا لیتے جاتے تھے، پھر ہم یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو ان لوگوں نے آپس میں کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ کچھ یہودیوں نے مشورہ دیا کہ نہ پوچھو، کہیں کوئی ایسی بات نہ کہیں جس کا (ان کی زبان سے سننا) تم پسند نہ کرو۔ لیکن بعض نے اصرار کیا کہ نہیں! ہم پوچھیں گے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے اٹھ کر کہا: اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ نبی کریم ﷺ اس پر خاموش ہو گئے۔ میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی (وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتُوا مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا)اور لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تمہیں اس کا علم بہت تھوڑا دیا گیا ہے۔ اعمش نے کہا کہ ہماری قرآت میں اسی طرح ہے۔
حدیث حاشیہ:
مشہورقراءت میں وما أوتیتم ہے۔ روح کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا وہ حقیقت ہے کہ اس قدر کدو کاوش کے باوجود آج تک دنیا کو روح کا حقیقی علم نہ ہو سکا۔ یہودی اس معقول جواب کو سن کر بالکل خاموش ہوگئے کیونکہ آگے قیل وقال کا دروازہ ہی بند کر دیا گیا۔ آیت (قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي) میں روح کی حقیقت کو واضح کر دیا گیا کہ وہ جاندار بے قدر و بے قیمت ہوکر رہ جاتا ہے۔ روح کے بارے میں فلاسفہ اور موجودہ سائنس دانوں نے حو کچھ کہا ہے وہ سب تخمینی باتیں ہیں چونکہ یہ سلسلہ ذکرروح حدیث میں امر رب کا ذکر ہے اسی لیے اس حدیث کو یہاں لایا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Mas'ud (RA): While I was walking in company with the Prophet (ﷺ) in one of the fields of Medina, the Prophet (ﷺ) was reclining on a palm leave stalk which he carried with him. We passed by a group of Jews. Some of them said to the others, "Ask him about the spirit." The others said, "Do not ask him, lest he would say something that you hate." Some of them said, "We will ask him." So a man from among them stood up and said, 'O Abal-Qasim! What is the spirit?" The Prophet (ﷺ) kept quiet and I knew that he was being divinely inspired. Then he said: "They ask you concerning the Spirit, Say: The Spirit; its knowledge is with my Lord. And of knowledge you (mankind) have been given only a little." (17.85)