کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ نساء میں ) ارشاد اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو جان کر اتارا ہے اور فرشتے بھی گواہ ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “…He has sent it down with His Knowledge, and the angels bear witness….”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مجاہد نے بیان کیا کہ آیت «يتنزل الأمر بينهن» کا مفہوم یہ ہے کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کے درمیان اللہ کے حکم اترتے رہتے ہیں(سورۃ الطلاق)تشریح: اس باب میں امام بخاری نے یہ ثابت کیتا کہ قرآن اللہ کا اتارا ہوا کلام ہے یعنی اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل ؑ کو یہ کلام سناتا تھا اور جبرئیلؑ حضرت محمدﷺ کو تو یہی قرآن الفاظ و معاونی اللہ کا کلام ہیں اس کو اللہ نے اتارا ہے مطلب یہ ہے کہ وہ مخلوق نہیں ہے جیسے کہ جہمیہ اور معتزلہ نے گمان کیا ہے
7488.
سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اے فلاں! جب تم اپنے بستر پر جاؤ یہ دعا ہڑھا کرو: ”اے اللہ! میں نے اپنے بستر کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنا رخ تیری طرف موڑ دیا میں نے اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا تجھ سے ڈرتے ہوئے اور تیری طرف رغبت کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا۔ تیرے سوا کوئی پناہ اور جائے نجات نہیں۔ اے اللہ! میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی کو مان لیا جو تو نے بھیجا ہے۔“ اگر تواس رات فوت ہو جائے تو فطرت اسلام پر تمہاری موت ہوگی اور اگر صبح کو زندہ اٹھے تو تجھے اجر وثواب ملے گا۔
تشریح:
1۔عنوان سابق میں اللہ تعالیٰ کا حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ہم کلام ہونا بیان ہوا تھا اور اس باب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اپنے علم کے مطابق نازل کیا ہے اور یہ قرآن کریم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر مبارک پر نازل ہوا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے گفتگو کی اور انھیں قرآن کریم اتارنے کا حکم دیا۔ اس طرح دونوں عنوانوں میں مناسبت ہے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسے اتارا گیا ہے، پیدا نہیں کیا گیا۔ نازل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام حادث ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ مخلوق کی صفات سے کسی طرح سے بھی مشابہ نہیں ہے۔ اس حدیث میں اس کتاب پر ایمان لانے کا ذکر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے، اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کیا ہے۔ بہرحال قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے کلام پر مشتمل ہے اور وہ اس کا نازل کیا ہوا ہےکسی اعتبار سے بھی مخلوق نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
اس عنوان سے یہ ثابت کرنامقصود ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا کلام ہے،یعنی اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو یہ قرآن سناتا تھا اور جبرئیل علیہ السلام یہی کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے۔یہ قرآن الفاظ ومعانی پر مشتمل ہے۔اسے اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں جیسا کہ جہمیہ اور معتزلہ کہتے ہیں۔جس طرح اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت لامحدود ہے اسی طرح اس کے کلام کی گہرائیاں اور حقائق بھی لامحدود ہیں۔فرشتوں کی گواہی اس لحاظ سے قابل اعتبار ہے کہ کائنات کے تمام امور اللہ تعالیٰ کے اذن سے انھی کے ہاتھوں سرانجام پارہے ہیں اوراللہ تعالیٰ کا کلام بھی انھی کے ذریعے سے نازل ہواہے۔دوسری آیت کریمہ کا مفہوم ہے کہ اس علم رنگ وبو کے انتظام وتدبیر کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکام ِتکوینہ اور شرعیہ ان آسمانوں اور زمینوں میں نازل ہوتے رہتے ہیں۔
مجاہد نے بیان کیا کہ آیت «يتنزل الأمر بينهن» کا مفہوم یہ ہے کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کے درمیان اللہ کے حکم اترتے رہتے ہیں(سورۃ الطلاق)تشریح: اس باب میں امام بخاری نے یہ ثابت کیتا کہ قرآن اللہ کا اتارا ہوا کلام ہے یعنی اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل ؑ کو یہ کلام سناتا تھا اور جبرئیلؑ حضرت محمدﷺ کو تو یہی قرآن الفاظ و معاونی اللہ کا کلام ہیں اس کو اللہ نے اتارا ہے مطلب یہ ہے کہ وہ مخلوق نہیں ہے جیسے کہ جہمیہ اور معتزلہ نے گمان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اے فلاں! جب تم اپنے بستر پر جاؤ یہ دعا ہڑھا کرو: ”اے اللہ! میں نے اپنے بستر کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنا رخ تیری طرف موڑ دیا میں نے اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا تجھ سے ڈرتے ہوئے اور تیری طرف رغبت کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا۔ تیرے سوا کوئی پناہ اور جائے نجات نہیں۔ اے اللہ! میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی کو مان لیا جو تو نے بھیجا ہے۔“ اگر تواس رات فوت ہو جائے تو فطرت اسلام پر تمہاری موت ہوگی اور اگر صبح کو زندہ اٹھے تو تجھے اجر وثواب ملے گا۔
حدیث حاشیہ:
1۔عنوان سابق میں اللہ تعالیٰ کا حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ہم کلام ہونا بیان ہوا تھا اور اس باب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اپنے علم کے مطابق نازل کیا ہے اور یہ قرآن کریم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر مبارک پر نازل ہوا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے گفتگو کی اور انھیں قرآن کریم اتارنے کا حکم دیا۔ اس طرح دونوں عنوانوں میں مناسبت ہے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسے اتارا گیا ہے، پیدا نہیں کیا گیا۔ نازل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام حادث ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ مخلوق کی صفات سے کسی طرح سے بھی مشابہ نہیں ہے۔ اس حدیث میں اس کتاب پر ایمان لانے کا ذکر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے، اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کیا ہے۔ بہرحال قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے کلام پر مشتمل ہے اور وہ اس کا نازل کیا ہوا ہےکسی اعتبار سے بھی مخلوق نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
امام مجاہد بیان کرتے ہیں کہ آیت کریمہ : ”ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے“ کا مفہوم یہ ہے کہ ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کے حکم اترتے رہتے ہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسحاق ہمدانی نے بیان کیا، ان سے براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے فلان! جب تم اپنے بستر پر جاؤ تو یہ دعا کرو «اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.» اے اللہ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کر دی اور اپنا رخ تیری طرف موڑ دیا اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا اور تیری پناہ لی، تیری طرف رغبت کی وجہ سے اور تجھ سے ڈر کر۔ تیرے سوا کوئی پناہ اور نجات کی جگہ نہیں، میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے نبی پر ایمان لایا جو تو نے بھیجے۔ پس اگر تم آج رات مر گئے تو فطرت پر مرو گے اور صبح کو زندہ اٹھے تو ثواب ملے گا۔،،
حدیث حاشیہ:
لفظ بکتابك الذي أنزلت سے باب کا مطلب ثابت ہوا کہ قرآن مجید اللہ کا اتارہ ہوا کلام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' bin 'Azib: Allah's Apostle (ﷺ) said, "O so-and-so, whenever you go to your bed (for sleeping) say, 'O Allah! I have surrendered myself over to you and have turned my face towards You, and leave all my affairs to You and depend on You and put my trust in You expecting Your reward and fearing Your punishment. There is neither fleeing from You nor refuge but with You. I believe in the Book (Qur'an) which You have revealed and in Your Prophet (ﷺ) (Muhammad) whom You have sent.' If you then die on that night, then you will die as a Muslim, and if you wake alive in the morning then you will receive the reward." (See Hadith No. 323, Vol. 8)