کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: مشیت اور ارادہ خداوندی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: (Allah’s) Wish and Will)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ نے(سورۃ انفطرت میں)فرمایا”تم کچھ نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ نہ چاہے“اور(سورۃ آل عمران میں)فرمایا کہ”وہ اللہ جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے“اور(سورۃ الکہف میں)فرمایا”اور تم کسی چیز کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں مگر یہ کہ اللہ چاہے“اور(سورۃ قصص میں)فرمایا کہ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے“سعید بن مسیب نے اپنے والد سے کہا کہ جناب ابوطالب کے بارے میں یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اور(سورۃ البقرہ میں)فرمایا کہ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔‘‘ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ مشیت اور ارادہ دونوں ثابت کریں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں جب کہ آیت قرآنی لما فعال لما یرید اور فعل اللہ مایشاء سے ثابت ہوتا ہے مذکورہ آیات سے مشیت الٰہی اور ارادہ دونوں کو ایک ہی ثابت کیا گیا ہے۔
7472.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ مسلمان نے قسم کھاتے ہوئے کہا: اس ذات کی قسم جس نے سیدنا محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر بزرگی دی! یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے سیدنا موسیٰ ؑ کو تمام اہل جہاں پر منتخب کیا! تب مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس شکایت لے کر آیا اور اس نے اپنا اور مسلمان کا معماملہ پیش کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو کیونکہ لوگ قیامت کے دن بے ہوش ہو جائیں گے اور میں ہی سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ ان لوگوں سے ہوں گے جو بے ہوش ہوئے ہوں لیکن مجھ سے پہلے انہیں ہوش آگیا ہو، یا اللہ تعالیٰ نے انہیں بے ہوش ہونے سے مستشنیٰ کر دیا تھا؟“
تشریح:
1۔حضرت انبیاء علیہم السلام کے درجات میں باہمی تفاوت کو خود اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’یہ رسول ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور کچھ وہ ہیں جن کے درجات بلند کیے۔‘‘(البقرة:253) نیز فرمایا: ’’ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘(بني إسرائیل 55) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سرداروہوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 5940(2278) مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع اور انکسار کے طور پر فرمایا یا اس کا مطلب یہ ہے کہ میری اس طرح فضیلت ثابت نہ کرو جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توہین کا پہلو نمایاں ہو۔ 2۔اس حدیث کے آخر میں ایک استثناء کا ذکر ہے جس کی وضاحت درج ذیل آیت کریمہ میں ہے۔ ’’اور صور میں پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانی اور زمین میں مخلوق ہو گی۔سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ (بچانا) چاہے گا۔‘‘(الزمر39۔68) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہو گی جو بے ہوش نہیں ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس بے ہوشی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ شاید وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے ہوں یا وہ بے ہوش ہوئے ہی نہ ہوں اس لیے کہ وہ دنیا میں ایک بار بے ہوش ہو چکے تھے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مشیت الٰہی کو ثابت کیا ہے۔ کہ وہ عام ہے اور کائنات کی ہر چیز کو شامل ہے۔
اور اللہ نے (سورۃ انفطرت میں) فرمایا ”تم کچھ نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ نہ چاہے“ اور (سورۃ آل عمران میں) فرمایا کہ ”وہ اللہ جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے“ اور (سورۃ الکہف میں) فرمایا”اور تم کسی چیز کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں مگر یہ کہ اللہ چاہے“ اور (سورۃ قصص میں) فرمایا کہ ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے“ سعید بن مسیب نے اپنے والد سے کہا کہ جناب ابوطالب کے بارے میں یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اور (سورۃ البقرہ میں) فرمایا کہ ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔‘‘ تشریح:اس باب کو لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ مشیت اور ارادہ دونوں ثابت کریں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں جب کہ آیت قرآنی لما فعال لما یرید اور فعل اللہ مایشاء سے ثابت ہوتا ہے مذکورہ آیات سے مشیت الٰہی اور ارادہ دونوں کو ایک ہی ثابت کیا گیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ مسلمان نے قسم کھاتے ہوئے کہا: اس ذات کی قسم جس نے سیدنا محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر بزرگی دی! یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے سیدنا موسیٰ ؑ کو تمام اہل جہاں پر منتخب کیا! تب مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس شکایت لے کر آیا اور اس نے اپنا اور مسلمان کا معماملہ پیش کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو کیونکہ لوگ قیامت کے دن بے ہوش ہو جائیں گے اور میں ہی سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ ان لوگوں سے ہوں گے جو بے ہوش ہوئے ہوں لیکن مجھ سے پہلے انہیں ہوش آگیا ہو، یا اللہ تعالیٰ نے انہیں بے ہوش ہونے سے مستشنیٰ کر دیا تھا؟“
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت انبیاء علیہم السلام کے درجات میں باہمی تفاوت کو خود اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’یہ رسول ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور کچھ وہ ہیں جن کے درجات بلند کیے۔‘‘(البقرة:253) نیز فرمایا: ’’ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘(بني إسرائیل 55) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سرداروہوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 5940(2278) مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع اور انکسار کے طور پر فرمایا یا اس کا مطلب یہ ہے کہ میری اس طرح فضیلت ثابت نہ کرو جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توہین کا پہلو نمایاں ہو۔ 2۔اس حدیث کے آخر میں ایک استثناء کا ذکر ہے جس کی وضاحت درج ذیل آیت کریمہ میں ہے۔ ’’اور صور میں پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانی اور زمین میں مخلوق ہو گی۔سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ (بچانا) چاہے گا۔‘‘(الزمر39۔68) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہو گی جو بے ہوش نہیں ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس بے ہوشی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ شاید وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے ہوں یا وہ بے ہوش ہوئے ہی نہ ہوں اس لیے کہ وہ دنیا میں ایک بار بے ہوش ہو چکے تھے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مشیت الٰہی کو ثابت کیا ہے۔ کہ وہ عام ہے اور کائنات کی ہر چیز کو شامل ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے۔“ ”اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے۔“ ”کسی چیز کے متعلق کبھی یہ نہ کہنا کہ میں کل یہ ضرور کروں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے۔“ ”(اے نبی!) بے شک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہیں بلکہ اللہ ہی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا، اور ان سے اعرج نے بیان کیا (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی نے آپس میں جھگڑا کیا۔ مسلمان نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کو تمام دنیا میں چن لیا اور یہودی نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام دنیا میں چن لیا اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو طمانچہ مار دیا۔ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے اپنا اور مسلمان کا معاملہ آپ سے ذکر کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے موسیٰ ؑ پر ترجیح نہ دو، تمام لوگ قیامت کے دن پہلا صور پھونکنے پر بیہوش کر دئیے جائیں گے۔ پھر دوسرا صور پھونکنے پر میں سب سے پہلے بیدار ہوں گا لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ ؑ عرش کا ایک کنارہ پکڑے ہوئے ہیں، اب مجھے معلوم نہیں کہ کیا وہ ان میں تھے جنہیں بیہوش کیا گیا تھا اور مجھ سے پہلے ہی انہیں ہوش آ گیا یا انہیں اللہ تعالیٰ نے استشناء کر دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت موسیٰ ؑ پرفضیلت نہ دو یہ آپ نے تواضع کی راہ سے فرمایا یہ مطلب ہے کہ اس طور سے فضیلت نہ دو کہ حضرت موسیٰ ؑ کو توہین نکلے یا یہ واقعہ پہلے کا ہے جب کہ آپ کو معلوم نہ تھا کہ آپ سارے انبیاء سے افضل ہیں۔ استثناء کا ذکر اس آیت میں ہے (فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ)(سوره زمر) باب کا مطلب آیت کے لفظ إلا ماشاء اللہ سے نکلا جن سےجبرئیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل، رضوان، خازن بہشت، حاملان عرش مراد ہیں یہ بے ہوش نہ ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : "A man from the Muslims and a man from the Jews quarrelled, and the Muslim said, "By Him Who gave superiority to Muhammad over all the people!" The Jew said, "By Him Who gave superiority to Moses (ؑ) over all the people!' On that the Muslim lifted his hand and slapped the Jew. The Jew went to Allah's Apostle (ﷺ) and informed him of all that had happened between him and the Muslim. The Prophet (ﷺ) said, "Do not give me superiority over Moses (ؑ), for the people will fall unconscious on the Day of Resurrection, I will be the first to regain consciousness and behold, Moses (ؑ) will be standing there, holding the side of the Throne. I will not know whether he has been one of those who have fallen unconscious and then regained consciousness before me, or if he has been one of those exempted by Allah (from falling unconscious)." (See Hadith No. 524, Vol. 8)